تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     21-09-2021

بنیادی زرعی مسائل کی نشاندہی

اگر میں اسے خوش گمانی اور حسنِ ظن کے باعث مال پانی بنانے والا سکینڈل نہ بھی کہوں تو کم از کم اسے نا اہلی‘ لاپروائی اور نالائقی تو ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مارچ اپریل 2021 ء میں جب کابینہ نے گندم امپورٹ کرنے کی منظوری دی تب عالمی منڈی میں گندم کی قیمت 270 ڈالر فی ٹن تھی مگر بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے یکسر محروم حکومتی ٹیم نے ایک لاکھ بیس ہزار ٹن گندم کی خرید کا ٹینڈر تب کیا جب گندم کا ریٹ370ڈالر فی من ہو چکا تھا۔ صرف اس ایک سودے میں ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر یعنی دو ارب روپے سے زیادہ پیسے ضائع کر دیے۔ اس قسم کی نالائقی کے قصے جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ ایل این جی کی خریداری بھی ایسی ہی کہانی ہے‘ لیکن فی الحال میرا موضوع گندم کی اس درآمد کے حوالے سے ملکی زراعت ہے۔
اندازہ کریں کہ اس زرعی ملک میں گزشتہ سال صرف ہائبرڈ چائنیز چاول کا پانچ ارب روپے کا بیج درآمد ہوا ہے۔ ہائبرڈ بیج کی تیاری کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اسے ملکی سطح پر تیار نہ کیا جا سکتا ہو مگر ہمارے ہاں پہلے سے گھسٹتی ہوئی زرعی تحقیق اب بالکل ہی لیٹ گئی ہے۔ مکئی کے ہائبرڈ بیج کی درآمد پر ہر سال لگ بھگ دس ارب روپے اور سبزیوں کے بیج کی درآمد پر پانچ سے سات ارب روپے کا زرمبادلہ لگ جاتاہے۔ یعنی صرف ہائبرڈ بیج کی مد میں یہ ''زرعی ملک‘‘ ہر سال بیس ارب روپے سے زائد کا زر مبادلہ خرچ کر دیتا ہے۔ تیل کی امپورٹ کے بعد ہمارا سب سے بڑا خرچہ خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والا زرمبادلہ ہے۔ خوردنی تیل کی کل ملکی ضرورت تقریباً چالیس لاکھ ٹن سالانہ ہے اور اس میں سے صرف 12 فیصد ملک میں پیدا ہوتا ہے اور باقی 88 فیصد کے قریب درآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان خوردنی تیل درآمد کرنے کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔
کسی بھی ملک کی زراعت میں ترقی کا دارومدار زرعی تحقیق پر ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے انسان مسلسل زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافے کیلئے کوشاں ہے۔ دنیا بھر میں زرعی تحقیق کا بنیادی مرکز وہاں کی یونیورسٹیز ہیں جہاں پروفیسر اور زرعی سائنسدان ہمہ وقت اسی کام میں لگے رہتے ہیں اور ان کو پرائیویٹ سیکٹر اس تحقیق کیلئے فنڈنگ کرتا ہے یعنی یہ کام یونیورسٹیوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے باہمی تعاون سے چلتا ہے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے‘ لیکن ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ بھی سب کے سامنے ہے اور ملکی زراعت کس نہج پر کھڑی ہے یہ بھی سب کے سامنے ہے۔
پہلے سے بربادی کی طرف رواں دواں ہمارے سرکاری تحقیقی ادارے مسلسل بدترین کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ملک میں زرعی تحقیق کا سب سے معتبر اور نامور ادارہ ایوب ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد تھا۔ ایک عرصے سے اس ادارے کا حال بدتر سے بدترین کی جانب گامزن ہے۔ عمارت تباہ ہو رہی ہے‘ تحقیق کا باب بند ہو چکا ہے اور زرعی ترقی کا معاملہ ٹھپ ہو چکا ہے۔ جین پُول (Gene pool)نامی کسی چیز کا وجود نہیں اور نہ صرف یہ کہ فی الوقت اس ادارے کا کوئی مستقل سربراہ نہیں ہے بلکہ اس ادارے کے بیس پچیس ڈائریکٹرز میں سے بیشتر برسوں سے عارضی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہی حال ایگریکلچر ایکسٹینشن کا ہے۔ ملک میں زرعی تحقیق نامی کسی چیز کا وجود باقی نہیں۔ ہاں! البتہ اس کے نام پر ابھی تک بہت سے لوگوں کی روٹی پانی ضرور چل رہی ہے۔
زراعت کے تین بنیادی عناصر زمین‘ پانی اور بیج ہیں۔ زمین کی حالت یہ ہے کہ یہ بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اچھی زمین میں نامیاتی مادے (Organic matter) کی مقدار اڑھائی سے چار فیصد ہونی چاہیے لیکن ہمارے ہاں زمین میں نامیاتی مادوں کی مقدار اعشاریہ تین سے اعشاریہ چار فیصد یعنی درکار مقدار کے دس فیصد سے بھی کم ہے۔ یہی حال PH لیول کا ہے۔ زمین میں درکار پی ایچ لیول کی مقدار چھ سے سات فیصد ہے لیکن ہماری زمینوں میں یہ لیول بڑھ کر دس سے گیارہ فیصد ہو چکا ہے اور مزید بربادی یہ ہو رہی ہے کہ شہروں کا سارا گندہ اور سیوریج کا پانی نہروں میں شامل ہو کر زمین میں جذب ہو رہا ہے اور اس خراب شرح تناسب کو مزید خراب تر کر رہا ہے۔یاد رہے کہ نامیاتی مادوں کے باعث زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے اور کم پانی کو بھی زیادہ دیر تک نمی کی صورت میں قائم رکھا جا سکتا ہے۔ نامیاتی مادوں کی کمی سے جہاں زمین کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے وہیں پانی کا استعمال بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔
عشروں کی مسلسل ناقص حکومتی پالیسیوں کے باعث زرعی تحقیق کے حوالے سے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر پنپ ہی نہیں سکا۔ سرکاری ادارے برباد ہو چکے ہیں اور فی الحال ان کی بحالی کے امکانات بھی معدوم نظر آ رہے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کی شرائط کے ساتھ اس ملک میں آنے ہی نہیں دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ساہیوال میں مکئی کے تحقیقاتی ادارے کی دیوار سے متصل کھیت میں ملٹی نیشنل کمپنی کے درآمد شدہ بیج سے تیار فصل لہلہا رہی ہے۔ہائبرڈ اور بی ٹی سیڈ کی تیاری کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے پاکستان میں بی ٹی کپاس کے بیج کی تیاری کیلئے بہت ہی معمولی رقم کے عوض اپنی خدمات پیش کیں مگر میاں شہباز شریف نے اسے مسترد کر دیا۔ یہ سہولت بھارت نے حاصل کر لی اور آج ان کی کپاس کی پیداوار کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے جبکہ ہم ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے واپس چھپن لاکھ گانٹھ پر پہنچ گئے ہیں۔
صوبائی زرعی ادارے تو خیر سے بالکل ہی برباد ہو چکے تھے وفاقی اداروں کا حال بھی تقریباً اب انہی جیسا ہو چکا ہے۔ نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ نامی وفاقی وزارت کے تحت اداروں کی صورتحال یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن پانچ سال سے مستقل ڈی جی سے محروم ہے اور اس کی تقرری کی فائل وزیراعظم کے دفتر میں حکم کی منتظر پڑی سو رہی ہے۔ اسی محکمے کے تحت ایک عدد قرنطینہ کا شعبہ (Plant Quarantine) سیکشن موجود ہے جو باہر سے آنے والے والے پودوں‘ بیجوں اور زرعی اشیا کو قرنطینہ کرنے کا ذمہ دار ہے مگر عملی طور پر یہ شعبہ ٹھپ پڑا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک میں نئے نئے ضرر رساں کیڑے آ رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں مکئی کی فصل پر حملہ آور Fall armywormبھی باہر سے آیا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ شعبہ اپنا کام ہی نہیں کر رہا۔
پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (PCCC) عملی طور پر مکمل غیر فعال ہے۔ اس کا سربراہ وائس پریذیڈنٹ ہوتا ہے اور یہ روایتی طور پر پلانٹ بریڈنگ سائنسدان ہوتا تھا۔ گزشتہ ایک عشرے سے اس پوسٹ پر نہ صرف یہ کہ کوئی مستقل سربراہ نہیں بلکہ کوئی زرعی سائنسدان بھی نہیں ہے۔ موصوف اکانومسٹ ہیں اور کپاس کے تحقیقی معاملات کے سربراہ ہیں۔ وفاقی سطح پر زرعی بیجوں کی کنٹرولنگ اتھارٹی فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔ ادھر بھی یہی حال ہے کہ عارضی بنیادوں پر کام چلایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں مقرر ہونے والا ڈائریکٹر جنرل چند ماہ بعد ریٹائر ہو جائے گا۔ گزشتہ کئی سال سے یہی حال ہے‘ اور کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ سال ایوب ایگری کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی ایجاد کردہ گندم کی ورائٹی اکبر 2019 کا pre-basicبیج کسی کو دیا ہی نہیں تھا اور اس ڈیپارٹمنٹ نے اس ورائٹی کا جعلی بیج بنانے والوں کو پکڑنے اور سزا دینے کے بجائے انہیں محکمہ کی طرف سے قانونی طور پر بیج فروخت کرنے کیلئے ٹیگ جاری کر دیے۔ ویسے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں‘ملک عزیز میں ہر طرف چور اور چوکیدار آپس میں مل کر کام کر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved