تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-09-2021

پلاٹو کریسی

اسلام آباد میں سرکاری افسروں میں پلاٹوں کی تقسیم کے حوالے سے خبریں کئی سالوں سے میڈیا پر زیر بحث ہیں۔ معاملہ تواتر سے عدالتوں میں بھی جاتا رہا ہے۔ اعلیٰ ترین کورٹ میں بھی سماعت ہوئی۔ قرعہ اندازی ہوئی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دیا ہے۔ معاملہ خاصا الجھ گیا ہے۔ اگر میں یہ سمجھوں کہ میرے اس کالم سے مسئلہ حل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے تو یہ خام خیالی ہوگی لہٰذا مقصد صرف اتنا ہے کہ چند ایسے اہم پہلو معروضی (Objective) طریقے سے اجاگر کئے جائیں جو پہلے کم ڈسکس ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے چند غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ سرکاری افسر یا سٹاف ممبر کیلئے سروس کے اختتام پر اسلام آباد یا کسی اور شہر میں سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کے ذریعے ایک پلاٹ لینا کوئی جرم نہیں۔ متعدد ادارے یہ کام خوش اسلوبی سے کرتے رہے ہیں۔ ایک تاثر اسلام آباد کے نئے سیکٹرز کے بارے میں یہ ہے کہ ان کی زمینیں اونے پونے مالکوں سے ہتھیالی جاتی ہیں اور سرکاری افسروں کو کوڑیوں کے دام پلاٹ مل جاتے ہیں۔ دونوں باتیں غلط ہیں، مالکان سے زمین گفت و شنید اور سودے بازی (Price negotiation) کے بعد لی جاتی ہے۔ سرکاری افسروں کو اب یہ پلاٹ اچھی خاصی قیمت پر ملتے ہیں۔ میرے ایک دوست نے تیس لاکھ روپے چھ سال پہلے F14 میں ایک کنال کے پلاٹ کیلئے جمع کرائے تھے ‘ان کی یہ رقم پھنسی ہوئی ہے‘ کسی اور جگہ یہی پیسہ انویسٹ کرتے تو بہتر رہتا ۔یہ تاثر بھی غلط ہے کہ یہ پلاٹ حکومت اپنی طرف سے خیرات (Charity) میں دیتی ہے۔اس وضاحت کے بعد اب ہم آتے ہیں ان نکات کی جانب جو عدالتیں عرصے سے اٹھا رہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت سے کہا گیا ہے کہ بندرربانٹ کو روکنے کیلئے وہ واضح پالیسی بنائے۔ دوسرا اہم نکتہ جو اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہائوسنگ اتھارٹی کے تیس ہزار ممبران ہیں‘ ان میں سے بیشتر کا تعلق سٹاف سے ہے جو سالہا سال سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں مگر پلاٹ اونچے گریڈ والوں کو ملے ہیں۔ کیا F-14 اور F-15 پر نائب قاصدوں اور سٹینو گرافرز کا کوئی حق نہیں اور یہ کہ ہائوسنگ اتھارٹی تو سرکاری ملازمین کیلئے بنائی گئی تھی تو پھر غیر سرکاری لوگوں کو پلاٹ کیسے مل گئے؟
2013ء کی بات ہے چیف جسٹس افتخار چودھری نے نیشنل پولیس فائونڈیشن کے سیکٹر E-11 میں بے ضابطگیوں کا از خود نوٹس لیا۔ یہ گمبھیر اور طویل کہانی متعدد بار میڈیا میں بھی زیر بحث آئی۔ متعددافسروں نے اپنے فیملی ممبرز کے نام پر E-11 میں کئی پلاٹ الاٹ کرائے۔ اس وقت فائونڈیشن کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر نے ایک درجن پلاٹ اپنے اور فیملی کے نام کرالئے۔ دوران سماعت دو افسر یعنی افضل شگری اور سلطان اعظم تیموری خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم فالتو پلاٹ سرنڈر کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوا کچھ علم نہیں۔ کیا باقی افسروں کا بھی ضمیر جاگا ‘یہ بھی معلوم نہیں۔ کیا درجن بھر پلاٹ لینے والے ڈپٹی ڈائریکٹر سے بھی کوئی قطعۂ زمین واپس لیا گیا؟ ویسے جب کوئی چیز وطن عزیز میں کسی کے ہاتھ لگ جائے تو صرف نیب کے ذریعے ہی ریکوری ہوتی ہے‘ لیکن ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ پلاٹوں کے چیمپئن یہ ڈپٹی ڈائریکٹر بعد میں تقرری پاتے پاتے انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے تک پہنچے۔ وطن عزیز میں سزا اور جزا کا نظام بے حد کمزور ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 2009ء میں لاہور میں دن دہاڑے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا۔ ٹیم تو خیر سے بچ گئی لیکن دہشت گرد اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد کئی سال تک باہر سے کوئی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آئی۔ پنجاب کے اس وقت کے آئی جی کی کوتاہی ظاہر تھی۔ انہیں کوئی سزا دینے کے بجائے ڈی جی پولیس فائونڈیشن لگا دیا گیا۔ موصوف نے اسلام آباد کے ایف الیون فور سیکٹر میں ایک پبلک پارک میں سے ایک رہائشی پلاٹ نکالا اور اپنے نام الاٹ کرا لیا۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پبلک یوٹیلٹی ایریا مثلاً پارک، مارکیٹ یا ہسپتال کی حیثیت کسی نقشے میں بدلی نہیں جا سکتی۔ مفاد عامہ کے کیس لڑنے والے معروف وکیل اسلم خاکی سپریم کورٹ تک گئے تب کہیں اس پلاٹ پرسے موصوف کا قبضہ چھڑوایا جا سکا۔
نیشنل پولیس فائونڈیشن کا اولین مقصد پولیس کے جوانوں اور شہدا کے خاندانوں کی ویلفیئر ہے۔ ای الیون سیکٹر میں کل بارہ سو ستاون (1257) پلاٹ پولیس فائونڈیشن کے تھے۔ ان میں سے صرف 67 لوئر سٹاف کو ملے۔ باقیوں پر افسروں نے قبضہ کر لیا اور یہ بات افسوسناک ہے کہ اپنے ہی کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل مکان کے حق سے محروم کر دیے گئے۔ ایک عجیب سی روایت ڈال دی گئی ہے کہ جو افسر سال چھ مہینے سی ڈی اے یا ہائوسنگ اتھارٹی میں ڈیپوٹیشن پر کام کر لے وہ پلاٹ کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ حکومتیں اس چور در وازے کو اپنے منظور نظر افسروں کو نوازنے کیلئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ کیا یہ افسر دوسرے دفاتر میں کام کرنے والوں سے زیادہ لائق ہیں یا یہ عام افسروں سے دوگنا کام کرتے ہیں؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہائوسنگ اتھارٹی میں افسروں اور سٹاف کی تنخواہیں باقی سرکاری ملازمین سے زیادہ ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یہ چور دروازے بند کرنے چاہئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ایف 14 اور ایف 15 سیکٹرز میں ایسے لوگوں کو بھی پلاٹ الاٹ ہوئے ہیں جو کرپشن یا بدسلوکی (Misconduct) پر سزا پا چکے ہیں۔ اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ وکلا اور صحافی گورنمنٹ سرونٹ نہیں ہیں جبکہ ہائوسنگ اتھارٹی کا مینڈیٹ صرف سرکاری ملازمین کو چھت فر اہم کرتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو پلاٹ الاٹ کرنے کی بدعت اسلام آباد کے جی تیرہ سیکٹر سے شروع ہوئی۔ میں خود اس سیکٹر میں رہتا ہوں۔ یہاں متعدد ججوں کو پلاٹ ملے مگر کوئی جج یہاں نہیں رہتا۔ شریعت کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج ہمارے سیکٹر میں رہائش پذیر تھے۔ اب وہ وفات پا چکے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ہائوسنگ اتھارٹی یا سی ڈی اے پلاٹ کیوں دے جبکہ ان کی تنخواہیں اور پنشن سرکاری افسروں سے زیادہ ہیں۔ اور دوسرا مسئلہ مفادات کے ٹکرائو (Conflict of interest) کا ہے۔ جسٹس کارنیلئس کو صدر ایوب خان نے ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ انہوں نے معذرت کر لی‘ دلیل ان کی یہ تھی کہ صدر مملکت حکومت کے سربراہ بھی ہیں۔ حکومت کے کئی کیس میں سنتا ہوں۔ صدر ایوب خاں کے ساتھ میری تصویر بھی اخبار میں آ جائے تو یہ معیوب بات ہوگی۔ اپنے پچھلے سال کے ایک فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کو انتظامیہ کی طرف سے کوئی احسان (Favour) قبول نہیں کرنا چاہئے۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ متعدد افسروں نے دو پلاٹوں کے علاوہ PHA سے نیم ساختہ(Structure Grey )گھر بھی لئے ہیں۔ میرے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ پولیس فائونڈیشن نے اپنے کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل کو اگنور کر کے افسروں میں بندربانٹ کیوں کی۔ نیب کو یہ بھی پتہ لگانا چاہیے کہ کس پولیس افسر نے کتنے کمرشل پلاٹ لئے اور ہاں F-14 اور F-15 میں گریڈ سترہ سے نیچے کے سرکاری ملازمین کیلئے پلاٹ کیوں مختص نہیں کئے گئے؟
وسائل کی بندربانٹ کرپشن بلکہ ظلم کے زمرے میں آتی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ کفر پر قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم انسانی معاشروں کا جانی دشمن ہے۔ حکومتی پالیسی جو وضع کی جا رہی ہے وہ صاف شفاف ہونی چاہیے اور میرٹ اس کا بنیادی ستون ہونا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved