تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     21-09-2021

طالبان اور دنیا

طالبان نے‘دکھائی یہ دیتا ہے کہ سب کی مت مار دی ہے۔ایسا ابہام عالمی سیاست میں شاید ہی دیکھا گیا ہو۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد‘عالمی قوتوں نے ایک بساط بچھائی۔یہ مان لیا گیا کہ سلطنتوں کا روایتی تصور اب قصۂ پارینہ ہوا۔د نیا کو ایک نظم کے تابع رکھنے کے لیے ایک نئے عالمگیر نظام کی ضرورت ہے۔قوموں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کر لیا گیا‘یہ الگ بات کہ قوم کی تعریف میں موجود اختلاف ابھی تک باقی ہے۔رائج الوقت تصورِ قومیت‘ رنگ و نسل کو قومیت کی بنیاد مانتا تھا اور اسی کی اساس پر قومیں آزاد ہو رہی تھیں۔ پاکستان اور اسرائیل کا‘اس باب میں استثنا ہے کہ ان کے قیام کے لیے مذہب کو قومیت ا ور سیاسی اجتماعیت کی اساس بنانا گیا۔
اس نظام پر عالمگیر اتفاقِ رائے تھا۔عالمی قوتیں مفادات کے تصادم کے باوجود‘اس نئے نظام کو کامیاب بنانے کے لیے یکسو تھیں۔اسرائیل قائم ہوا تو برطانیہ کی کوششوں سے لیکن اسے آباد کرنے کے لیے روس نے بھی اپنے یہودیوں شہریوں کو بھیجا۔پاکستان بنا تو برطانیہ نے دو قومی نظریے کو تسلیم کیا اور دیگر قوتوں نے بھی۔ آئے دور میں روس اور برطانیہ کے مابین مفادات کا ٹکراؤ رہا لیکن اس عالمی نظام کو سب بڑی قوتوں کی مشترکہ تائیدمیسر رہی۔دو دفعہ بھارت نے کوشش کی کہ خاکم بدہن‘ پاکستان دنیا کے نقشے پر باقی نہ رہے۔دونوں دفعہ عالمی قوتیں اس ناپاک مقصد کی راہ میں حائل ہوگئیں۔کمزور پاکستان ان کے مفاد میں تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ اگر اس خطے میں پاکستان باقی نہ رہا تو طاقت کا عدم توازن عالمی نظام کو بر باد کر ڈالے گا۔
پھرایک مرحلہ آیا جب امریکہ نے اس فیصلے سے انحراف کیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی آمد نے اسے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ سوویت یونین کو اتنا کمزور کر دے کہ اس کی عالمی حیثیت کو چیلنج نہ کر سکے۔سوویت یونین عالمی نقشے پر باقی نہ رہا۔یہ اس نظام کو پہلا بڑا دھچکا تھا جو بیسویں صدی میں قائم کیا گیا۔اب امریکہ دنیا کی واحد عالمی قوت تھا۔ نئے نظام کی کوکھ سے اُس نئے بحران نے جنم لیا جسے دہشت گردی کہا گیا۔اس نے امریکی سلامتی کو خطرے میں ڈالا تو اس نے ایک بار پھر دنیا کو اس کے خلاف جمع کیا۔روس سمیت سب نے اس کی بات مان لی۔امریکہ کو القاعدہ کا سامنا تھاا ور روس کو چیچنیا کی جنگِ آزادی کا۔ دونوں کے ایک ساتھ خاتمے پر اتفاق ہو گیا۔
اب نئے نظام کے جن خدو خال پر اتفاق ہوا‘اس میں مذہب کی بنیاد پر کسی نئے سیاسی ایڈونچر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔انقلابِ ایران اور اس کے بعد خلافت جیسے سیاسی تصورات نئے نظام میں قابلِ قبول نہیں تھے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ طالبان ایک مقامی قوت ہیں جنہیں بآسانی ختم کیا جاسکے گا۔اس نے ساری توجہ القاعدہ پر مرتکز کیے رکھی۔طالبان نے اپنی بقاکے لیے اسباب جمع کر لیے۔یہاں تک کہ افغانستان کے امور میں انہوں نے ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل کر لی۔امریکہ نے سوچا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے مراکز ختم کر نے کے بعد تاریخ پھر اس جگہ لوٹ جائے گی جہاں اس کی عالمی قوت کو کو ئی خطرہ لا حق نہیں ہو گا۔
اس نئے نظام میں طالبان کے لیے کوئی کردار نہیں تھا۔امریکہ نے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کو سمیٹنا چاہا تو اس کے لیے ایک مسئلہ اس کے باقیات کا خاتمہ تھا۔1989ء کا تجربہ اس کے سامنے تھا کہ اس نے اس باب میں تساہل برتا تو راکھ کے ڈھیر سے دہشت گردی کی چنگاری ابھری اور اس نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو خاکستر بنا ڈالا۔اس بار بھی اس نے بااندازِ دگر کاہلی کا مظاہرہ کیا۔اس کا انجام یہ ہوا کہ طالبان کی صورت میں پیدا ہونے والے چیلنج کا‘اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
افغانستان کا پروجیکٹ اب معاشی اعتبار سے اتنا بڑاہوچکا تھا کہ امریکہ کے لیے اس کا بوجھ اٹھانا سراسر خسارے کا سودا تھا۔امریکہ نے یہ جان لیا کہ متبادل کے لیے اس نے جن پر اعتبار کیا ان تلوں میں کوئی تیل نہیں ہے۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی حکمتِ عملی نہیں تھی کہ 'سب جائیں بھاڑ میں‘۔ امریکہ نے اسی پر عمل کا فیصلہ کیا۔طالبان نے امریکہ کو زچ کر دیا۔
اب صورتِ حال اتنی مبہم ہو گئی ہے کہ امریکہ سمیت ساری دنیا ایک مخمصے کا شکار ہے۔لوگ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کر نا چاہتے لیکن ا ن کی حکومت بالفعل قائم ہو چکی ہے۔دلچسپ بات ہے کہ اس کے قیام میں امریکہ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ اسے تاریخ کا جبر کہیے کہ امریکہ جنہیں ختم کر نا چاہتا تھا‘ان ہی کے اقتدار کو قائم کرنے میں معاون بنا۔تاریخ کا جبر ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔امریکہ کو بھی نہیں۔
طالبان نے صرف امریکہ ہی کو نہیں‘ساری دنیا کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ان کا وجود ایک حقیقت ہے جس کو جھٹلا ناممکن نہیں۔اب دنیا اس کوشش میں ہے کہ طالبان اتنے بدل جائیں کہ طالبان نہ رہیں۔وہی خواہش جو لارڈ میکالے نے برصغیر کے مسلمانوں کے بارے میں کی تھی۔نام توعبداللہ ہو لیکن اندر سے انگریز ہو۔دنیا یہ چاہتی ہے کہ طالبان اپنا نام نہ بدلیں لیکن اندر سے بدل جائیں۔اب طالبان اس پر کچھ آمادگی ظاہر کر تے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آسان کام نہیں ہے۔اس لیے دنیا بھی ان پرپوری طرح اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں۔یوں دنیا کا مخمصہ اپنی جگہ قائم ہے۔
میرا تاثر ہے کہ اس باب میں ایک نئی امریکی سوچ ابھر رہی ہے۔ اس سوچ کے تحت یہ دیکھا جا رہا ہے کہ نئے ورلڈآرڈر کے لیے کون سا نظریہ‘ملک یا گروہ خطرہ ہے اور اسے کیسے بے اثر یا ختم کیا جائے۔ مذہب کی بنیاد پر پیدا ہونے والی آئیڈیالوجی یا سیاسی نظام اس ورلڈ آرڈر کے لیے خطرہ ہے۔امریکہ اب یہ چاہتا ہے کہ اس نوعیت کی ہر قوت کے خلاف پھر سے ایک عالمی اتفاقِ رائے پیدا کرے۔ویسا ہی اتفاقِ رائے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد پیدا کیا گیا تھا۔اس سوچ کے تحت طالبان امریکہ کا ہدف ہوں گے اور وہ سب قوتیں جو اس کے خیال میں طالبان کی سہولت کار ہیں۔امریکہ یہ چاہے گا کہ ان کے خلاف عالمی رائے عامہ کو متحد کرے۔
میرا احساس ہے کہ چین اور روس کو بھی اس سوچ میں شریک کیا جائے گا جیسے دہشت گردی کے خلاف ان کو مریکی حکمتِ عملی کا حصہ بنایا گیا تھا۔اس نئے اتحاد کا ہدف یہ ہو گا کہ طالبان کو مجبور کیا جائے کہ وہ نئے عالمی نظام کو قبول کر لیں یا پھر ایران کی طرح ان کونشانے پر رکھ لیا جائے۔نئے نظام کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معیشت اور انسانی حقوق جیسے تصورات کو عملاً تسلیم کر لیا جائے‘ دنیا جس کو درست سمجھتی ہے۔اس کے ساتھ اس کی سرزمین سے کسی مذہبی آئیڈیالوجی کی آبیاری نہ ہو۔
یہ آسان کام نہیں ہے اور امریکہ یہ جانتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قادرِ مطلق کسی کو نہیں بنایا۔مجھے دکھائی یہ دیتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکی پالیسی کا ابہام بڑھتا جائے گا۔وہ ان ممالک کے خلاف کوئی اقدام کر سکتا ہے جسے وہ طالبان کا سہولت کار اور امریکی ہزیمت کا اصل ذمہ دار سمجھتا ہے۔طالبان نے امریکہ کی مت مار دی ہے۔اس کیفیت میں فرد حماقتیں کرتا ہے اورملک بھی۔دیکھیے امریکہ کی نئی حماقت کا ہدف کون ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved