تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     20-09-2021

الیکشن کمیشن ‘نادرا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم

نیوزی لینڈ کی ٹیم نے بین الاقوامی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرکٹ میچ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے دور ۂ پاکستان ختم کرکے بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ میں نئی روایت پیدا کردی ہے۔وزیرِاعظم عمران خان کا نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم سے ذاتی رابطہ بھی کام نہ آیا اور مہمان ٹیم چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد سے وطن روانہ ہوگئی۔کیا یہ سمجھا جائے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم محض مفروضے کی بنیاد پر واپس چلی گئی یا اس الرٹ میں کوئی خاص بات تھی‘ اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جہاں تک الرٹ کی بات ہے تو نیوزی لینڈ یا کسی بھی حکومت یا ادارے نے اس حوالے سے کوئی مصدقہ بات شیئر نہیں کی۔نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈیوڈ وائٹ نے کہا ہے کہ انہیں مکمل اطمینان تھا اسی لیے ٹیم پاکستان بھیجی تھی لیکن سب کچھ جمعہ کے روز بدلا جب ایڈوائزری تبدیل ہوئی اور صورتحال بدل گئی‘ تھریٹ لیول بدلا‘ اسی لیے دورہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ڈیوڈ وائٹ کا کہنا تھا کہ انہیں جو ایڈوائزری ملی تھی اس میں ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ حکومت سے مخصوص اور مصدقہ تھریٹ لیول کی ایڈوائزری ملی تھی۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ اور پاکستان کے اعلیٰ حکام اور کرکٹ بورڈ کے حکام بارہ گھنٹے تک مذاکرات کرتے رہے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ میچ کے منسوخ کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں ہواتھا۔نیوزی لینڈ کے دورے کے ختم ہونے کے بعداب برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے جبکہ آسٹریلیا نے کہہ دیا ہے کہ اس کی ٹیم کا دورہ برطانوی دورے سے مشروط ہے۔ بظاہر نیوزی لینڈ کی ٹیم کے اس اسرار کے پردوں میں چھپے الرٹ نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے لیے وہی کام کیا ہے جو 2009 ء میں سری لنکن ٹیم پر حملے نے کیا تھا۔ وزیرِ داخلہ شیخ رشید کہتے ہیں کہ اس میں وہ چھپے ہوئے ہاتھ ملوث ہیں جو افغانستان میں پاکستان کے مثبت کردار کو پسند نہیں کرتے۔وہ چھپے ہوئے ہاتھ کون سے ہیں اس بارے عوام کو آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔
کرکٹ کے میدانوں سے ہٹ کر سیاست کے میدانوں کی خبریں بھی کچھ اچھی نہیں ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کے اچانک وطن واپسی کے محرکات پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گے اور اداروں کے مابین شکوک و شبہات سے پاکستان کا پارلیمانی طرزِ حکومت بھی عوام کی نظروں میں اعتماد کھوبیٹھے گا ۔ 2023ء کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کروانے کا معاملہ ایک سطح پر مؤخر ہوچکا ہے کیونکہ سائنس اینڈٹیکنالوجی کی منسٹری کے ماہرین الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر جو 37اعتراضات حکومت پاکستان کو بھجوائے تھے‘ ان کا ازالہ کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کے حکام کو تنقید کا نشانہ بنا کر آئینی بحران پیدا کیا گیا اور الیکشن کمیشن نے دو وفاقی وزرا سے سات روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔ اگر ان وزرا نے لیت ولعل سے کام لیا تو الیکشن کمیشن یک طرفہ بھی فیصلہ سنانے کا مجاز ہے ۔اس دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے نادرا کو انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالے سے لکھا گیا۔ خط لیک ہونے سے ایک نیا قانونی بحران کھڑا ہو گیا تھا۔ نادرا کے مراسلے سے پتہ چلتا ہے کہ نادرا سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انٹرنیٹ ووٹنگ میں بہتری کے لیے الیکشن کمیشن کو دو ارب چالیس کروڑ روپے کے نئے معاہدے میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ اس کے برعکس الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نادرا اسے (الیکشن کمیشن) کو مطمئن کرے کہ نظام کی پہلے سے موجودگی میں دوارب چالیس کروڑ روپے کا نیا معاہدہ کیوں کرنا چاہتا ہے ؟ اگر نادرا کے زیرِ استعمال موجودہ نظام میں کچھ خامیاں ہیں تو ان خامیوں کا ذمہ دار کون ہے؟الیکشن کمیشن نے اپنے جوابی خط میں دریافت کیا کہ نادرا نے کس پر ذمہ داری عائد کی؟ خط کی زبان اورطریقہ کار پر بھی اعتراضات اُٹھائے گئے۔ کہا گیا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کے ناتے آئین کے آرٹیکل 218(3) کے مطابق اپنی ذمہ داری پورے کرے گا لہٰذا الیکشن کمیشن کو مراسلہ بھیجتے وقت الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ نادرا نے الیکشن کمیشن کے نقطہ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ مراسلے سے جو غلط فہمی پیدا ہوئی اس کا ازالہ کر دیا جائے گا۔ نادرا کے یہ شائستہ مؤقف اختیار کرنے کے بعد اب ان دونوں اداروں کے مابین تنازع ختم ہو گیا ہے اور دونوں کے مابین معاملات اعتدال پر آ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نادرا کا مؤقف ہے کہ انٹرنیٹ ووٹنگ کا نظام پہلے سے موجود اور الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ معاہدے کے مطابق الیکشن کمیشن کو دو کروڑ پچاسی لاکھ روپے جاری کرنے تھے۔ نئے مجوزہ نظام کے ذریعے نادرا کا ادارہ الیکشن کمیشن کو اسی کے آزاد سسٹم اور الیکشن کمیشن کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صلاحیت بڑھانے میں مدد دے گا۔ نادرا کی انتظامیہ کے رویے کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور نادرا میں خدمات کی فراہمی پر ہونے والا اختلاف ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اب جبکہ حکومتی وزرا نے الیکشن کمیشن پر بلا وجہ تنقید کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ تو اس کی روشنی میں نادرا اور الیکشن کمیشن کے مابین نیا تنازع نہیں کھڑا ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں آر ٹی ایس کے فلاپ ہونے میں بھی نادرا پر اعتراضات کیے گئے تھے کیونکہ سسٹم کو تیار کرنے کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن سے 18 کروڑ روپے حاصل کیے تھے‘ جس کی آخری قسط شاید ابھی تک الیکشن کمیشن کے ذمہ ہے جبکہ آر ٹی ایس (رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم) کی بھرپور کامیابی کے لیے نادرا نے الیکشن کمیشن کو یقین دہائی کرائی تھی اور اطلاع کے مطابق غالباً الیکشن کمیشن اور نادرا نے آر ٹی ایس کی کامیابی کے لیے آرمی چیف کو بھی بریفنگ دی تھی۔ ان ساری تیاریوں‘ فول پروف انتظامات اور یقین دہانیوں کے باوجود دونوں اداروں کی باہمی اعتماد کے فقدان سے سسٹم فلاپ ہو گیا تھا اور الیکشن کمیشن کی بار بار یاد دہانیوں کے باوجود کیبنٹ سیکرٹری نے اپنی انکوائری رپورٹ الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائی تھی۔ اس تناظر میں کچھ دلچسپ حالات بھی سامنے آئے۔ نادرا کے ایک سابق چیئرمین کو مبینہ طور پر میرٹ میں تبدیلی کر کے چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی لیے ماتحتوں نے ان کو تسلیم نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے کوآرڈی نیشن کے مسائل پیدا ہوئے تھے۔
انتخابی اصلاحات کمیٹی 2016ء کے متعدد اجلاسوں میں جب انتخابی اصلاحات کے ذریعے بعض اہم تبدیلیاں زیرِ بحث تھیں تو آر ٹی ایس کا تصور تب تحریکِ انصاف کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے پیش کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی کہ ملک کے موجودہ حالات میں یہ سسٹم ناکام ہو جائے گا کیونکہ 80 ہزار پریزائیڈنگ آفیسرز میں بعض اس سسٹم سے نابلد ہی رہیں گے‘ لیکن انتخابی اصلاحات کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی مخالفت کے باوجود اس کو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 13(2) کا حصہ بنا دیا تھا۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن نے جو نوٹس دو وفاقی وزرا کو جاری کیے ہیں اس پر سنجیدگی سے عمل کرتے ہوئے ان وزرا کو غیر مشروط طور پر معافی مانگ کر معاملہ ختم کرناچاہیے تھا‘ مگر صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے کیونکہ وزرا کی جانب سے آئینی ادارے پر الزامات کا سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved