تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     21-09-2021

چھوٹی چھوٹی خوشیاں

منظر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ راجن پور کا تھا۔ گلے میں بہت سے ہار ڈالے ہوئے ایک بزرگ خوش خوش چلتے آرہے تھے۔ اُن کے پہلو بہ پہلو کچھ جج صاحبان اور وکلا چل رہے تھے۔ سب ہاروں سے لدے بزرگ کو دیکھ کر تالیاں بجا رہے تھے۔ محترم بزرگ بھی خوشی سے نہال دکھائی دے رہے تھے اور ہوتے بھی کیوں نا کہ یہ منظر صرف اُن کے لیے ہی نہیں‘ عدالت میں موجود لوگوں اور پھر الیکٹرانک میڈیا سے سوشل میڈیا تک‘ تمام دیکھنے والوں کے لیے بھی دل خوش کردینے والا تھا۔ بزرگ کا نام عبدالخالق تھا جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت راجن پور سے بطور مالی ریٹائر ہوئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو شاید وہی ہوتا جو عمومی طور پر ہوتا ہے کہ عبدالخالق کو اُن کے چند ساتھی چائے پلاتے، اُن کے گلے میں ایک آدھ ہار ڈالتے اور اُنہیں رخصت کردیتے لیکن یہاں کچھ ایسا ہوا جس نے سب کا دل خوش کردیا۔ راجن پور کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بذاتِ خود باغبان صاحب کو رخصت کرنے کے لیے آئے۔جج صاحب عبدالخالق کو اپنی گاڑ ی کے اندر بٹھاتے ہیں اور پھر سبھی اُنہیں پرجوش طریقے سے الوداع کہتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ بہت عرصے بعد کوئی اِس طرح کا منظر دیکھنے کو ملا ۔ عمومی طور پر تو ہمارے ہاں بیشتر اوقات دلوں کو دکھی کردینے والے مناظر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہیں لڑائی‘ مار کٹائی چل رہی ہوتی ہے تو کہیں ظلم کی داستانیں رقم ہو رہی ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پرظلم و تشدد کی وڈیوز اتنی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں کہ دل دہلنے لگتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قانون کا کوئی خوف باقی نہیں رہ گیا۔ نجانے ہم نے کون سی پٹڑی پکڑ لی ہے کہ کوئی بھی اپنی حد میں رہنا نہیں چاہتا۔ ہمارے یہی رویے ہیں جن کے باعث ہر کوئی پریشان دکھائی دیتا ہے۔ سبھی نظام کو کوستے نظر آتے ہیں لیکن مجال ہے کہ اِس میں بہتری کے لیے کوئی کوشش کی جاتی ہو۔ ہرطرف جھوٹ کا ایسا غلغلہ ہے کہ خدا کی پناہ! ہرروز کوئی نہ کوئی نیا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔ سب کی یہی خواہش ہے کہ سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق ہوتا رہے۔ اپنی خواہشوں کی تکمیل میں ہم نے اس نظام میں رخنہ ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
اِس چاک چکر میں ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ بچپن کا ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سناتا ہوں‘ جو کچھ اِس طرح ذہن کے ساتھ چپکا کہ آج تک پوری جزئیات کے ساتھ یاد ہے۔کوئی تیس‘ پینتیس سال پہلے لاہور میں کاکا پنکچروں والے کی ایک چھوٹی سی دکان ہوا کرتی تھی۔ ایک روز اتفاق سے ہم اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ‘ کاکا کی دکان کے قریب کھڑے‘ گپ شپ کر رہے تھے کہ ایک شخص کاکا کی دکان کے قریب سے گزرا۔ کاکا نے اُسے آواز دی اور کہا: بھائی! آپ نے میرے چار آنے دینے ہیں، اتنا عرصہ ہو گیا لیکن آپ مجھے میرے پیسے واپس نہیں کررہے۔ بھر ے بازار میں یہ فقرہ سن کر وہ شخص غصے میں آگیا اور کہنے لگا کہ چار آنے ہی تو دینے ہیں لیکن آپ مجھے آتے جاتے ایسے آوازیں دیتے ہیں جیسے میں نے آپ کے ہزاروں روپے دینے ہوں۔ اِس پر کاکا نے جو جواب دیا‘ وہ ذہن سے چپک کر رہ گیا۔ کاکا نے کہا: دیکھو بھائی! زیادہ پیسے ہم کمائیں نہ اور تھوڑے پیسے ہم لیں نہ‘ تو خود ہی بتاؤ کہ گزارہ کیسے کریں؟ ہم نے تو یہی دوچار آنے کمانا ہوتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ میں وہ بھی آپ سے نہ مانگوں، یہ تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ کاکا کا تحمل مزاجی کے ساتھ دیا گیا یہ جواب نجانے کیوں ذہن میں آج تک گھومتا رہتا ہے۔ اِس جواب کو اگر ہم خوشیوں کے ساتھ منسلک کرکے دیکھیں تو کافی کچھ سمجھ میں آجاتا ہے۔ ہم ہمیشہ بڑی بڑی خوشیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور اِس چکر میں اپنے اردگرد بکھرئی ہوئی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی فراموش کردیتے ہیں۔ شاید ہمیں یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ بڑی خوشیاں اپنی جگہ لیکن کبھی آپ اپنے بچوں کے ساتھ تو وقت گزار کردیکھیں، ایسی خوشی حاصل ہوگی جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ گرمی آئے تو چھت پر پرندوں کے لیے پانی کا انتظام کردیا کرو کہ گرمیوں کے موسم میں پرندوں کی ایک بڑی تعداد گرمی کی شدت اور پیاس کی وجہ سے ہلاک ہوجاتی ہے۔ ہمیں کبھی یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ سڑکیں‘ راستے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں نہ کہ اِنہیں انچ انچ کرکے اپنے گھروں کا حصہ بنا لیا جائے۔ شاید معاشرت سے ہمارا تعلق ہی توڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں آج ہرطرف افراتفری پھیلی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ جب ہم دوسروں کے لیے بہتری نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا کیوں ہماری بہتری کی بابت سوچے گا؟ بس اِسی چکر میں 24گھنٹے ایسا ہنگامہ برپا رہتا ہے کہ سکون کا سانس تک لینا محال ہوچکا ہے۔
ایسے میں راجن پور میں جو مثال قائم کی گئی ہے‘ سچی بات ہے کہ اُس نے ہم سب کو ایک سبق دیا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے میں کسی کا کچھ نہیں گیا مگر حاصل بہت کچھ ہوا ہے۔ عبدالخالق کے چہرے پر جو خوشی دیکھنے کو ملی وہ یقینا انمول ہے۔ اس ایک بظاہر چھوٹے سے واقعے نے بے شمار اہلِ وطن کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دی ہیں، بیشتر کے لیے تو یہ منظر شاید حیران کن بھی تھا۔ اس ایک واقعے کے ذریعے دوسروںکو بھی یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ اگر ہماری تھوڑی سی کوشش سے کسی کے چہرے پر خوش آسکتی ہے تو یہ ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں۔ ایسا ہی ایک منظر گزشہ روز جنرل ہسپتال لاہور میں بھی دیکھنے کو ملا جہاں چیف سینٹری انسپکٹر کی 40 سالہ ملازمت کے بعد پاکستان ہیلتھ سپورٹ ایسوسی ایشن نے ان کے اعزاز میں پروقار تقریب کا انعقاد کیا جس میں ڈاکٹرز سمیت ملازمین کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور سبکدوش ہونے والے سینٹری انسپکٹر کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ہمارے ہاں تو کوئی ایسا رواج نہیں کہ طاقتور اپنے سے کمزور کی طرف نظر اُٹھا کر بھی دیکھے لیکن اس طرح کی خوشگوار مثالوں سے مثبت تبدیلی کی امید ضرور وابستہ کی جا سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم صرف باتوں سے کام چلانے کی کوشش کریں۔ ایک صاحب کو ہزار بار اخلاقیات کے بارے میں درس دیتے ہوئے سنا۔ سن کر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اُن سے زیادہ دردِ دل رکھنے والا شخص روئے زمین پر موجود نہیں۔ ایک روز اُنہیں ایک ادارے کے دروازے پر سکیورٹی گارڈکو برابھلا کہتے ہوئے سنا تو دل میلا ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ سکیورٹی گارڈ سے دروازہ کھولنے میں تھوڑی سی دیر ہوگئی تھی کیونکہ وہ سائیڈ پر کھڑا پانی پی رہا تھا۔ کافی منت سماجت کے بعد اُس سکیورٹی گارڈ کی جان بخشی ہوئی۔ ایسے رویے بھی ہم سب کے لیے ایک سبق ہیں کہ کسی کو سن کر یا دیکھ کر اُس کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کرلینی چاہیے۔
اگر مذکورہ مثبت مثالیں ہمارے ہاں کثرت سے دکھائی دینے لگیں تو یقین جانیے زندگی میں سکون آنے لگے گا۔ ہمیں کچھ زیادہ تو کرنا نہیں‘ بس اتنا ہی ہے کہ اگر کسی کی مدد کرسکتے ہیں‘تو آگے بڑھ کریں۔ مدد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو کسی سے مسکرا کر بات ہی کرلیں۔ مثالیںتو ہزاروں دی جاسکتی ہیں کہ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن اپنی چھتری خود اُٹھاتے ہیں‘ ہالینڈ کے وزیراعظم سائیکل پر دفتر جاتے ہیں‘ امریکا میں کسی کی جرأت نہیں کہ اپنی بات نہ مانے جانے پر الیکشن کمیشن کو آگ لگانے کی باتیں کرنا شروع کردے وغیرہ وغیرہ۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ اخلاقیات کی باتیں تو ہم عرصہ دراز سے کرتے اور سنتے چلے آرہے ہیں‘ ہم نے ان سے سیکھا کیا ہے؟ ہم نے اپنے معاشرے میں بہتری لانے میں خود کیا کردار ادا کیا ہے یا ہم بھی نمک کی کان میں نمک بن چکے ہیں؟ ہم لاکھ اپنے نظام میں مثبت تبدیلیاں لانے کی باتیں کرتے رہیں لیکن جب تک ہم خود مثبت رویہ اختیار نہیں کریں گے، کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ کون ہے جو اچھی باتیں نہیں کرسکتا، سب کرسکتے ہیں لیکن بات تو عمل کی ہے۔ہم لاکھ برابری اور نچلے طبقے کی بہتری کی باتیں کریں‘ جب تک ہم خود ایسے رویے نہیں اپنائیں گے، معاشرتی تعمیر و ترقی خواب و خیال ہی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved