تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     19-09-2021

ہنوز ترکی دور است!

جہاز کی پشت سے سر ٹکا کر ایک لمبا گہرا آسودہ سانس لیا تو میرا ذہن مختلف باتیں سوچ رہا تھا۔ جہاز کی پرواز سے پہلے ہی ذہن کی اڑان شروع ہو چکی تھی۔ سب سے بڑا مخمصہ یہ سوال تھا کہ پہلے زمانوں میں سفر زیادہ آسان تھا یا آج کل زیادہ آسان ہے؟ بظاہر آسان جواب ہے لیکن جتنا سوچتا تھا الجھتا جاتا تھا۔ پہلے زمانوں کے مسائل‘ مسافتیں‘ دشواریاں اور سفر کا دورانیہ بھی یاد آتا تھا اور وہ دقتیں بھی جو گزشتہ پندرہ دن میں بھگت کر جہاز کی اس نشست تک پہنچا تھا اور ایک لمبا گہرا آسودہ سانس لینے کا موقع ملا تھا۔ جمعہ 17ستمبر 2021‘ اس وقت ٹرکش ایئرلائن کے جہاز میں اڑان بھرنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ لاہور سے استنبول ترکی کی پرواز ہے۔ لاہور میں علی الصبح کا وقت ہے اور استنبول جو دو گھنٹے پیچھے ہے ابھی رات کے آخری پہر کے غلاف میں ہے۔ اس سے پہلے تین بار ترکی جانے کا موقع ملا اور اللہ کا شکر ہے اس کی بہت خوشگوار یادیں نہ صرف میرے ذہن میں محفوظ ہیں بلکہ 'مسافر‘ نامی اپنے سفرنامے کے صفحات پر بھی ثبت ہیں۔ کسی شہر یا ملک یا علاقے میں پہلی بار کا اشتیاق اور تجسس منفرد ہوتا ہے لیکن استنبول کے معاملے میں چوتھی بار بھی یہ دونوں اسی طرح ہم سفری نباہ رہے ہیں۔ ترکی کے سفر کا تجسس اور اشتیاق ہے کہ اب تک کم نہیں ہوتا۔ یہ دیس ہی کچھ ایسا ساحر ہے کہ اپنا سحر ٹوٹنے نہیں دیتا۔ کم کم ملکوں کی طرف دل اس طرح کھنچتا ہے جیسے ترکی کی طرف۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ جادوگری اس کے مناظر کی ہے‘ موسم کی‘ لوگوں کے خوبصورت خدوخال اور رویوں کی‘ تاریخ کی یا رہن سہن کی؟ دل خاموشی سے بتاتا ہے کہ ان سب میں سے کوئی جزو بھی کم ہوجائے تو وہ کوئی اور دیس ہوجائے گا۔ وہ طلسمی دیس نہیں رہے گا جس کا نام ترکی ہے۔
وہ سوال مسلسل چکرا رہا ہے کہ پرانے زمانے کے سفر کے مسائل زیادہ تھے یا آج کل کے۔ کیا پہلے سفر کی تیاری میں پی سی آر ٹیسٹ کروانا پڑتا تھا؟ یا منزل پر پہنچ کر ایک کمرے میں قید ہوکر دس دن کاٹنے پڑتے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ خیر اس سوال کاجواب ایک طرف رکھیں۔ روداد سن لیں، جواب مل جائے اور شافی ہوتو مجھے بھی بتا دیجیے گا۔20/25 دن پہلے ایک عزیز ترک دوست نے رابطہ کیا اور اطلاع دی کہ ترکی اسلامی ملکوں کے نامور اشاعتی اداروں کی ایک تنظیم تشکیل دے رہا ہے اور اس تنظیم کے تحت 50 ملکوں سے مختلف ناشرین کو اکٹھے ہونے کی دعوت دی جارہی ہے‘ ہرملک سے ایک نمائندہ شرکت کرے گا۔ پاکستان سے آپ کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ کیا آپ اس اجتماع میں شریک ہوسکیں گے؟
نیکی اور پوچھ پوچھ کا محاورہ نامکمل سا ہے۔ نیکیاں اور پوچھ پوچھ کی گنجائش بھی ہونی چاہیے تھی۔ ایک تو مسلم ممالک کے ناشرین کی ایک عالمی تنظیم کا خیال وہ تھا جو مجھے بہت عرصے سے بار بار آتا رہاکہ کاش ایسا کچھ ہوسکتا۔ یہ کام اتنا بڑا ہے کہ ہم جیسے اسے صرف سوچ ہی سکتے تھے۔ اگر عالمی سطح پران ناشرین کا کوئی مرکزی پلیٹ فارم موجود ہوتو ان ممالک میں کتابوں کی ترسیل بہتر ہوجائے اور اجازت یافتہ کتابوں کی اشاعت بھی آسان ہوجائے۔ جعلی کتب بہت حد تک کم ہوجائیں۔ اب یہ علم ہواکہ ترکی نے انہی خطوط پر کام شروع کردیا ہے تو ظاہر ہے یہ دلی خواہش پوری ہونے کی سبیل تھی۔ دوسرے یہ کہ اس طرح مسلم ممالک کے ان ناشرین سے رابطہ اور ملاقات ہوجائے گی جن کا اب تک صرف ذکر سن رکھا ہے‘ اور تیسرے یہ کہ اپنے محبوب استنبول سے، بحر مرمرا سے، باسفورس سے اور سنہری سینگ یعنی گولڈن ہارن سے پھر جپھی ڈال کر ملنے کا موقع ملے گا۔ نیکیاں،اتنی ساری نیکیاں اور پوچھ پوچھ؟
اگلے ہی دن دعوت نامہ وصول ہوگیا۔ منتظمین نے رابطہ کرکے سفری تفصیلات لے لیں اورورک شاپ کی تاریخیں بھی بتادیں لیکن عملی مسائل کا جلد ہی اندازہ ہونے لگا۔ ٹریول ایجنٹ نے بتایاکہ ترکی نے الگ الگ صورتحال کے مطابق ہر ملک کیلئے قواعد مقرر کیے ہیں۔ پاکستان سے ترکی جانے والوں کو 10دن کا اپنے خرچے پر کورنٹین کرنا لازمی ہے‘ اس میں کوئی چھوٹ نہیں اور اس دوران ہوٹل‘ کمرے سے نکلنا منع ہے۔ سات دن بعد پی سی آر ٹیسٹ کروایا جاتا ہے‘ وہ ٹھیک آجائے تو قید تنہائی ختم۔ قفس کا دروازہ کھل جاتا ہے ورنہ سیدھے سیدھے گھرواپس۔
یہ بری اطلاعات تھیں‘ اس لیے کہ اگر یہ ارادہ کربھی لیا جاتا توورکشاپ سے 10دن پہلے پہنچنا ضروری تھا۔ اس لحاظ سے 7 ستمبر کواستنبول پہنچنا چاہیے۔ دل نے کہا میاں! تمہاری چاہت اپنی جگہ لیکن ''ایہہ کلے بندے دا کم نئیں‘‘ سو معاملہ کھٹائی میں پڑنے لگا۔ از سر نو جان اس وقت پڑی جب ترک میزبانوں نے پیشکش کی کہ آپ 7 ستمبر کو آجائیے‘ قرنطینہ ہمارے خرچے پر ہمارے ذمے۔ یہ قدرے بہتر صورتحال تھی لیکن قید تنہائی کی سزا اس میں بھی برقرار تھی۔ ترک دوست سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کواس اجتماع میں ضرور شرکت کرنی چاہئے ورنہ بہت سے ملکوں کی شمولیت ہوگی اور پاکستان کی کمی محسوس کی جائے گی۔ اس قیمتی مشورے کے بعد میں نے قرنطینہ سمیت شمولیت کی رضامندی میزبانوں کو بھیج دی۔ اب میں ذہنی طور پر ہوٹل میں 10 دن کی قید کاٹنے کیلیے تیار تھا اور بکنگ کا انتظار کررہا تھا۔ یہ 3 ستمبر کی بات ہے۔ لیکن اسی رات کوئی دعا قبول ہوئی اور کوئی نیکی کام آگئی۔ راتوں رات ترک حکومت نے پاکستانیوں کیلئے بہت سی پابندیاں ہٹا دیں جن میں قرنطینہ کا خاتمہ بھی تھا۔ صرف نیگٹو پی سی آر ٹیسٹ رپورٹ کی بنیاد پر سفرکی اجازت دے دی گئی۔ شنید ہے کہ اس میں پاکستانی سفارتخانے کی کوششوں کا بڑا دخل تھا۔ اسی رات ترک میزبانوں نے یہ اچھی خبر پہنچائی کہ اب آپ آرام سے 17ستمبر کو آسکتے ہیں۔
لیکن ہنوز ترکی دور است۔ ویزا اوراس کے متعلقات کے مراحل جوں توں سر ہوئے اور ٹرکش ایئر کی 17 ستمبر کی پرواز میں نشست کا مرحلہ آیا تو میزبانوں کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ٹکٹ نہایت مہنگا تھا اور اس قیمت پر بھی کوئی ایک سیٹ بھی دستیاب نہیں تھی۔ میں نے ہر جتن کردیکھا، میزبانوں نے پوری کوشش کرڈالی لیکن ٹرکش ایئرلائن ٹس سے مس نہ ہوئی۔ دیگر ایئرلائنز میں مہنگا ٹکٹ اکا دکا دستیاب تھا لیکن وہ براہ راست پرواز نہیں تھی اور افغانستان کی صورتحال کے باعث ٹرانزٹ پر ترک حکومت نے کئی پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ سو یہ راستہ بھی بند تھا۔
12 ستمبر کو جب یہ سفر بظاہر ایک بندگلی میں آکھڑا ہوا تھا، کوئی نیکی‘ کوئی دعا پھر کام آگئی۔ میزبانوں کی سرتوڑ کوشش سے ایک نشست مل گئی اور اس کی خوشخبری مجھے دے دی گئی۔ اب ضروری کام نمٹانے تھے۔ سفر کی تیاری تھی۔ ورک شاپ کیلئے آرٹیکل کی تکمیل تھی اور ہاں 72 گھنٹے پہلے پی سی آر ٹیسٹ اور یہ ٹیسٹ ہر جگہ کا نہیں، صرف ان لیبارٹریوں کا جو ٹرکش کے پینل پر ہیں۔ لیکن ہرگز غلط نہ سمجھیں۔ یہ جو میں نے کم وقت اور کالم کی کم جگہ کی وجہ سے جلدی جلدی بہت سے مراحل بیان کردئیے، انہیں سرسری نہ جانیے۔ ان میں ہراک جہان دیگر تھا۔ گزرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے۔
اب جب چند گھنٹے بعد ہم استنبول اتریں گے تو اس کام کا آغاز ہوگا جس کیلئے اتنے سارے کاموں کی تمہید باندھی گئی ہے۔ زندگی ہے بھی تو یہی۔ ایک اہم کام کیلئے بے شمار تمہیدی کام کرنے ضروری ہیں جن میں ہر ایک بذات خود اہم ہوتا ہے۔ اور یہ سفری مسائل تو کچھ بھی نہیں‘ ان اندھیروں کے سامنے جن سے زندگی نے شاعر کو گزارا تھا اور کم و بیش ہر ایک کو گزارتی ہے۔ مجھے اپنے والد مرحوم جناب زکی کیفی کا شعر یاد آرہا ہے
اب کھڑا سوچ رہا ہوں سرِ منزل کیفی
آدمی کتنے اندھیروں سے گزر سکتا ہے
جہاز اڑان بھر چکا ہے اور گہرے اندھیروں سے گزر رہا ہے۔ دور افق پر کوئی روشنی سی جھمکتی ہے۔ شاید اس منزل کی جہاں ہمیں پہنچنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved