تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     21-09-2021

عوام دوست تحریک

عوام دوست کا مطلب کیا ہے؟ جواب بڑا سیدھا سادہ اور زودفہم ہے۔ کسان دوست‘ مزدور دوست‘ اُستاد دوست‘ محکمہ صحت کے کارکنوں کا دوست‘ صحافیوں کا دوست‘ مریض دوست‘ بچوں اور بوڑھوں کا دوست‘ چھوٹے سرکاری ملازمین اور پنشن یافتہ افراد کا دوست‘ عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کا دوست‘ مسافروں کا دوست‘گندم‘چاول اور کپاس اُگانے والوں کا دوست‘ قومی آمدنی میں اضافہ کرنے والوں کا دوست‘قانون دوست‘اُصول دوست‘ دیانتداری اور فرض شناسی کا دوست‘ نوے فیصد غیرمراعات یافتہ عوام کا دوست‘ سماجی انصاف کا دوست مذکورہ بالا سطور میں عوام دوست تحریک کا حدود اربعہ بیان کیا گیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ آپ اس فہرست میں سندھ میں ہاری تحریک چلانے والوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ ہر اُس سماجی تنظیم کو بھی شامل کر لیں جو عوام دوستی پر یقین رکھتی ہے اور انسانی حقوق کے احترام جیسے نیک مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ انہوں نے اور اُن کی تحریک نے گھپ اندھیرے میں چراغ جلائے ہیں اور تیز ہوا کے باوجود اپنے ٹمٹماتے ہوئے چراغ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہر روز۔ ہر ماہ اور ہر سال۔
نصف صدی سے چھ ہزار میل کے فاصلے پر رہنے والے کالم نگار کے راستے میں ایک نہیں بہت سے سنگِ گراں ہیں۔ وطن سے دوری‘بڑھتی ہوئی عمر‘ وسائل کی کمی اور پاکستان میں بہت تھوڑے ہم خیال لوگوں سے کمزور اور برائے نام رشتہ۔ وہ کرے تو کیا کرے۔ تین راستے کھلے ہیں۔ ایک تو اس کالم کے ذریعے دنیا بھر میں ''دنیا‘‘ کے پڑھنے والوں سے رابطہ اور دوسرا یہ کہ وقتاً فوقتاً پاکستان کے سیاسی‘سماجی اور مذہبی رہنمائوں اور وکلا‘ اساتذہ‘ صحافیوں‘ کسانوں اور مزدوروں کی تنظیموں کے عہدے داروں کو کھلا اور اجتماعی خط لکھ کر اُن کے سامنے پاکستان کے مسائل کا حل (ٹھوس‘ قابلِ عمل اور اجتماعی دانش کے تقاضوں کو پورا کرنے والا حل) پیش کیا جائے۔ تیسرا طریقہ لندن سے اُردو میں ایک سہ ماہی مجلہ شائع کر کے اُسے دنیا بھر میں مفت تقسیم کرنا ہے۔ یہ بے حد کٹھن کام بھی نصف صدی سے جاری ہے اور کوئی قابلِ ذکر نظر آنے والی کا میابی نہ ملنے کے باوجود جاری رہے گا۔
عمر بھر کے سوچ بچار‘ مطالعہ‘ مشاہدہ اور مشاورت کے بعد پاکستان کو در پیش سنگین بحران کا یہ حل سوچا گیا ہے۔ (جسے دنیا بھر میں سینکڑوں ہم وطنو ں کی حمایت حاصل ہے) کہ ہمارے حکمرانی کے مسائل کو حل کرنے اور زیادہ لوگوں کے زیادہ دکھوں کو فی الفور دور کرنے کیلئے ایک آزمودہ نسخہ ہے‘ جو نسخہ کیمیا کا درجہ رکھتا ہے اور وہ ہے ہر سطح پر مقامی حکومتوں کے بااختیار اور نمائندہ‘فعال اور جاندار۔ زندہ وتابندہ نظام کا قیام۔ آپ غور فرمائیں کہ افغانستان کی کل آبادی تین کروڑ ہے مگر صوبوں کی تعداد 30 ہے۔ ہمیں انگریز کے بنائے ہوئے چاروں صوبوں کو ختم کر کے ہر ڈویژن کو انتظامی وحدت (صوبہ) بنا دینا چاہئے۔ اگر کراچی ایک صوبہ ہوتا تو دو کروڑ سے زیادہ آبادی کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کے تمام عرب ممالک سے بھی بڑا ہوتا۔ مرتضیٰ وہاب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ کالم نگار اُن کے لیے خصوصی نرم گوشہ رکھتا ہے ؛چونکہ میں اُن کی مرحومہ والدہ محترمہ کو اپنے محترم دوستوں میں شمار کرتا تھا؛ میری ذاتی نیک تمنائیں اپنی جگہ مگر وہ حکومت کے نامزد کردہ ناظم کو کامیابی کی طرف ایک انچ بھی آگے بڑھنے میں ہر گز ممدو معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔ اُن کی ذاتی خوبیوں کی تعداد چاہے کتنی زیادہ ہو وہ اُنہیں یقینی ناکامی سے نہیں بچا سکتیں۔ کراچی کے بلدیاتی معاملات پہلے بھی کمشنروں کے ذمہ لگا دیے گئے تھے مگر وہ سب کے سب برُی طرح ناکام ہوئے۔ کراچی کے تین میئر (افغانی صاحب‘ نعمت اللہ خان صاحب اور مصطفی کمال صاحب) اس لئے کامیاب ہوئے اور آج بھی لوگ ان کی اچھی کارکردگی کو اس لئے یاد کرتے ہیں کہ وہ عوام کے چنے ہوئے نمائندہ تھے اور وہ عوام کے سامنے جواب دہ تھے۔ گزرے ہوئے دور میں بے نظیر صاحبہ کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ اور دورِ حاضر میں تحریک انصاف میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ وہ تینوں عوام کے مفاد کی داعی نہیں ہیں اور مقامی حکومتوں کے نظام کے قیام میں ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کرنے کا قابلِ صدمذمت کارنامہ سرانجام دینے میں ایک دوسرے سے آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کسی بھی شہر میں میونسپل کمیٹی؍ کارپوریشن یہ استطاعت نہیں رکھتی کہ مزدوروں کو فیکٹری میں جل کر راکھ ہو جانے سے بچا سکے۔ وہ لوگوں کو پاگل کتوں اور ڈینگی مچھروں سے محفوظ نہیں کر سکتی۔ سرکاری بابو سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ شہر سے لاکھوں ٹن کوڑا کرکٹ اُٹھا کر اسے صاف رکھ سکتے ہیں‘ نہ وہ شہری سہولتیں فراہم کر سکتے ہیں‘ چونکہ دفتروں میں بیٹھنے والے بابوکی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں۔
شہری مسائل صرف عوامی تعاون اور عوامی شرکت اور شہراکت کار اور شعور بیدار ہونے سے حل ہوتے ہیں۔ اقتدار کی بلندیوں سے نازل ہونے والا شخص (چاہے وہ کتنا قابل اور تجربہ کار سرکاری افسر ہو) عوامی تحریک نہیں چلا سکتا۔ وہ عوام کو حرکت میں نہیں لا سکتا۔ اُنہیں Mobilizeنہیں کر سکتا۔ وہ سوائے اپنے ماتحتوں پر حکم چلانے اور اپنے سے بڑے افسر کے احکام (چاہے وہ کتنے احمقانہ ہوں) کی تعمیل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ سرکاری افسران (اپنے عوام دشمن رویہ کی وجہ سے) ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ خود ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ جو قومی صنعتی ادارے پہلے نفع بخش تھے اور پھر سرکاری مداخلت اور کروڑوں اربوں روپوں کی کرپشن کی بدولت گھاٹے کا سودا بن گئے۔ اُنہیں (دوبارہ) نفع بخش بنانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ وہاں کام کرنے والے صنعتی مزدوروں اور کارکنوں کو اس کا مالک بنا دیا جائے۔ وہ اس ادارہ کو بہت جلد نفع بخش بنا لیں گے اور حکومت سے ہر سال اربوں روپوں کی خیرات لینے کی بجائے اسے ہر سال اربوں روپے بطور ٹیکس ادا کریں گے۔
آپ اتفاق کریں گے کہ ایک کالم میں سارے قومی مسائل کا حل تجویز کرنے کی گنجائش نہیں۔ آج کا کالم ختم کرتے ہیں۔ ہمارے ایک بڑے سنگین مسئلے پر اور اُس کا تعلق ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانوں سے ہے جہاں تمام قوانین (Labour Laws) کو برُی طرح پامال کی جاتا ہے۔ ٹھیکیداری نظا م کے ذریعے مزدوروں کو غلام بنا کر ان کو تمام حقوق اور مناسب اُجرت اور حفاظتی تدابیر (مثلاً فائز ایگزٹ، فائر الارم اور آگ بجھانے کے آلات) سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار کی جنگ اور مذہبی جماعتیں فروعی اختلاف کے خار زار میں اتنی برُی طرح اُلجھی ہوئی ہیں کہ وہ کوئی ایک ایسا قدم بھی نہ اُٹھاپاتیں (اور نہ اس کا ذکر کرتی ہیں اور نہ مطالبہ) جس سے عوام دوستی کی خوشبوآئے۔
حل کیا ہے؟ ایک ایسی عوام دوست تحریک چلائی جائے جو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی عوام دشمن عملی کارگزاری اور بیانیے کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک کر ہر فیکٹری کی انتظامیہ کا محاسبہ کر سکے۔ ہر صوبے کی اسمبلی ان رضا کاروں کو یہ قانونی اختیار دے کہ وہ ہر فیکٹری کا معائنہ کر سکیں اور قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کر سکیں۔ رضا کاروں میں اساتذہ‘ وکلا‘ ریٹائر سرکاری افسر' پنشن یافتہ فوجی افسر‘ امام اور اقلیتی برادریوں کے مذہبی رہنما شامل ہوں۔ 74 سال پہلے پاکستان ایک جدید قوم پرست‘ عوامی تحریک نے بنایا تھا۔ اب صرف ایک عوام دوست عوامی تحریک ہی اسے حقیقی ترقی دے سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved