تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-09-2021

جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول

یہ بھی کیا عہد ہے کہ صرف باتوں سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر معاملہ بات سے شروع ہوکر بات پر ختم ہو رہا ہے۔ عمل وہ لفظ ہے جو اب صرف بولنے اور لکھنے کے دوران استعمال کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔ بولنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ ہر معاملے میں کھل کر کئے جانے والے اظہارِ خیال ہی کو حتمی ہدف و مقصد گردان لیا گیا ہے۔
ہر انسان کو اس دنیا سے ایک دن جانا ہے۔ دنیا میں اپنے قیام کے دوران ہمیں بہت کچھ لینا اور بہت کچھ دینا ہے۔ ہزاروں برس کے عمل میں دوسروں نے جو کچھ کیا ہے اُس کا پھل ہم کھارہے ہیں۔ صدیوں تک کی جانے والی تحقیق کے حتمی اور بارآور نتائج کے ذریعے ہمیں بہت سی آسانیاں ملی ہوئی ہیں۔ دنیا کا میلہ ہمارے لیے ہی تو سجایا گیا ہے۔ اس دنیا میں جو بھی آیا ہے اُسے بہت کچھ ملا ہے اس لیے لازم ہے کہ وہ بھی کچھ کرکے جائے۔ بولنا بھی انسان کے لیے بہت اہم ہے مگر محض بولنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس دنیا کو اگر کچھ ملا ہے تو صرف عمل سے۔ ہاں‘ عمل اگر سوچ سمجھ کر کیا جائے تو کئی گنا پھل دیتا ہے‘ مطلوب نتائج تک پہنچنے میں غیر معمولی سطح پر معاون ثابت ہوتا ہے۔ علم اور عمل کے درمیان ہم آہنگی انسان کو غیر معمولی‘ بلکہ قابلِ رشک نتائج دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر دور میں وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے اہداف و مقاصد کا تعین کرکے خوب سوچ بچار کے بعد عمل کے میدان میں قدم رکھا۔
حقیقت کی دنیا میں عمل چلتا ہے۔ عمل ہی وہ کرنسی ہے جس کے ذریعے کامیابی خریدی جاسکتی ہے۔ حقیقت پسندی وہ وصف ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کا شعور عطا کرتا ہے۔ حقیقت پسند انسان اپنے پورے ماحول کا جائزہ لینے کے بعد اپنی شخصیت کا بھی جائزہ لیتا ہے تاکہ اپنی صلاحیت و سکت کے بارے میں درست ترین اندازہ لگانا ممکن ہوسکے۔ جب اپنی سکت کا اندازہ ہو جاتا ہے تب کچھ کرنے کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ یہ لگن صرف ان میں پائی جاتی ہے جو محض بولنے یا بولتے رہنے کو اپنے لیے یا دنیا کے لیے سب کچھ نہیں سمجھتے۔ بولنے کی صلاحیت کو نظر انداز کرنا حماقت ہے مگر محض بولنے کی صلاحیت ہی کو سب کچھ سمجھ لینا حماقت کی انتہا ہے۔ آپ بغور جائزہ لیں تو اپنے ماحول میں بھی ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو بولنے کی منزل میں رکے ہوئے ہیں‘ عمل کی طرف قدم بڑھانے کی اُن میں لگن ہے نہ سکت۔ سکت کا تعلق اگرچہ جسم سے ہے مگر یہ بہت حد تک ذہنی معاملہ بھی ہے۔ بہت سے لوگوں میں سکت ہوتی تو ہے مگر دبی رہتی ہے‘ بروئے کار نہیں لائی جاتی کیونکہ ذہن اس کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ذہن کی آمادگی کے بغیر عمل کی طرف قدم بڑھانے کی خواہش یا لگن پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے لوگ کسی بھی بڑے کام کے لیے مطلوب اہلیت اور طاقت کے ہوتے ہوئے بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ وہ ذہن کو تیار کرنے کی اہمیت سمجھتے ہی نہیں۔ اس غلطی کا خمیازہ کبھی کبھی بڑے پیمانے پر وقت اور وسائل کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں یا جن چیزوں سے مستفیدہو رہے ہیں وہ گزرے ہوئے زمانوں کے انسان کی کاوشوں یعنی عمل کا نتیجہ ہے۔ ہزاروں برس میں لوگوں نے مختلف شعبوں میں جو کچھ کیا اُس کا درجۂ کمال ہمیں بیسویں صدی میں دکھائی دیا اور اکیسویں صدی میں تو حد ہی ہوگئی ہے۔ آج کی دنیا گزرے ہوئے زمانوں میں کہانیوں کی شکل میں پائی جانے والی جادوئی دنیا سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔ آج عام آدمی کی زندگی میں وہ سب کچھ ہے جس کا گزرے ہوئے زمانوں میں صرف خواب دیکھا جاسکتا تھا۔ اور بعض اشیا و خدمات تو خواب و خیال میں بھی نہیں پائی جاتی تھیں۔ اب ذرا یہ بھی سوچیے کہ یہ سب کچھ کیا محض بولنے سے ہوگیا۔ کیا محض بولنے سے اس دنیا کو تبدیل کیا جاسکتا ہے‘ بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا درست جواب دینے کے لیے کسی کا بہت باشعور ہونا لازم نہیں۔ عمومی سطح کی عقل رکھنے والے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج ہمیں جو اشیا و خدمات دکھائی دے رہی ہیں اور ہماری زندگی کو آسان سے آسان تر بناتی جارہی ہیں وہ سب کی سب گزرے ہوئے زمانوں کے انسانوں کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ اگر انہوں نے عمل کی دنیا میں قدم نہ رکھا ہوتا تو آج ہمیں یہ سب کچھ میسر نہ ہوتا۔ گزرے ہوئے زمانوں کے انسانوں نے جو کچھ کیا اُس کا مشترکہ‘ حتمی پھل ہمیں نصیب ہوا ہے۔
اب ذرا سوچیے کہ اگر ڈیڑھ دو ہزار سال کی مدت میں صرف باتیں کی گئی ہوتیں اور عمل کی دنیا میں کچھ بھی کر دکھانے سے گریز کیا گیا ہوتا تو آج ہمیں کیا ملتا۔ آج جو کچھ میسر ہے اُس سے بہت کم اور وہ بھی قدرے شکل میں۔ معلوم تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے سامنے آج جو کچھ ہے وہ کم و بیش ڈھائی تین ہزار سال کی مدت کے دوران پروان چڑھنے والی سوچ اور اُس پر عمل کا نتیجہ ہے۔ اس پوری مدت کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ سوچنے والوں نے سوچا اور عمل کرنے والوں نے اُس پر عمل کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیا۔ اگر کہیں کوئی کوتاہی برتی جاتی تو آج ہمارے پاس بہت کچھ نہ ہوتا یا جو کچھ بھی ہوتا وہ قدرے خام شکل میں ہوتا اور ہماری زندگی میں وہ آسانیاں ہو ہی نہیں سکتی تھیں جو آج ہیں۔
آج کا انسان بہت کچھ پانے کے بعد انتہائی سست ہوچکا ہے۔ زندگی تن آسانی سے عبارت ہے۔ ایک صدی سے بھی زائد مدت سے ماہرین یہ سوچتے آئے ہیں کہ جب فطری علوم و فنون میں فقید المثال نوعیت کی پیش رفت ممکن بنا لی جائے گی تب انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک ملے گی اور زندگی کا معیار بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا۔ یہ توقع غیر منطقی نہیں تھی کیونکہ بیشتر بنیادی سہولتوں کی موجودگی میں کسی بھی شعبے کا معیار بلند ہوتا جاتا ہے۔ خام مال اچھا ہو تو چیز اچھی بنتی ہے۔ اسی طور اگر بنیادی خدمات اور سہولتیں میسر ہوں تو کام کے معیار کا بلند ہونا بھی فطری ہے اور اس حوالے سے ظاہر کی جانے والی توقعات کو غیر منطقی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے میں یہ بات بہت افسوس ناک ہے کہ بیسویں صدی کے دوران اور اب اکیسویں صدی میں عام آدمی کی زندگی میں معیار کی وہ بلندی دکھائی نہیں دی جو ممکن بنائی جانی چاہیے تھی۔
آج کے انسان نے سوچ لیا ہے کہ اب سب کچھ تو حاصل ہوچکا ہے‘ پھر محنت کیوں کی جائے۔ مادی اعتبار سے بہت کچھ یا تقریباً سب کچھ مل چکا ہے۔ ایسے میں انسان کے لیے اخلاقیات‘ روحانیات اور انسانیت کا شعبہ بچا ہے۔ آج کے انسان کو کچھ بنانا نہیں بلکہ اپنی زندگی کو بنانا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی گراوٹ بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ نہ پانے اور بہت کچھ ملنے پر بھی بہت کچھ ہاتھ سے جاتے رہنے کا احساس اس لیے ہے کہ انسان مادی معاملات میں الجھ کر زندگی کے روحانی اور اخلاقی پہلو کو یکسر بھلا بیٹھا ہے۔
آں جہانی مکیش کمار ماتھر نے فلم ''دھرم کانٹا‘‘ کے لیے ایک گیت گایا تھا جو راج کپور پر فلم بند کیا گیا تھا۔ گانے کا مکھڑا تھا
اِک دن بک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
دوجے کے ہونٹوں کو دے کر اپنے گیت
کوئی نشانی چھوڑ‘ پھر دنیا سے ڈول
جی ہاں‘ انسان کی یہی حقیقت ہے کہ وہ مٹی کے دام بک جائے گا‘ دنیا سے چلا جائے گا مگر اُس کے بول باقی رہ جائیں گے۔ شاعر انسان سے کہنا یہ چاہتا ہے کہ یہاں سے کچھ کرکے جا تاکہ صرف بول نہ بچیں‘ کچھ عمل بھی رہے۔ کوئی اگر یہاں آہی گیا ہے تو کچھ ایسا کرکے جائے کہ لوگ یاد رکھیں۔ اپنے گیت دوسروں کے ہونٹوں کو دے کر جانا ہے تاکہ وہ زندہ رہیں۔ رختِ سفر باندھنے سے قبل اس دنیا کے لیے کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑنی ہے۔ یعنی صرف باتیں بگھار کر نہیں بلکہ کچھ کرکے جانا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved