تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     20-09-2021

جمہوریت کے چیلنجز

جمہوریت حکمرانی کا ایک نازک نظام ہے۔ یہ عالمی سطح پر کسی بھی دوسرے نظام سے زیادہ مقبول ہے۔ اس نظام میں کچھ کمزوریاں ہیں، اور اسے خود غرض حکمرانوں کے ہاتھوں استحصال کا خطرہ رہتا ہے‘ لیکن صدیوں کے دوران وضع ہونے والے حکمرانی کے نظاموں میں جمہوریت کو اب بھی بہترین سمجھا جاتا ہے‘ تاہم کسی بھی قسم کے پارلیمانی یا صدارتی نظام کا نفاذ مسائل کے خوشگوار حل کی ضمانت نہیں دیتا۔
جمہوریت بذات خود مسائل کا حل نہیں ہے۔ جمہوریت کے مختلف برانڈ آپ کو سماجی، معاشی اور سیاسی ایشوز سے نمٹنے کے لیے اداروں اور طریقہ کار کا ایک مجموعہ فراہم کرتے ہیں۔ کامیابی کا انحصار ادارے بنانے‘ طریقہ کار وضع کرنے اور ان طریقوں پر کسی ملک کے اختیار کردہ جمہوری فریم ورک کے بنیادی اصولوں کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرنے پر ہے۔ اداروں اور طریقہ کار کی کارکردگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ جمہوری نظام میں مختلف عہدوں پر فائز افراد کا طرزِ عمل کیسا ہے۔ کیا وہ سیاسی نظام کو اس کی حقیقی روح کے مطابق سنبھال سکتے ہیں اور اپنے کاموں کو تندہی اور منصفانہ طریقے سے انجام دے سکتے ہیں؟ یہ طرزِ عمل نہ صرف جمہوری‘ سیاسی نظام کے تحت چلنے والے اداروں اور پروسیس کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے بلکہ یہ عام لوگوں کے مسائل کو بھی حل کرتا ہے۔ اگر جمہوری نظام لوگوں کو بنیادی خدمات فراہم کرتا ہے‘ معاشرتی تنازعات کو مؤثر طریقے سے حل کرتا ہے اور عام لوگوں کے مستقبل کے بہتر امکانات کے ساتھ ایک محفوظ زندگی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے تو سیاسی نظام وقت کے ساتھ ساتھ پھلتا پھولتا ہے۔
جمہوریت کی کامیابی کیلئے جو چیز سب سے زیادہ اہم انسانی کردار کا معیار ہے‘ جسے انسانی فائبر کہا جاتا ہے۔ یہ جمہوریت کو مضبوط کر سکتا ہے یا تباہ بھی۔ جمہوریت کا مستقبل ان لوگوں کے کردار پر منحصر ہوتا ہے جو سیاسی حکومت کے طور پر ریاستی طاقت استعمال کرتے ہیں یا ان سرکاری ملازمین پر جن کو مستقل حکومت گردانا جاتا ہے۔ اس میں فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ ان کی خوبیاں‘ جو اچھی حکمرانی کے لیے اہم ہیں‘ انسانی معیار، پیشہ ورانہ صلاحیت اور تفویض کردہ کام کو 'اپنی ذات سے بالاتر‘ انجام دینے کے عزم اور معاشرے و افراد کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے پر مشتمل ہیں۔ پاکستان میں ایک آئین کے تحت جمہوری سیاسی نظام ہے۔ ہمارے ملک نے صدارتی نظام (1962-69) اور چار آمرانہ حکومتوں کا تجربہ بھی کیا۔ انکے باوجود پاکستان میں جمہوریت سے عوامی وابستگی مضبوط ہے‘ تاہم جمہوریت کا معیار کمتر ہے۔ جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اسے عام لوگوں کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ یہ مقصد درج ذیل امور پر توجہ دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ایک جمہوری‘ سیاسی کلچر معیاری جمہوریت کی پیشگی شرط ہے۔ یہ سیاسی نظام میں کلیدی کھلاڑیوں کے جمہوری رجحانات کا مطالبہ کرتا ہے۔ برسر اقتدار یا اپوزیشن میں موجود سیاسی رہنماؤں کو ان جمہوری اقدار اور اصولوں کا احترام اور گہرائی تک مشاہدہ کرنا چاہیے جو ان کے ذاتی اور اجتماعی طرز عمل کی تشکیل کریں۔ یہ تضادات کا باعث بننے والے ایشوز پر ڈائیلاگ‘ باہمی احترام اور عوامی تقاریر میں تحمل کا تقاضا کرتا ہے۔ دیگر جمہوری خاصیتیں باہمی رواداری اور مسائل و اختلافات پر وسیع مشترکہ نقطہ نظر پر پہنچنے کے لیے متنوع خیالات کو جگہ دینا ہیں۔
سیاسی رہنما اپنی عوامی تقاریر میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ شائستگی اور نرمی جیسے پارلیمانی اصولوں کی عکاس ہونی چاہئے۔ گستاخانہ، توہین آمیز اور غیر پارلیمانی زبان استعمال نہیں کی جا سکتی۔ منتخب پارلیمنٹ جمہوری نظام میں مرکزی ادارہ ہے، خاص طور پر پارلیمانی جمہوریت میں۔ پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ توجہ قانون سازی، عوامی شکایات کے ازالے اور سماجی تنازعات کے حل پر دینی چاہیے۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو قومی اہمیت کے حامل معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ یقینی طور پر بحث مباحثہ اور معاشرتی تنازعات کو حل کرنے کا مقام ہونا چاہیے۔ اسے قوم کو سیاسی، سماجی اور معاشی ایشوز اور مسائل پر رہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔
پاکستان میں جمہوریت کے ناقص معیار کو کمزور جمہوری ثقافت سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی رہنما شائستگی اور نرمی کے پارلیمانی اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔ کئی سیاسی رہنما اپنے سیاسی حریف کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اکثر شور مچایا جاتا ہے اور اراکین ہنگامہ آرائی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پارٹی لیڈر اکثر اپنی پارٹی کے ان ارکان کی تعریف کرتے ہیں جو حریف پارٹی کے ارکان کے بارے میں غیر پارلیمانی تبصرے کرتے ہیں۔ 1988 کے بعد سے اب تک کسی اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدرِ مملکت کا خطاب پرامن طریقے سے نہیں سنا۔
جمہوریت کو ایک جمہوری آئین کی ضرورت ہوتی ہے جس میں جمہوری نظریے کی بنیادی خصوصیات شامل ہوں اور جو لوگوں کو شہری اور سیاسی حقوق کی ضمانت دے۔ اسے قانون کی حکمرانی کو غیر امتیازی بنیادوں پر قائم کرنا چاہیے۔ آئین کو ایسے ریاستی ادارے وضع کرنے چاہئیں جن میں واضح طور پر درج ہو کہ ان کے کردار اور افعال کیا ہیں اور یہ ادارے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کریں گے۔
جمہوریت کی ایک اور ضرورت منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ جمہوریت بے معنی ہے اگر عوام کو اپنے نمائندوں کو منصفانہ، آزادانہ اور شفاف طریقے سے منتخب کرنے کی آزادی نہ ہو۔ انتخابات کو حکومت کی مداخلت، کسی ادارے یا کسی طاقتور اور پرتشدد غیر سرکاری گروپ کے جانبدارانہ رویے سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اکثر ان حلقوں کے نتائج کو قبول نہیں کرتیں جہاں ان کے امیدوار ہار جاتے ہیں۔ وہ انتخابات میں ہیرا پھیری کی شکایت کرتی ہیں‘ لیکن یہ پارٹیاں انتخابی دھاندلی کی شکایات دور کرنے کے لیے مل بیٹھ کر کوئی میکانزم تیار کرنے پرآمادہ نہیں ہوتیں۔ کوئی بھی جمہوری نظام بامعنی طور پر کام نہیں کر سکتا اگر لوگوں کے شہری اور سیاسی حقوق کے تحفظ اور حکومت، منظم گروہوں اور دیگر اداروں کو آئینی حدود میں رکھنے کیلئے آزاد عدلیہ نہ ہو۔
مختلف حکومتی اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، اور انہیں سیاسی اور سماجی گروہوں کی طرف سے مناسب احترام دیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں سیاسی گروہوں اور جماعتوں کی جانب سے کسی ایسے ادارے کو نشانہ بنانے کا رجحان پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے متعلقہ سیاسی مفادات پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ سیاستدان اکثر ان کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے ہیں تاہم اداروں کو بھی سیاسی حلقوں کے ساتھ اپنے معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہیں سیاسی محاورے کے زوال کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور اگر کوئی سیاستدان کوئی منفی بیان دیتا ہے تو اداروں کو اپنی طاقت استعمال کرنے کی دھمکی نہیں دینی چاہیے۔ دونوں طرف تحمل کی ضرورت ہے کیونکہ اداروں اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان محاذ آرائی جمہوریت کے مستقبل پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
جمہوریت کا اصل امتحان یہ ہے کہ آیا حکومت اور اپوزیشن انسانی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کیلئے کام کر رہے ہیں یا وہ صرف طاقت کی سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو بنیادی خدمات فراہم کرے اور انہیں معاشی اور سماجی تحفظ دے۔ اگر کوئی جمہوری حکومت عوام کی خدمت نہیں کر سکتی تو اسے قانونی جواز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved