تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     20-09-2021

ڈرٹی ٹاس پالیٹکس

فرہنگِ عامیہ یا عوامیہ میں راوی کہتا ہے کہ جنم جنم کی بھوک کے مارے ایک ظالم بھیڑیے نے بکری سے دوستی کر لی۔ دن بھر اُسے جڑی بوٹیاں کھلاتا رہا۔ شام کو باتوں میں لگا کر اپنے کچھار کی طرف لے جانے لگا۔ بھیڑیے کے دشمن جنگل کے راج گُرو نے اُسے دیکھا‘ دانت باہر نکالے‘ پنجے پھیلائے اور راستے میں کود پڑا۔ بھیڑیے نے اپنی جان بچانے کیلئے بکری کو بھائی بھیڑیا صاحب کہہ کے بلانا شروع کردیا۔ جب شیر قریب آیا تو بھیڑیا یوں منمنایا: میں میں میں تو بکری ہوں‘ یہ ہے آپ کا دشمن بھیڑیا‘ جسے میں گھیر کر آپ ہی کے پاس لا رہا تھا۔ ایسی حکمتِ عملی کو انگریزی میں Scape Goating کہتے ہیں۔ ان دنوں پوسٹ نیٹو افغان کانفلکٹ میں سے یہی والی سٹریٹیجک حکمتِ عملی ہر روز نیا بہروپ اپنا کر ہمیں جھوٹے روپ کے درشن دے رہی ہے۔ عالمی سیاست کی بساط پر زور و شور سے جاری اس نوٹنکی کی تین تازہ قسطیں یوں ہیں:
پہلی قسط ٹاس سے شروع ہوتی ہے۔ پاک-کیویز کرکٹ سیریز کے پنڈی میں میچ شروع کرنے کیلئے ٹاس سے 60 منٹ پہلے نیوزی لینڈ سکیورٹی آفیشلز نے پاکستانی ہم منصب کو بتایا کہ وہ پاکستان سے میچ نہیں کھیلیں گے‘ انہیں تھریٹ الرٹ ملا ہے۔ فوری طور پر سکیورٹی کے اعلیٰ ترین ذمہ دار حرکت میں آئے اور کیویز سے پوچھا کہ آپ کو تھریٹ الرٹ کس ادارے نے بھیجا ہے؟ اس کا جواب تھا: ہم یہ نہیں بتا سکتے۔ نیوزی لینڈرز کو کہا گیا کہ اُن کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان کی فوج‘ پولیس‘ کمانڈوز‘ رینجرز اور بلیوبک سے بھی اوپر والی وی وی آئی پی فول پروف سکیورٹی دی گئی ہے۔ اس سکیورٹی بندوبست پر آپ نے 100 فیصد اطمینان کا اظہار کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے پر نیوزی لینڈرز نے پاکستان کے متعلقہ حکام سے درخواست کی کہ آپ سکیورٹی کی ایک layer کم کردیں‘ مکمل سکیورٹی فراہم کرنے پر ہم آپ کے دلی شکر گزار ہیں۔
پاک کیویز سیریز کا وہ کرکٹ ٹاس جو نہ ہو سکا اور وہ کرکٹ گیم جسے عالمی سیاست کی ڈرٹی گیم کا شکار بنا دیا گیا‘ آئیے اب اُس کے ایک اور پہلو کی طرف۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم 11 ستمبرکے دن پاکستان پہنچی۔ پورے چھ روز تک کیوی ٹیم کی نہ صرف نیٹ پریکٹس جاری رہی اور وارم اَپ بھی چلتا رہا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس ٹیم کے کھلاڑی سکیورٹی سٹاف اور سویلین لوگوں کے ساتھ سیلفیاں کھنچوانے کے بے شمار پوز بھی مارتے رہے۔ سکیورٹی انتظامات ہی کے حوالے سے کئی نیوزی لینڈر کرکٹ کھلاڑیوں نے کہا کہ اُنہیں اپنے آگے پیچھے اتنی سکیورٹی‘ اتنے کمانڈوز‘ اتنے موٹرکیڈ اور اتنے بائیک رائیڈر دیکھ کر پہلی بار عجیب طرح کی خوشی ملی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ میچ سے تقریباً چھ ہفتے پہلے نیوزی لینڈ کے سکیورٹی آپریٹس کے لوگ پاکستان آئے تھے‘ انہوں نے سکیورٹی کے انتظامات پر آن ریکارڈ بھرپور اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اسی تسلسل میں سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی‘ جس کو دنیائے انٹیلی جنس کے تجزیوں میں گیم چینجنگ اتھارٹی کہا جاتا ہے‘ کو اپنی ہی سرزمین پر سکیورٹی تھریٹ کے بارے میں پتہ نہ چلے اور نیوزی لینڈ کے سکیورٹی حکام کو پتہ چل جائے کہ پاکستان میں کسی جگہ دہشت گردی کا تھریٹ الرٹ موجود ہے۔
دوسری قسط: نیوزی لینڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں نے آخری ٹیسٹ میچ آج سے 18 سال پہلے کراچی میں کھیلا تھا۔ اسی دوران کراچی میں فرینچ نیول انجینئرز کو دہشت گردی کا سانحہ پیش آیا۔ اس سانحے سے ہماری فیملی کی بھی کچھ تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ کراچی کے دو پنج ستارہ ہوٹل ایک ہی سڑک پر آمنے سامنے واقع ہیں۔ ایک میں فرینچ نیول انجینئرز ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ دوسرے میں نیوزی لینڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں۔ حادثے والی صبح سے ایک رات پہلے والد صاحب کراچی جوڑیہ مارکیٹ تاجروں کے بیٹل نٹس کیس میں پیش ہونے کے لیے اُسی کھلاڑیوں والے ہوٹل میں ساتویں فلور پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ دوسری طرف کے وکیل راجہ قریشی اور شریف الدین پیرزادہ تھے۔ یہ کیس تب جج سندھ ہائی کورٹ جناب انور ظہیر جمالی کے ڈویژن بینچ کے سامنے فکس تھا۔ صبح سات اور آٹھ بجے کے درمیان سامنے والے ہوٹل کے ریمپ پر بس دھماکے سے اُڑا دی گئی۔ دونوں ہوٹلوں میں کہرام مچ گیا اور یوں دونوں طرف کے بہت سے لوگ زخمی بھی ہوئے۔
اسلام آباد کے باخبر حلقے کہتے ہیں کہ یہ سیریز سازش کے تحت ختم کروائی گئی حالانکہ اس سے پہلے نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں کے قتل عام کا واقعہ ہوا‘ بنگلہ دیشی ٹیم کے ساتھ بدسلوکی نہیں بدتمیزی بھی ہوئی۔ اس کے باوجود پاکستانیوں نے اظہارِ یکجہتی کے لیے مشکل حالات کے باوجود نیوزی لینڈ جا کر کرکٹ کھیلی اور پیغام دیا کہ نیوزی لینڈ محفوظ ملک ہے۔ کیپٹل سٹی میں یہ سینہ گزٹ بھی چل رہا ہے کہ نیوزی لینڈ کو ایک اور سسٹر ایمبیسی نے ڈس انفارم کیا۔ وہ ملک جس کی ایئر لائن کے ذریعے ہزاروں مغربی سفارت کار‘ جرنلسٹ‘ شہری اور بزنس مین کابل سے اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچے تھے‘ وہ اُن کے لیے سیف ہیون تھا‘ لیکن چند دن بعد اچانک یہ غیر محفوظ کیسے ہو گیا؟
تیسری قسط: ڈرٹی ٹاس پالیٹکس کی ڈرٹی گیم انڈین پریمیئر لیگ سے شروع ہوتی ہے جسے پنڈی میچ کے 48 گھنٹے بعد شروع ہونا تھا۔ جن دنوں آئی پی ایل چل رہا ہو بھارت کے پڑوس میں دو تگڑی ٹیمیں میچز کھیل رہی ہوں۔ ظاہر ہے کرکٹ جیسی ٹاپ کمرشل گیم کا پیسہ اور توجہ پاکستان کی طرف شفٹ ہونے کا چانس تھا کیونکہ دو بڑی ٹیمیں زبردست ون ڈے اور سنسنی خیز ٹی ٹونٹی سیریز کھیلنے جا رہی تھیں۔ انڈین میڈیا کئی ہفتے پہلے سے ابھی نندن مشرا نامی صحافی کی قیادت میں کالعدم تحریکوں کے ممکنہ حملے کی تیاریوں کی خبریں اور تجزیے نشر کر رہا تھا۔
'پچھلے بہت سالوں سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنا اور بیرون ملک سے کرکٹرز کے دورے کیسے رہے‘ اس پر ڈیرن سیمی نے کہا ''آج مایوس کُن خبر کے ساتھ جاگا ہوں۔ پاک نیوزی لینڈ سیزیز سکیورٹی کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی۔ پچھلے چھ سالوں سے پاکستان میں کھیلنا انتہائی خوش گوار تجربہ رہا۔ میں نے اس ملک کو ہمیشہ محفوظ پایا۔ یہ پاکستان کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے‘‘۔ جیسن جلسپی آسٹریلین کرکٹر بھی بول اُٹھے ''پاکستانی کرکٹ‘ کھلاڑیوں اور فینز کیلئے مایوس کن ہے۔ پاکستان ایک عظیم کرکٹ ملک ہے‘‘۔ ڈینئل الیگزینڈر‘ سری لنکن کرکٹ کے ایڈمنسٹریٹر بولے ''سری لنکا نے پاکستان میں تینوں فارمیٹ کھیلے۔ جنوبی افریقہ‘ ویسٹ انڈیز‘ بنگلہ دیش‘ زمبابوے پاکستان میں کھیل کر گئے۔ بہت سے بین الاقوامی کرکٹرز‘ ورلڈ 11 اور پی ایس ایل کے لیے پاکستان میں کھیلے۔ ان میں نیو زی لینڈ کے کرکٹرز بھی شامل تھے۔ یہ پہلے بھی آئے تھے۔ یہ سب صرف اس لئے ممکن ہوا کہ پاکستان کرکٹ کیلئے محفوظ ملک ہے‘‘۔ اسی طرح کرکٹ کے بہت بڑے اینیلسٹ ڈینس نے کہا ''میں نے 60 سے زیادہ ممالک میں سفر کیا‘ پاکستان محفوظ ترین ملک ہے‘‘۔ اُس نے شاہی قلعے کے ساتھ گلیوں میں کرکٹ کھیلنے کی اپنی تصویر بھی شیئر کی۔ کرکٹر اینجیلو پریرا نے کہا ''دو سال پہلے پاکستان کا ٹور کیا‘ ہر منٹ سے لطف اندوز ہوا۔ انتہائی خوش آمدید کہنے والی محفوظ‘عظیم قوم کرکٹ کی واپسی دیکھے گی‘‘۔ کرِس گیل کا ٹویٹ ہے ''I am going to Pakistan tomorrow‘‘۔ امن پاکستان کا مقدر ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved