تحریر : اقتدار جاوید تاریخ اشاعت     20-09-2021

بابا

بر سبیلِ تذکرہ ملکِ چین کا ذکر ہوا تو ایک طالبہ نے کہا: بابے تو چین میں ہوتے ہیں۔ ہم سب حیران ہو کر اس کو دیکھنے لگے۔ اس نے کہا: بابا وہ ہوتا ہے جو آپ کا‘ خاندان کا‘ گھر والوں کا‘ شہر کا‘ ملک کا‘ اپنی تہذیب کا اور اپنی قوم کا نگہبان ہو۔ بابا وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کے ہر فرد کا بابا ہو۔ لوگ اس میں اپنا عکس دیکھیں۔ تمام لوگوں کی آرزوئیں اس ایک انسان میں جمع ہو جائیں۔ اس کا لباس دیسی ہو یا بدیسی‘ اس کی زبان ملکی ہو یا غیر ملکی ‘وہ بات کرے تو لوگ اسے سچ جانیں۔ وہ صرف چند لوگوں کا بابا نہ ہو‘ چند لوگوں کو ہی درس نہ دیتا ہو اور فقط چند لوگوں کو ہی نظر نہ آتا ہو۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی: چین کے بابے اصلی بابے ہیں۔ وہاں دو بابے ایسے ہوئے ہیں جن کو ساری دنیا جانتی ہے۔ مائوزے تنگ اور چواین لائی‘ دونوں کا انتقال 1976ء میں ہوا۔ ان دونوں کو پاکستانی قوم بخوبی جانتی ہے۔ ان دو ہستیوں نے قوم کی وہ خدمات انجام دیں کہ عظیم رہنما بنے۔ اصل میں ایسے لوگ معاشرے میں بابوں کا مقام پاتے ہیں۔ دائمی مقام۔ کسی بحث اور انکار کے بغیر۔
جہاں ہم مدعو تھے اور جہاں کا ہم ذکر کر رہے ہیں‘ وہ ایک انگریزی میڈیم اکیڈمی تھی۔ جہاں اٹھارہ انیس طلبہ و طالبات موجود تھے۔ ان کے چہرے ذہانت سے چمک رہے تھے۔ ہمارا مستقبل، ہماری اگلی نسل، ہماری امید، ہمارا سب کچھ! وہاں موضوعِ گفتگو آج کل کے بابے تھے۔ ہماری خوشی ناقابلِ بیان تھی کہ ایسے مسئلے اس نئی نسل کے ساتھ ڈسکس ہورہے تھے۔ ''ہیلمٹ والی سرکار‘‘، نام ہم نے پہلی بار سنا تھا۔ طلبہ اور طالبات کا جوش دیدنی تھا۔ ہم نے ٹیچر کو منع کیا تھا کہ ایسے بابوں کے بجاے طلبہ کو ان بابوں سے متعارف کیا جائے جو قوم کے معمار ہیں ‘جنہوں نے زندگی کے کسی شعبے میں کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو‘جنہوں نے زندگی اور معاشرے کی فلاح کے لیے کچھ کیا ہو۔ ٹیچر کا اپنا موقف تھا کہ جو معاشرے میں جہالت پھیلا رہے ہیں‘ ان ٹھگوں سے بھی طلبہ کو روشناس کروانا معاشرے کی اصلاح کی صورت ہے۔
بابوں کا نام اور تذکرہ ہم نے سب سے پہلے ممتاز مفتی کی ''لبیک‘‘ میں پڑھا۔ لبیک سفر نامۂ حج ہے‘ سو روحانی اثرات سے مغلوب ہو کر اس بابے کا ذکر اچھا لگا مگر جب بابے کا ذکر ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب سے جوڑا تو ہمارے کان کھڑے ہوئے کہ اصل بابا تو قدرت اللہ شہاب ہیں۔ جوڑی دو آدمیوں کی ہوتی ہے مگر یہ جوڑی تین آدمیوں پر مشتمل تھی؛ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد ۔ ان تینوں کی جوڑی سے پہلے شاید ہی ادب میں یا عام محفلوں میں اس تواتر سے بابوں کے کارنامے بیان کیے گئے ہوں۔ اب الّا ماشاء للہ ہم بابوں کے باب میں خود کفیل ہیں۔ یہ تینوں بزرگ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے مگرعوام میں ان کی اصل شہرت یہی تھی کہ یہ بابے ہیں۔ ان میں اشفاق احمد کا انتقال سب سے آخر میں ہوا۔ انہوں نے بابے کو ایک انسٹیٹیوشن بنا دیا۔ یہ بابے ہر انسان کے کام آنے والے‘ پیار‘ محبت اور سلوک والے بابے تھے۔ ان بابوں کی نہ کسی سے دشمنی تھی‘ نہ یہ دشمنی پالنے کے حق میں تھے۔ اشفاق احمد کی باتوں سے پتا چلا کہ یہ کشف و کرامات والے لوگ ہوتے ہیں‘ یہ دل کی بات بوجھ لیتے ہیں‘ دل پر بوجھ ہو تو اسے اتار دیتے ہیں‘ اچانک خوشخبری بھی دے سکتے ہیں‘ ان سے ہر قسم کی بات کی جا سکتی ہے‘ یہ ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔
یہ تین بابے بہت پہنچے ہوئے تھے‘ ان کی نظر تیز تھی یا بابے خود ان کے پاس حاضر ہو جاتے تھے۔ جیسے کوئی جاپ منتر پڑھا جائے اور موکل حاضر ہو جائے۔ یہاں موکل کیا‘ خود بابے بنفس نفیس پہنچ جاتے تھے۔ اس کا تو مطلب تو یہی ہوا نا کہ یہ بابے بہت پہنچے ہوئے تھے جو ان سے بھی بڑے بابے ان کے آگے پانی بھرتے تھے۔ ادھر یہ گھر سے نکلے نہیں کہ کوئی نہ کوئی بابا ان کے انتظار میں ہوتا تھا‘ اچانک سامنے آ جاتا‘ ٹرین کا ٹکٹ لینے کے لیے لائن میں کھڑے ہیں‘ اچانک کہیں سے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دیتی۔ پتا چلتا جو بظاہر کرتے دھوتی میں ملبوس ہے اور ٹکٹ کے لیے جیب سے رقم نکال رہا ہے‘ اصل میں یہ اس کے کرتے کے ہلنے کی آواز تھی۔ اورنج ٹرین تو اس زمانے میں ہوتی نہیں تھی‘ کیا خبر بابا جی لاہور کی سیر کے شوق میں کہیں جا رہے ہوتے ہوں کہ ان تینوں بابوں میں سے کسی ایک کو مل جاتے ہوں۔ ایک چٹ ان کے حوالے کرتے ہوں اور غائب ہو جاتے ہوں۔ بعضوں کو ان بابوں پر اعتراض ہے مگر ہم ان کے معترف ہیں مگر خدا لگتی یہ ہے کہ ہم خود گناہ گار ہیں‘ ہمیں یہ بابے کہیں نظر نہیں آتے۔ شاید ہماری نظر کا قصور ہے۔
ان دنوں بہت سارے نام نہاد بابے مارکیٹ میں موجود ہیں جو اپنا دھندا چلا رہے ہیں۔ دھندا شاید مناسب لفظ نہیں اصل میں وہ بنارسی ٹھگ ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ میں ٹھگ ایک بہت بڑی انڈسٹری تھی جو انیسویں صدی میں مکمل عروج پر تھی۔ امیر علی ٹھگ کو کون نہیں جانتا؟ ایک انگریز کرنل نے امیر علی ٹھگ کے اعترافات کے نام سے اس کی سوانح عمری بھی لکھی تھی جس میں اس کی ٹھگی کے واقعات درج ہیں۔ ان واقعات سے قطع نظر‘ ان ٹھگوں کی علیحدہ زبان تھی۔ یہ خفیہ اور کوڈڈ زبان تھی۔ ''پانی‘‘ کا مطلب تھا کوئی حملہ آور آ رہا ہے۔ ''منجی‘‘ قبر کے معنوں میں استعمال ہوتی تھی۔ حقہ لائو کا مطلب ہوتا تھا موت کے گھاٹ اتار دو۔ پہلے شکار کو ''بوہنی‘‘ کہا جاتا تھا۔ بوہنی آج کل بھی انہی معنوں میں مستعمل ہے۔ امیر علی ٹھگ کے ساتھی ٹھگوں میں لکھن کا حرمت ٹھگ، سورج ٹھگ اور اس کا شاگرد للو ٹھگ زیادہ معروف ہیں۔ انہی ٹھگوں کی زبان کی خفیہ بولی کی طرح‘ ان جدید بابوں کے نام بھی عجیب ہیں۔ آج کل کے بابوں نے اصل بابوں کا کام ڈبو دیا۔ اب ہر کوئی ان بابوں کو بھی دو نمبر سمجھتا ہے‘ جنہوں نے بابا انسٹیٹیوشن کا آغاز کیا تھا۔ آج کل کے ڈبہ بابوں کے نام ایسے ہیں کہ لینے سے بھی گریز ہی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کوئی منجی پیڑھی سرکار تو کہیں پہ فوارہ پیر ہے، کہیں چادری والی سرکار‘ کوئی ٹریکٹر شاہ‘ کوئی بھنے چنوں والی سرکار اور کہیں پیر شکی۔ سِکس جی سرکار‘ رب راکھا سرکار‘ مستنصر حسین تارڑ کے بقول‘ ڈھونگ بابا، بابا جی انہونی سرکار اور گونگی سرکار علیٰ ہذاالقیاس۔
کچھ بابے قسمت کا حال بتاتے ہیں‘ پہلے یہ بابے کسی سڑک پر‘ کسی چوک چوراہے پر بیٹھے ہوتے تھے۔ شام تک اپنی دیہاڑی لگا اپنے بال بچوں کے رزق کا بندوبست کرتے تھے۔ اب تو کچھ نہ پوچھئے کہ یہ بابے بڑے بڑے لوگوں کی محل نما کوٹھیوں میں آتے ہیں۔ کثیر تعداد ان کے ارد گرد موجود ہوتی ہے جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ، بیوروکریٹ، ان کی بیگمات، سیاستدان اور سرمایہ دار‘ سب ان کے اسیر ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا ع
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
اب الٹ معاملہ ہے۔ اب مذکورہ مریدان کے محل روشن ہیں‘ ان بابوں کی وجہ سے وہاں تاریکی عروج پر ہے۔ ہر جگہ پھیلی ہوئی بابائیت اور پاپائیت میں کچھ فرق نہیں رہا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ آپ خاص لباس ہی پہنیں گے تو بابا لگیں گے۔ عود اور لوبان جلا کر محفل عطر بیز کر کے مسند آرا ہوں گے تو بابا مانے جائیں گے‘ بہت ساری باتیں کریں گے اور لوگوں کے درمیان 'نصیحت خان‘ بنیں گے تو بابا بنیں گے۔ نہیں! ہر گز نہیں! ہم نے کہا: یہاں بابے بہت ہیں مگر ہمارا بابا ایک ہی ہے گریٹ بابا۔ جناح بابا‘ سچا بابا‘ ریاکاری اور دو نمبری سے پاک بابا۔ اسی طالبہ نے پوچھا: کیا مذکورہ بابوں سے کوئی کرامت بھی منسوب ہے ؟ ہم نے کہا: ان سے کوئی کرامت منسوب نہیں اور اگر ہو تو ہمارے علم میں نہیں مگر ہمارے گریٹ بابا ‘جو گیارہ ستمبر 1948ء کو رحلت فرما گئے ان کی ''پاکستان‘‘ نامی کرامت کو تو پوری دنیا جانتی ہے۔ ہم تو صرف اس بابے جناح کو بابا جانتے اور مانتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved