تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     19-09-2021

وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اصل ہتھیار

''سوری رانگ نمبر‘‘۔ چلکوٹ رپورٹ پر ٹونی بلیئر نے یہی کہا تھا۔ عراق پر جنگ مسلط کرنے کی اس وقت وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ چلکوٹ رپورٹ نے اس کا بھانڈ ا پھوڑ دیا تھا۔ ٹونی بلیئر نے ''سنجیدگی‘‘ سے معذرت تو کی لیکن اپنے فیصلے کے جواز سے پیچھے نہ ہٹے۔وہ فیصلہ جس کے نتیجے میں دس لاکھ کے قریب انسانی جانیں ضائع ہوئیں ‘ ایک ملک تباہ ہوگیا‘ وہ فیصلہ جس نے خطے کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ۔ وہ فیصلہ جس نے بے شمار عراقی نوجوان مردوں اور خواتین کی آرزوئوں اور امنگوں کو روند ڈالا۔انسانی جانوں کو پہنچنے والا نقصان بے جان اعدادوشمار کا حساب کتاب نہیں ہوتا‘ وہ جیتے جاگتے انسان ہوتے ہیں۔ کاسٹ آف وارپراجیکٹ واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹر نیشنل سٹڈیز‘ برائون یونیورسٹی کے مطابق '' اس جنگ میں کم از کم 134,000عراقی شہری جاں بحق ہوئے تھے اورممکن ہے کہ ہونے والی ہلاکتیں اس سے چار گنا زیادہ ہوں ۔‘‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا اس جنگ کا نقصان دوٹریلین ڈالر تھا۔ یہ جانے پہچانے اعدادوشمار ہیں۔
یہ 2003 ء اور اس کے بعد کے واقعات ہیں۔ افغانستان میں اس صورت حال کا تازہ ترین اعادہ ہوا ہے ۔ مزید ہتھیار‘ مزید جنگ‘ مزید خوف‘ مزید جانی نقصان‘ مزید لاگت۔ یہاں بھی دو ٹریلین ڈالر جنگ میں جھونک دیے گئے ۔ ان جنگوں کی قیمت کا جائزہ ایک ناقابل یقین تصویر پیش کرتا ہے ۔ ان نتائج کا جدول شائع کرنے والی برائون یونیورسٹی کے مطابق امریکا افغان جنگ پر 2.26 ٹریلین ڈالر جیسی ہوشربا رقم خرچ کر چکا ہے ۔ اس کے مقابلے میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے لیے القاعدہ کو صرف ڈھائی لاکھ ڈالر خرچ کرنے پڑے تھے ۔
چونکہ یہ رقم بجٹ سے نکالنے کی بجائے ادھار لی گئی تھی اس لیے امریکا اس پر 530 بلین ڈالر کا سود بھی ادا کرچکا ہے۔ فوجی کارروائیوں پر 816 بلین ڈالر اور افغان سکیورٹی فورس کی ٹریننگ اور اُنہیں مسلح کرنے پر مزید 88 بلین ڈالر صرف ہوئے۔سولین تعمیرات اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر 143 بلین ڈالر خرچ کیے گئے ۔ دوسری طرف انسانی فلاحی سرگرمیوں اور آفت زدگان کی امداد کے لیے صرف 4.1 بلین ڈالر اور انسداد منشیات کے لیے نوبلین ڈالر خرچ کیے گئے ۔ عقل حیران ہے۔ ایسی ناقص اور ناکام حکمت عملی جاری رکھنے پر کیوں اصرار کیا جاتا رہا؟
1۔ دفاعی صنعت کا منافع: دفاعی صنعت امریکی معیشت کا ایک بڑا حصہ چلاتی ہے ۔ یہ معیشت جنگوں کی مرہون منت ہے ۔ کچھ حقائق اس معروضے کی تائید کرتے ہیں ۔ امریکا کے پانچ سب سے بڑے ڈیفنس کنٹریکٹر بوئنگ‘ رے تھیون‘ لاک ہیڈ مارٹن‘ نارتھروپ گرومن اور جنرل ڈائنا مکس ہیں ۔ ان پانچوں کی گزشتہ دو عشروں کی ریٹرن 872.94فیصد ہیں ۔ 2001 ء میں 10,000 ڈالرکے خریدے گئے سٹاک کی آج قیمت 97,294ڈالر ہے یعنی 18ستمبر 2001ء کو جب صدر جارج ڈبلیو بش نے فوجی قوت کے استعمال کے حکمنامے پر دستخط کئے تھے اگر کسی نے امریکہ کے پانچ بڑے ڈیفنس کنٹریکٹرز میں دس ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوتی تو اس وقت اس کے حصص 97,294 کے ہو گئے ہوتے۔ یہی رقم اگر امریکی سٹاک ایکسچینج کی S&P 500انڈکس میں لگائی جاتی تو یہ 61,612 تک بڑھ سکتی تھی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ امریکہ کے پانچوں بڑے ڈیفنس کنٹریکٹرز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سب سے طاقتور افراد اعلیٰ فوجی افسران(ریٹائرڈ) ہیں۔ ممکن ہے کہ سیاسی طور پر یہ ایک تباہی ہو لیکن جن کے ہاتھ میں اختیار ہے ان کے لیے مزید جنگوں کا مطلب مزید ڈالر ہیں ۔
2۔ علاقائی بنیادیں : عالمی طاقت بننے کے لیے علاقائی کنٹرول حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تزویراتی حکمت عملی کا ارتکاز طاقت کے علاقائی مراکز کو تلاش کرنا اور قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ لاطینی امریکا میں وہ وینزویلا میں متوازی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ میں عراق میں ایسی کوشش کردیکھی۔ جنوبی ایشیا میں افغانستان ان کی مشقِ ستم بلکہ سفاکیت کانشانہ بنا۔ ان کا نسخہ وہ جانا پہچانا ہے ۔ کٹھ پتلی حکمران مسلط کریں‘ امدادی رقوم کے عوض اُن کی خدمات حاصل کریں اور اس ملک کی معیشت تعمیر کرنے کی آڑ میں اپنے دہری شہریت رکھنے والوں کو وہاں بھیج دیں جو وہاں سے مخصوص وسائل کو بیرونی ممالک میں ٹھکانے لگا دیں۔ اس سلسلے کا مشہور کیس ہالیبروٹن کمپنی کا ہے جو کبھی نائب امریکی صدر‘ ڈک چینی کی ملکیت تھی۔ پائوں رکھنے کی یہ جگہ حاصل کرتے ہوئے وہ خطے کو کنٹرول کرنے لگتے ہیں ۔ پاکستان نے جس طرح حال ہی میں اڈے دینے سے انکارکیا‘ یہ امریکا کے لیے ایک نئی بات تھی ۔
3۔ کشمکش اور کنٹرول: برطانوی سلطنت کا نسخہ‘ تقسیم کرواور حکومت کروتھا۔ اسے امریکیوں نے کشمکش اور کنٹرول میں تبدیل کردیا۔ اُنہوں نے ہائبرڈ جنگی نظام شروع کردیا۔ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی داخلی کشمکش نے بیرونی امداد اور مدد پر انحصار بڑھا دیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان کو شدید زک پہنچائی ۔
اقتصادی طور پر پاکستان کو اس جنگ کی قیمت 150 بلین ڈالر کے نقصان کے طور پر برداشت کرنی پڑی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا برائے تاوان اور انتہا پسندی کی آماجگاہ بن گیا۔ شام اور لیبیا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے بہت اہم ہے لیکن بہت سی بڑی طاقتوں کو یہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
چونکہ کھیل جنگ میں فتح حاصل کرنا نہیں بلکہ جنگی معیشت کو سہارا دیناہوتا ہے اس لیے اس کا توڑ کرنے کی حکمت عملی میدانِ جنگ میں شکست دینے کی بجائے تزویراتی میدان میں شکست سے دوچار کرنا ہونی چاہیے ۔ جس طرح امریکا کو افغانستان میں میدان جنگ میں شکست نہیں ہوئی ہے ‘ افغانستان امریکا کو عسکری اعتبار سے شکست دے کر نہیں جیتا ہے ۔ قوموں کو پیش بندی کی نئی تزویراتی جہت اپنانے اور جنگ کی تباہی سے بچ کر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی سکت کو بحال رکھنے کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے ؟
1۔ دل اور دماغ جیتیں: پائیدار کامیابی صرف اس صورت ممکن ہے اگر عوام اپنی مرضی سے آپ کے ساتھ کھڑے ہوں ۔ اس کے علاوہ باقی تمام جزو قتی حل ہیں ۔ طاقت‘ پیسہ اور قوت کا اثر پائیدار نہیں ہوتا۔ کسی ٹیم‘ قبیلے یا قوم کے لیے جنگ جاری رکھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اس کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرتے رہیں ۔ افغانستان اور عراق اس کی مثالیں ہیں کہ آپ طاقت سے جسموں کو فتح کرسکتے ہیں لیکن یہ فتوحات عارضی ہوں گی۔ حقیقی فتح عوام کا دل جیتنا ہے ۔ طالبان کے ساتھ بھی یہی صورت حال درپیش ہے ۔ جارح قوتوں اور حملہ آوروں کے خلاف لڑائی کے بلند مقصد نے اُن کا حوصلہ جوان رکھا ۔لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اُنہیں توازن پیدا کرنے کے لیے اُنہیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اُن کی ضروریات کا خیال رکھا جائے ‘ نہ کہ اُن پر اپنی مرضی مسلط کی جائے ۔
2۔ علاقائی حمایت حاصل کریں : ہمارے اپنے قریبی اور علاقائی ہمسایوں کے ساتھ سیاسی‘ سماجی اورمعاشی تعلقات کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ ملائیشیا اور ترکی جیسے ممالک ہر طرح کے ممالک اور ہر قسم کی ثقافت کے ساتھ مل کر چل سکتے ہیں ۔ ہر قسم کی جارحیت کے خلاف بہترین ہتھیار ''عزت کرواور عزت کروائو‘‘ ہے ۔ پاکستان کی نئی حکمت عملی علاقائی اور عالمی مشاورت اور تعاون پر مبنی ہے ۔ اس کا مستقبل میں ثمرات ضرورسامنے آئیں گے ۔
3۔ چھوٹی معیشت پر توجہ: معاشی ترقی کی بنیادکسی خاص مقصد پر ہونی چاہیے ۔ دہشت گردی کے باوجود سری لنکا اپنے جزائر‘ مالدیپ اپنے ساحلوں اور روانڈا اپنی کافی کے لیے شہرت رکھتا ہے ۔ افغانستان جیسے ممالک کو بھی اپنی چھوٹی معیشتوں کو ترقی دینی چاہیے‘ جو چاہے اس کے پہاڑوں پر مبنی ہویا معدنیات پر یا تاریخ پر۔غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا ایک لعنت ہے ۔ اس سے بچنے کے لیے ایسے داخلی استحکام کی ضرورت ہے جو بیرونی جھٹکوں کو سہار سکے ۔
وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اصل ہتھیار طاقت‘ دھوکا‘چالبازی‘ آنکھوں میں دھول جھونکنا‘ من گھڑت کہانیاں پھیلانا‘ گمراہ کرنا‘ غلط بیانی سے کام لینااور شخصی وقار کو نظر انداز کرنا ہیں۔ برطانیہ کے سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا''اب امریکا عالمی طاقت نہیں رہا۔‘‘ اچھی بات یہ ہے کہ صدر بائیڈن بھی فوجی طاقت پر مبنی حکمت عملی پر نظر ثانی کررہے ہیں ۔ اشارہ مل رہا ہے کہ مغربی طاقتیں بہت دیر سے گھسے پٹے طاقت کے معروضات پر سوچ بچار کرنے لگی ہیں۔اسی طرح طالبان کو بھی اپنے گورننس پر نظر ثانی کرنا ہوگی ۔ پاکستان ان کے درمیان ایک پُل کا کردارا دا کرسکتا ہے ۔ یہ فیصلے مستقبل کو اچھا بھی بنا سکتے ہیں او ر برا بھی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved