سیاست سے مجرموں کی صفائی کرنے میں سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ خاصا مددگار ثابت ہوگا۔ اب تک قانون اتنا زیادہ ڈھیلا ڈھالا تھا کہ عدالتوں میں جرم ثابت ہو جانے اور سزا کا اعلان ہو جانے کے باوجود ہمارے ارکان پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکتا تھا۔ نہ تو وہ جیل جاتے تھے اور نہ ہی ان کی رکنیت چھنتی تھی، کیونکہ وہ عوامی نمائندگی ایکٹ (Public Representative Act ( کے مطابق تین ماہ کے اندر اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کر دیتے تھے۔ اپیل تو اپیل ہوتی ہے۔ دروپدی کے چیر سے بھی لمبی! اس پر فیصلہ آئے، اس سے پہلے ہی دوسر ا لیکشن آ جاتا ہے۔ یعنی آپ رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی۔ سپریم کورٹ نے اب جو فیصلہ دیا ہے، اس کے مطابق جونہی کسی رکن پارلیمنٹ یا رکن اسمبلی کے خلاف دو سال سے زیادہ کی سزا کا فیصلہ آیا تو اس کی رکنیت فوری طور پرختم ہو جائے گی۔ وہ الیکشن لڑنے کے قابل نہیں رہے گا اور جب تک سزا بھگتے گا، ووٹ دینے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ ابھی صورتحال یہ ہے کہ ممبر پارلیمنٹ اور ممبر اسمبلی جیل میں رہتے ہوئے ہی ووٹ دینے بھی جاتے ہیں اور اپنی امیدواری کا پرچہ بھی بھرتے ہیں۔ کئی ’نامی گرامی‘ رہنماؤں نے توجیل میں رہتے ہوئے ہی انتخابات بھی جیتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے کوشش کی تھی کہ وہ مجرمانہ کردار کے امیدواروں کی شناخت کرے۔ اس نے یہ بندوبست کر دیا تھا کہ ہر امیدوار پرچہ بھرتے وقت واضح کرے کہ اس پر کون کون سے مقدمے چل رہے ہیں اور اسے کن کن معاملات میں سزا ہو چکی ہے۔ اس طرح کی معلومات عام کرنا کچھ فائدہ مند ضرور ثابت ہوا لیکن ہماری سیاست میں مجرموں کا بول بالابنا رہا۔ کل 4807 اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی میں سے 1460 نے اپنے حلف ناموں میں کہا ہے کہ ان پر مقدمے چل رہے ہیں۔ ان میں سے بھی 688 پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں، جن کی سزا کم سے کم پانچ سال سے لے کر پھانسی تک ہے۔ 543 اراکین پارلیمنٹ میں سے 162 اور 4302 اراکین اسمبلی میں سے 1258 پر مقدمے چل رہے ہیں۔ ان اراکین پارلیمنٹ اور اسمبلی میں تمام جماعتوں کے رہنما شامل ہیں۔ کئی وزیر ہیں، وزیر اعلی بھی ہیں۔ اس حوالے سے جھارکھنڈ، بہار اور اتر پردیش سب سے آگے ہیں۔ صرف منی پور ایسا واحد صوبہ ہے جس کے کسی بھی رکن اسمبلی پر کوئی مقدمہ نہیں چل رہا ہے۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے کہ منی پور کو یہ بیماری کیوں نہیں لگی؟ باقی سب ریاستوں میں یہ بیماری کیوں پھیلتی جا رہی ہے، یہ سب کو پتہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں جان بوجھ کر مکھیاں نگلتی ہیں۔ وہ اپنے مجرم لیڈروں کی رگ رگ سے واقف ہوتی ہیں لیکن انہیں پھر بھی ٹکٹ دے دیتی ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ ان میں الیکشن جیتنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ آج کے زمانے میں امیدواروں کی واحد قابلیت یہی ہے۔باقی ساری قابلیتیں بیکار ہیں۔ اصول، نظریات، کردار، عوامی خدمات‘ یہ سب ماضی کی خصوصیات رہ گئی ہیں۔ پارٹیوں کی اپنی شبیہ عوام میں پتلی پڑ گئی ہے۔ پارٹیوں کی مرکزی قیادت بھی ووٹروں کو پہلے کی طرح اپنے ساتھ بہا کر نہیں لے جا پاتی۔ شاید اسی لیے سیاسی جماعتیں مقامی امیدواروں کے بھروسے الیکشن لڑتی ہیں۔ پارٹیوں کو مجبوری میں مجرموں کو امیدوار بنانا پڑتا ہے۔ یہ دبنگ لوگ دیگر امیدواروں کے لیے پیسہ اور کار کنان بھی جٹاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اب ملک کی تمام پارٹیوں کی مدد کرے گا۔ اس فیصلے کی وجہ سے مجرم اراکینِ پارلیمنٹ اور اسمبلی کی کافی حد تک فوری طور پر چھنٹائی ہو جائے گی۔ پارٹی رہنماؤں کو کسی بدمزگی کا شکار بھی نہیں ہونا پڑے گا۔ پارٹیاں ایسے لوگوں کو امیدوار بنانے میں بھی احتیاط برتیں گی جنہیں جیتنے کے بعد کسی بھی وقت استعفی دینا پڑے۔ یہاںیہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی رکن پارلیمنٹ کو مجرم ثابت ہونے پر نشست خالی کرنی پڑے اور اس کے بعد وہاںضمنی انتخابات میں کوئی شخص منتخب ہو جائے اور پھر اگر اپیل میں وہی رہنما بے قصور ثابت ہو جائے تو کیا وہ سیٹ اسے واپس مل جائے گی یا وہاں تیسری بار انتخاب کروایا جائے گا؟ یا کوئی ایسا بندوبست کیا جائے گا کہ جب تک اس کی اپیل پر فیصلہ نہ ہو جائے، وہ سیٹ خالی ہی رہے؟ لیکن ہماری عدالتوں کی حالت دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ بھی کیسے ٹھیک کہا جا سکتا ہے؟ اپیل پر فیصلہ آنے میں چار پانچ سال بھی لگ سکتے ہیں۔ تو کیا وہ سیٹ اتنے عرصے تک خالی ہی پڑی رہے گی؟ علاوہ ازیں آج کل مرکز اور صوبوں کی حکومتیں بہت کم اکثریت پر ٹکی ہوتی ہیں۔ دو چار رکن ادھر سے ادھر ہوئے نہیں اور حکومت گری نہیں۔ ایسی حالت میں یہ فیصلہ کہیں ہمارے موجودہ جمہوری ڈھانچے کو ہی ڈھیلا نہ کر دے؟ ڈر یہ بھی ہے کہ اپنے مخالفین کو کنارے لگانے کے لیے لیڈران عوام کی بجائے ججوں کو اپنا ہتھیار نہ بنا لیں؟ عوامی حمایت کے بجائے کہیںججوں کی حمایت کی سیاست نہ چل پڑے؟ حکمران پارٹی ججوں کو دبانے کی پرزور کوشش نہ کرنے لگے؟ اس فیصلے کے خلاف یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ عام شہری کے مقابلے میں رہنماؤں کے بنیادی حقوق میں کمی کی جا رہی ہے یعنی اس کی اپیل کے پہلے ہی اسے مجرم مان لیا جائے گا۔ اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ جس کی حصولیابی بڑی ہوتی ہے، اس کی قربانی بھی بڑی ہونی چاہیے۔ لیڈر کا طرز عمل مثالی ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو ان موجودہ ارکان پارلیمنٹ اور اسمبلی پر لاگو نہیں کیا ہے ، جنہوں نے ابھی اپنے خلاف دئے گئے فیصلے کے خلاف اپیلیں لگا رکھی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ فیصلہ ابھی سے نافذ ہو جاتا۔ اگر یہ ابھی لاگو ہو جاتا تو اس کا سیدھا فائدہ اگلے سال کے عام انتخابات میں ملتا اور ان ریاستوں کے انتخابات میں بھی، جو اسی سال ہونے والے ہیں۔ جب یہ نافذ ہو گا، کچھ چمتکاری نتائج ضرور سامنے آئیں گے لیکن ہم یہ نہ بھولیں کہ صرف عدالتوں اور قانون کے دم پر ہم سیاست سے جرم اوربد عنوانی کو ختم نہیں کر سکتے۔ ہماری عدالتوں میں تین کروڑ مقدمے پہلے سے ہی لٹکے ہوئے ہیں اور وہ خود بھی بدعنوانی سے پاک نہیں ہیں۔ عدالتوں کو اور پورے ایڈ منسٹریٹو نظام کو صاف رکھنے کے لیے جس قومی کردار کی تعمیر کی ضرورت ہے، اس تحریک کا اعلان کرنے والی طاقت کا طلوع ہونا ابھی باقی ہے۔ (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved