تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     21-09-2021

جناب وزیراعظم! تصادم سے بچیں

موضوع تو کچھ اور ہے مگر پہلے اس دردِ مشترک کی بات ہو جائے جس سے آج کل ہر پاکستانی گزر رہا ہے۔ کرکٹ کے عشاق سے کوئی یوں بھی کرتا ہے جیسے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے کیا ہے۔ راولپنڈی سٹیڈیم کے باہر کرکٹ کے شائقین ہاتھوں میں ٹکٹ تھامے ہوئے اندر جانے کیلئے بیتاب تھے کہ اچانک خبر آئی کہ مہمان ٹیم کوئی میچ نہیں کھیلے گی اور واپس چلی جائے گی۔ برسوں بعد آنے والی ٹیم یقینا بہت کچھ دیکھ بھال کر ہی آئی ہوگی مگر اُس کی اچانک واپسی ناقابلِ فہم ہے۔ ایسی ہی صورتِ حال کے بارے میں شاعر نے کہا تھا
تیرا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
یہاں تو واپسی کیلئے تمہید باندھنے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا نہ پہلے پاکستان کو اعتماد میں لیا گیا نہ کوئی فیس سیونگ فارمولا سوچا گیا۔ اب پاکستان کس کس کو ''واپسی‘‘ کا سبب بتائے گا۔ ''باعثِ واپسی‘‘ کچھ بھی ہو‘ کچھ بڑے ملکوں کا اس میں اشارہ تھا یا نیوزی لینڈ کا اپنا فیصلہ‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ نیوزی لینڈ کی یہ بے رخی ہماری وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ دونوں کی مایوس کن کارکردگی کا نتیجہ ہے۔
پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت ملک کے اندر استحکام پیدا کرتی‘ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی‘ صدقِ دل سے وسیع تر مشاورت کرتی اور خودپسندی یا انفرادی پالیسی سے نہیں بلکہ اجتماعی دانش سے کام لیتی۔ مگر حکومت نے اس کے برعکس ملک کے ہر طبقے کے ساتھ تصادم کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی وزراء ہانکا لگا کر جناب وزیراعظم کو تصادم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اعظم سواتی اور فواد چوہدری الیکشن کمیشن کو یوں دھمکیاں دے رہے ہیں جیسے کوئی بدمزاج تھانیدار اپنے ماتحتوں کو ڈراتا اور دھمکاتا ہے۔ وہ میڈیا کہ جس کی تعریف میں جناب عمران خان رطب اللسان رہتے تھے آج اُسی میڈیا کو ناکوں چنے چبوانے اور سرنگوں کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کابینہ کی ایک خاتون وزیر شیریں مزاری صاحبہ اپنے چند ہمنوائوں کے ساتھ سیکولر اور لبرل ایجنڈے کو ہوا دینے کے لیے قبولِ اسلام پر پابندی کا ایک بل لانے کی بھرپور تیاری کر چکی ہیں۔ شاید ہی معاشرے کا کوئی ایسا طبقہ ہو جو خان صاحب کی حکومت کے لگائے ہوئے زخموں سے چور نہ ہو۔ ابتدا عوام کی حالت زار سے کر لیتے ہیں۔تحریک انصاف کے وزیر مشیر ہر چیز کے بارے میں فخریہ کہتے ہیں کہ یہ کام پاکستان میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہی ہے۔ حکومت نے پٹرول کی قیمت 123 روپے فی لٹر کر کے بلند ترین قیمت کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ جہاں تک اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہیں۔ اسی طرح 170 روپے کا ڈالر بھی ملکی تاریخ کی بلندترین سطح پر جا پہنچا ہے۔ اسی طرح بیروزگاری بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔''یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ لوگوں کی حالتِ زار کے بارے میں حکومت کی طرف سے کسی دردمندی اور فکرمندی کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ اگر اپوزیشن کا کوئی لیڈر بلبلاتے عوام کا دکھڑا بیان کرتا ہے تو اس پر وزرا اظہارِ افسوس و ندامت کرنے کے بجائے اُسے طعنے دینے شروع کر دیتے ہیں کہ تمہیں مہنگائی کے خلاف شور مچانے کا کوئی حق نہیں کیونکہ تم محلات میں رہتے ہو۔ جہاں تک خستہ حال لوگوں کا تعلق ہے تو انہوں نے کنٹونمنٹ انتخابات میں کراچی سے پشاور تک اپنے غم و غصے کا اظہار تحریک انصاف کو شکست سے دوچار کرکے کیا ہے۔
اداروں کے درمیان تصادم سے بڑھ کر کسی ملک کی کوئی بدقسمتی نہیں ہوتی۔ جناب عمران خان چیف الیکشن کمشنر کو خود لے کر آئے تھے۔ وہ اور اُن کے کئی وزرا چیف الیکشن کمشنر کی تعریفیں کرتے تھے مگر جب الیکشن کمیشن نے خودمختاری و غیرجانبداری سے کام لینا شروع کیا تو وزراکو بہت ناگوار گزرا۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو وزرا بھڑک اٹھے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن نے اعظم سواتی اور فواد چوہدری کو نوٹس جاری کر دیے ہیں کہ وہ اپنے لگائے ہوئے الزامات ثابت کریں۔ وزرا اپنے الزامات ثابت کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کے ارکان کو چیف الیکشن کمشنر کے خلاف بغاوت پر اُکسا رہے ہیں جو آئین شکنی ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں وزیر اطلاعات نہایت کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ آج کل میڈیا پر جناب عمران خان کے وہ سابقہ کلپس سنائے جا رہے ہیں جن میں خان صاحب نے اُن وزرائے اعظم کو نشانۂ تنقید بنایا تھا جو میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کی سوچ کسی احمق وزیراعظم کی ہی ہو سکتی ہے مگر آج انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ آپ کی لائی ہوئی ''ترقی اور خوشحالی‘‘ ہماری سمجھ میں تو آتی ہے مگر میڈیا منفی پروپیگنڈا کر کے اسے عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر میڈیا پر پابندی لگا دی جائے تو پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
اب آئیے قبولِ اسلام کے حساس مسئلے کی طرف۔ یہ کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہے جو ساری مہذب دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ کوئی فرد ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب میں داخل ہو سکتا ہے۔ لبرل اور سیکولر لابی نے تبدیلی ٔ مذہب پر پابندی لگوانے کی سندھ میں کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ شیریں مزاری کی وزارت نے سندھ اسمبلی کے مسترد شدہ بل کو ''قانون امتناع جبری تبدیلی ٔ مذہب‘‘ کا نام دیا ہے۔ عمداً یہ نام دینے کا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ گویا پاکستان میں لوگ ''بزورِ شمشیر‘‘ غیرمسلموں کو مشرف بہ اسلام کررہے ہیں جبکہ یہاں ایک کیس بھی ایسا نہیں کہ جس میں جبری طور پر کسی کا مذہب تبدیل کرایا گیا ہو۔ اس مجوزہ قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کا کوئی فرد اسلام قبول ہی نہیں کر سکتا۔ اٹھارہ برس سے زیادہ عمر کے جو خواتین و حضرات اسلام قبول کریں گے انہیں ایک جج کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ جج ان افراد پر تقابلِ ادیان کے مطالعے کی پابندی عائد کرے گا جو تین ماہ پر محیط ہوگی۔ مطالعے کے بعد اس فرد کو دوبارہ جج کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ اس غیراسلامی‘ غیرشرعی اور غیرآئینی بل کے خلاف اب علمائے کرام اپنے اجلاس بلا رہے ہیں اور اس کے بعد وہ ملک گیر احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا جناب وزیراعظم کے وزرا اتنے خودسر ہیں کہ کوئی پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھا رہا ہے‘ کوئی الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دے رہا ہے‘ کوئی میڈیا کو آہنی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کر رہا ہے‘ کوئی اپوزیشن کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دے رہا ہے؟ وزرا اتنے بااختیار نہیں کہ وہ ازخود یہ ساری کارروائیاں کر سکیں، شاید انہیں درپردہ کسی کی حمایت میسر ہے۔ اس پر لوگوں کا دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ ایسے غیرعوامی و غیرجمہوری خیالات تو حکمران جماعت کے پہلے کبھی نہ تھے، اب ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب لفظ ''منصب‘‘ میں پنہاں ہے۔ اقتدار سے پہلے تحریک انصاف ہر شے کو اپنی آنکھ سے دیکھتی تھی مگر اب مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد وہ دوسروں کی آنکھ سے دیکھنے لگی ہے۔ تاہم کل کو اگر سیاست دان لانگ مارچ کے ذریعے احتجاج کرتے ہیں‘ صحافی اور اینکر ملک گیر واک کے ذریعے صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں‘ عوام مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور علمائے کرام خلافِ اسلام قانون سازی کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں تو ان احتجاجوں کے نتیجے میں کسی وزیر کی وزارت نہیں‘ جناب وزیراعظم کی حکومت ڈگمگائے گی۔ جناب وزیراعظم! آپ کے ذاتی اور ملکی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ آپ اپنے رویے پر نظرثانی کرتے ہوئے تصادم سے بچیں اور مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved