تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     21-09-2021

حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ ٔ سبا!

بنی اسرائیل میں کئی انبیائے کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکومت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ اس قوم کا سنہری دور مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کا دورِ حکمرانی تھا۔ پھر کئی صدیوں کے بعد فلسطین اور اس سے ملحقہ علاقوں میں حضرت دائود علیہ السلام و سلیمان علیہ السلام کا زمانۂ حکمرانی تھا۔ حضرت دائود علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے اللہ نے ارشاد فرمایا: اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ (سورہ ص: 26) حضرت سلیمان علیہ السلام‘ حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند تھے اور آنجناب کے بعد نبوت اور خلافت کے وارث بنائے گئے۔ (سورۃ النمل: 16)۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ آپ کو ایسی حکومت عطا کی جائے جو کسی اور نہ ملی ہو، نہ آئندہ ملے۔ اللہ نے دعا قبول فرما لی۔ آپ علیہ السلام کے لشکر میں کم و بیش ساری قابلِ ذکر مخلوق شامل ہوا کرتی تھی۔ ایک بار آپ علیہ السلام کسی جہادی مہم کے لیے روانہ ہوئے تو اس عظیم الشان لشکر کو دیکھ کر ایک چیونٹی نے کہا ''اے چیونٹیو! اپنے بلوں میں گھس جاؤ‘ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر لا علمی میں تمہیں کچل نہ ڈالیں‘‘۔ آپ علیہ السلام نے چیونٹی کی بات سن اور سمجھ لی۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا آپ علیہ السلام پر بہت بڑا احسان تھا کہ اس نے آپ کو ایک جانب نبوت کے بلند مقام پر سرفراز کیا تھا جو دنیا و آخرت کا سب سے اونچا مقام ہے، دوسری طرف آپ علیہ السلام کو ایسی حکومت عطا کی تھی جس کی کوئی مثال بنی نوع آدم میں نہیں ملتی۔ تیسری طرف آپ کو تمام مخلوقات کی باتیں سننے اور سمجھنے کی صلاحیت بخشی گئی تھی۔
یہ بہت بڑی بڑی نعمتیں تھیں‘ ان کو یاد کر کے آپ علیہ السلام کے دل میں خیال گزرا کہ آپ جیسی شان کسے مل سکتی ہے۔ یہ خیال آتے ہی آپ فوراً متنبہ ہو کر اللہ کا شکر ادا کرنے اور اس سے معافی مانگنے لگے: ''اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیرے ان احسانات کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیے ہیں اور ایسا عملِ صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندگان میں شامل کر‘‘ (النمل: 19)۔ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی جامع اور عظیم دعا ہے۔ آپ علیہ السلام کی حکومت جن وانس کے علاوہ پرندوں‘ درندوں اور چرندوں پر بھی تھی بلکہ ہوا بھی آپ کے تصرف میں دے دی گئی تھی۔
ہر انسان کو خدا نے بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ ان کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ''اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا‘‘ (النحل: 18) ''اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیں سکتے‘‘۔ انسان کا فرض ہے کہ ان لاتعداد نعمتوں کو یاد کر کے خدا کا شکر ادا کرے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ دعا پڑھتا رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ احقاف میں اپنے مخصوص اور صالح بندوں کی جو دعا نقل کی ہے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس دعا سے بہت ملتی جلتی ہے۔ تھوڑا سا لفظی تغیر ایک جگہ ہے جہاں اپنی اولاد کی اصلاح کی استدعا کی گئی ہے۔ یہ دعا بھی بہت جامع اور پُرتاثیر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سعادت مند نوجوان بچپن سے جوانی تک اللہ کی اطاعت میں منزلیں طے کرتا ہے، یہاں تک کہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے۔ اب اس کے والدین بھی ہیں اور اہل و عیال بھی۔ وہ اللہ سے باقاعدگی کے ساتھ دعا مانگتا رہتا ہے:
رَبِّ أَوْزِعْنِیْٓ اَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صٰلِحًا تَرْضَاہُ وَأَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْٓ إِنِّیْ تُبْتُ إِلَیْکَ وَإِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الاحقاف: 15)
ترجمہ:اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں پر‘ جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں‘ تیرا شکر ادا کروں اور ایسے نیک عمل کروں جن کو تو پسند فرماتا ہے۔ اوراے اللہ! میری اولاد کی اصلاح اور تزکیہ فرما دے۔ میں تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں اور بلاشبہ میں سرِتسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔
مذکورہ مہم کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی فوج کے سب دستوں کی رپورٹ لی تو ہد ہد کو غائب پایا۔ آپ علیہ السلام نے کہا کہ اس موقع پر اس کا غائب ہونا تو بڑا جرم ہے، اسے اس کی سزا دی جائے گی یا پھر وہ کوئی معقول عذر پیش کرے۔ ہدہد حاضر ہوا، تو اس نے بتایا کہ وہ اڑتا اڑتا دور جنوب میں نکل گیا تھا۔ یمن میں اس نے ایک ملکہ کو دیکھا جو بڑی شان و شوکت والی اور عظیم الشان تخت کی مالک ہے، مگر وہ خود اور اس کی قوم بھی سورج کی پرستش کرتی ہے۔ یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کے ذریعے اپنا مکتوب ملکۂ سبا کو بھیجا۔
ہدہد نے یہ خط ملکہ سبا کے سامنے اس وقت پھینک دیا جب وہ سورج پرستی کے لیے معبد کی جانب جا رہی تھی۔ خط میں لکھا تھا: ''یہ مکتوب سلیمان کی طرف سے ہے اور اﷲ رحمن ورحیم کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ مضمون یہ ہے کہ میرے مقابلے پر سرکشی نہ کرو اور مسلم ومطیع بن کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ‘‘۔ (النمل: 30 تا 31)
قومِ سبا یمن کی حکمران تھی۔ یہ قوم ایک طویل عرصہ تک یمن اور جنوبی عرب کے علاقوں پر قابض رہی۔ یمن کے موجودہ دارالحکومت صنعا سے 55 میل شمال مشرق میں مآرب کا شہر اس قوم کا صدر مقام تھا۔ تجارت اور زراعت کی وجہ سے اس قوم میں دولت کی خوب ریل پیل تھی۔ حِمْیَرْ کے عروج (115 ق م) تک اس قوم نے بڑے دبدبے سے حکومت کی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں اس سلطنت پر ایک عورت کی حکومت تھی۔ یہ ملکہ اور اس کی قوم سورج پرست تھی۔ ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو یہ اطلاع دی تو آپ علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ اس ملکہ اور اس کی قوم کو دینِ توحید کی طرف دعوت دی جائے۔ اسی لیے خط لکھا تھا، نہ کہ کسی اور مقصد کے لیے۔
قومِ سبا کی ملکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط پڑھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے فوراً مجلسِ مشاورت طلب کی اور معاملہ مجلس کے سامنے رکھ دیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ بحث وتمحیص کے بعد طے ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں تحائف بھیجے جائیں اور ان ایلچیوں کے آنے کا انتظار کیا جائے‘ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں۔ ادھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان تحائف کو دیکھا تو فرمایا: ''ان تحائف کی تو ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ خدا نے ہمیں اس سے بہت زیادہ انعامات سے نواز رکھا ہے۔ جاؤ یہ سب کچھ لے جاؤ۔ اگر اسلام قبول نہیں تو ایک عظیم الشان لشکر کا انتظار کرو جس کا مقابلہ کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے‘‘۔ (دیکھیے سورۃ النمل: 36تا 37) حضرت سلیمان علیہ السلام کو مال ودولت کی کوئی طلب نہ تھی‘ ملکہ سے کہیں زیادہ مال و دولت اللہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ یہ قوم غلط راستہ چھوڑ کر راہِ ہدایت اختیار کرے۔ یہی اللہ کے نبیوں کا مشن ہوتا ہے اور یہی تمنا!
اس کے بعد آپ علیہ السلام نے ملکۂ سبا کا تخت ایک معجزانہ طریقے سے اپنے دربار میں منگوا لیا۔ (ہم نے اپنی کتاب ''تحفۂ رمضان‘‘ میں اس مضمون کا تفصیلی ذکر کیا ہے) ادھر ملکہ بنفس نفیس اپنی کابینہ کے ساتھ دربارِ سلیمانی میں حاضری کے لیے چل دی۔ جب وہاں پہنچی تو اپنا تخت وہاں موجود پایا حالانکہ وہ اسے یمن میں اپنے دربار میں سخت حفاظتی پہرے میں چھوڑ کر آئی تھی۔ اس پر وہ حیران رہ گئی۔ اس کے بعد اس کے دل نے گواہی دی کہ سلیمان (علیہ السلام) دنیا کے بادشاہوں کی طرح محض بادشاہ نہیں ہیں بلکہ وہ فی الواقع اﷲ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں تو وہ آپ علیہ السلام پرایمان لے آئی۔
ایمان لانے کے موقع پر اس نے کچھ الفاظ کہے جن میں بظاہر دعائیہ کلمات نہیں ہیں لیکن مفہومِ دعا موجود ہے کیونکہ اسے اپنی گزشتہ بت پرستی کی زندگی پر شدید احساسِ ندامت تھا‘ جسے وہ ان الفاظ میں حضورِ ربانی میں پیش کرتی ہے:
رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ ِللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (النمل: 44) ''اے میرے رب‘ میں نے (آج تک) اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا‘ اور اب میں نے سلیمان کے ساتھ ربّ العالمین کی اطاعت قبول کر لی‘‘۔
یہ دعا حضرت یونس علیہ السلام کی دعا (سورۃ الانبیا ء) کے مشابہ ہے جس میں آنجناب علیہ السلام نے کہا تھا ''لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘‘۔ اس دعا کو آیت کریمہ بھی کہا جاتا ہے اور حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی دعا کے ساتھ ذوالنون (حضرت یونس علیہ السلام ) کی اس دعا کو شامل کر لے‘ اس کی دعا اللہ کے ہاں مقبول ہو جائے گی۔
ملکہ سبا کے بارے میں بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں میں بھی عجیب وغریب داستانیں مشہور ہیں۔ یہ سب داستانیں اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہیں اور اکثر نصوصِ قرآن کے بالکل خلاف ہیں۔ بدبخت اسرائیلیوں نے اللہ کے نبیوں کی حرمت کو ہمیشہ پامال کیا۔ ایسے ایسے لغوالزامات انبیاء کرام علیہم السلام پر لگائے کہ خدا کی پناہ! ایسی روایات کے بیان میں حد درجہ احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ مسلمانوں میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا‘ جس کا نام بعض روایات میں بلقیس بتایا گیا ہے‘ سے شادی کر لی تھی۔ قرآن وحدیث اس بارے میں خاموش ہیں، ممکن ہے آپ علیہ السلام نے شادی کر لی ہو لیکن یہ بات یقینی نہیں ہے، اگر شادی کی ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ یہ سنت اور کارِ خیر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved