تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-09-2021

اپنا بندہ لانے کا جنون

کہنے کو تو ملک میں جمہوریت ہی ہے لیکن کیا کریں جمہوریت رویوں کا نام ہے نہ کہ کتابوں میں لکھے قوانین کا۔
آج کل وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر سے سخت ناراض ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اداروں اور اداروں کو چلانے والے سربراہان میں اختلافات ہو جاتے ہیں ‘ ہونا بھی چاہئیں کہ اس طرح ہی معاشرہ اور گورننس بہتر ہوتی ہے‘ جب مختلف آرا سامنے آتی ہیں اور کوئی حل ڈھونڈا جاتا ہے‘ لیکن جس طرح کا حل وزیر اعظم اور ان کی کابینہ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کا نکال رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے کچھ خطرناک ہوکر رہے گا۔ ایک ہوتا ہے اداروں کا ایک دوسرے سے اختلاف کرنا اور اس اختلاف کو بیٹھ کر قانون کے مطابق حل کرنا اور دوسرا ہوتا ہے اداروں کا ٹکرائو۔ جو کچھ حکومت اور الیکشن کمیشن میں چل رہا ہے یہ ٹکرائو ہے اور خوفناک ٹکرائو ۔اس طرح کی صورتحال ماضی میں بھی نظر آتی رہی ہے جب مختلف حکومتیں اپنے اداروں کے ساتھ ٹکرائیں اور الٹا اپنا نقصان کر بیٹھیں۔ مجھے اب تک کوئی ایک نام ذہن میں نہیں آرہا کہ اسے اس ٹکرائو سے فائدہ ہوا ہو۔ سب نقصان حکومتوں کا ہی ہوا۔ اب بھی جو لڑائی الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان چل رہی ہے اس میں نقصان حکومت کا ہی ہوگا۔ حکومت اس لیے بڑھ چڑھ کر اداروں پر چڑھ دوڑتی ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس ملک کے طاقتور طبقات اس کے ساتھ ہیں۔ میں دوستوں کو ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ادارے ایک پیج پر آ جائیں تو پھر واچ ڈاگ ‘ عدالتوں‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کی خیر نہیں۔ تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں ذاتی وفاداری کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور جو بھی اس سے ہٹ کر کچھ اور کرنے کی کوشش کرے وہ نہیں چل پائے گا۔ ہر کسی کو اپنا بندہ چاہیے۔یہ ''اپنا بندہ ‘‘والا کام بہت پرانا ہے اور اس کا انجام بھی برا نکلا‘ لیکن کیا کریں انسانی نفسیات ہے کہ ہم انسان باز نہیں آتے۔ کوئی کسی کے زوال یا غلطیوں سے نہیں سیکھتا۔ ہم سب اپنی اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں دوسرے کی نہیں۔ بھٹو صاحب جیسا پڑھا لکھا بندہ بھی اس نفسیات کا شکار ہوا کہ ٹاپ پر اپنا بندہ ہونا چاہیے اور یوں سینئر ز کو چھوڑ کر ایک بہت جونیئر کو آرمی چیف لگایا اور اسی کی وجہ سے بھٹو کو پھانسی چڑھنا پڑا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم نواز شریف سابق وزیراعظم بھٹو کے غلط فیصلے اور انجام سے سبق سیکھتے اور'' اپنا بندہ‘‘ لگانے سے پرہیز کرتے لیکن کیا کریں یہاں پھر وہی نفسیات حاوی ہوئی اور انہوں نے بھی جہانگیر کرامت کی چھٹی کرانے کے بعد جنرل مشرف سے خفیہ ملاقات کی۔ نواز شریف نے جنرل علی قلی خان کو سینئر ہونے کے باوجود آرمی چیف نہ لگایا کیونکہ نواز شریف کو شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان جیسے وزیروں نے یقین دلایا ہوا تھا کہ جنرل مشرف'' اپنا بندہ‘‘ ہے‘ جنرل علی قلی خان نہیں ہے کیونکہ وہ سابق صدر ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب کا رشتہ دار ہے اور کل کو مسئلے پیدا کرے گا۔ جنرل علی قلی خان نواز شریف کے لیے مسئلے پیدا کرتا یا نہ کرتا لیکن اپنے بندے جنرل مشرف نے نہ صرف مسئلے پیدا کیے بلکہ انہیں دہشت گردی کی عدالت سے عمر قید تک دلوا دی۔
بینظیر بھٹو بھی یہی سوچ کر فاروق لغاری کو صدر بنا بیٹھیں کہ'' اپنا بندہ‘‘ ہے ‘وہ غلام اسحاق خان کی طرح ان کی حکومت نہیں توڑے گا‘ نہ جیل بھیجے گا‘ نہ مقدمات بنیں گے‘مگر ہوا کیا‘ فاروق لغاری جیسے اپنے بندے نے نہ صرف حکومت توڑی بلکہ دو تین دن وزیراعظم ہاؤس میں نظر بندبھی رکھا‘ زرداری کو لاہور گورنر ہاؤس سے گرفتار کرایا‘ چند مقدمے بنائے۔ یہ ہوا انجام اپنے بندے کا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ فاروق بھائی ہمارے اپنے بندے ہیں‘ فاروق لغاری نے فوراً بینظیر بھٹو کی تصحیح کی کہ نہیں وہ صرف اللہ کے بندے ہیں۔ پیغام بڑا واضح تھا کہ جناب اب ہم صدر ہیں اور ہمیں صدر ہی سمجھا جائے۔ اسی'' اپنے بندے‘‘ نے عابدہ حسین‘ چوہدری نثار علی خان‘ اپنے پرنسپل سیکرٹری شمشیر خان‘ دوست اور ایڈوائز ر شاہد حامد کے ساتھ مل کر سا زش تیار کی اور محترمہ جو انہیں ''اپنا بندہ ‘‘سمجھتی تھیں‘ کی حکومت توڑی اور زرداری کو جیل بھیجا۔
یاد پڑتا ہے کہ طارق کھوسہ ڈی جی ایف آئی اے تھے تو انہیں اُس وقت کے صدر زرداری کا فون آیا کہ کافی ہوگیا ہے‘ وہ پاکستان سٹیل ملز میں جاری تحقیقات بند کر دیں۔ زرداری کا خیال تھا کہ ایک وہ صدر ہیں اور پھر اوپر سے ایک بلوچ ہیں‘ طارق کھوسہ صدر پاکستان کی لاج رکھے یا نہ رکھے لیکن اپنے بلوچ کی لاج رکھے گا۔ اس سکینڈل میں زرداری کے قریبی دوست ملوث تھے اور کسی وقت ایف آئی اے انہیں اٹھا سکتی تھی۔ طارق کھوسہ نے ''اپنا بندہ‘‘ بننے سے انکار کر دیا۔ زرداری نے دبائو بڑھایا تو بھی انکار کیا۔ نتیجہ وہی نکلا کہ اگلے روز طارق کھوسہ کو ایف ائی اے سے ہٹا دیا گیا۔ ڈپٹی ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی پولیس میر زبیر محمود نے بھی خانانی اینڈ کالیا سکینڈل میں اربوں روپوں کا منی لانڈرنگ سکینڈل پکڑا۔ ملزمان نے ہر قسم کی سفارشیں کرا لیں‘ لالچ دے کر دیکھ لیابات پھر بھی نہیں بنی۔ پھر ایک طاقتور وزیر اس کھیل میں داخل ہوئے۔ میر زبیر کو'' اپنا بندہ‘‘ سمجھ کر کہا گیا کہ جانے دیں کافی ہوگیا ہے‘ میر زبیر نے بھلا کب ماننا تھا ‘ایک ارب روپے میں ڈیل ہوئی اور دوسرے دن میر زبیر بھی فارغ۔'' اپنا بندہ‘‘ نہیں بنیں گے تو پھر آپ کام نہیں کر سکیں گے۔
مجھے یاد ہے کہ چین کے دورے میں وزیراعظم نواز شریف نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہمیں رولز اور اصول بتانے والے بیوروکریٹ نہیں چاہئیں جو کہیں یہ کام ہوسکتا ہے یہ نہیں ہوسکتا‘ بلکہ ایسے کہ جنہیں کہا جائے کہ فلاں کام کر دو تو وہ کر دیں۔ انہوں نے ایک ٹرم استعمال کی تھی کہ ہمیں go-getterافسران کی ضرورت ہے ۔ ان کا اشارہ نوجوان ڈی ایم جی افسران کی طرف تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ نوجوان افسران سینئرز کی طرح رولز کا بہانہ نہیں کرتے ‘وہ سیدھا کام کرتے ہیں۔ اس لیے شریفوں کے پسندیدہ افسران فواد حسن فواد‘ احد چیمہ جیسے افسران تھے جو منہ سے حکم نکلنے سے پہلے ہی شاہی فرمان بجا لاتے تھے۔ یہ اور بات کہ پھر وہی افسران طویل عرصے تک نیب کی قید میں بھی رہے۔
اب عمران خان پر بھی وہی سٹائل حاوی ہورہا ہے جو نواز شریف پر کبھی طاری تھا۔ وہ چاہتے تھے نیچے سے لے کر اوپر تک ہر ادارے میں ‘ ہر جگہ اپنا بندہ ہو۔ انہیں بس ایک اشارہ کیا جائے تو فورا ًکورنش بجا لائیں۔ انکار کی کوئی جرأت نہ کرے۔اب خان صاحب بھی یہی کچھ کررہے ہیں۔ پہلے قاضی فائز عیسیٰ اور عدالت کے ججوں سے لڑے‘ پھر میڈیا اتھارٹی کا بل لا کر صحافیوں سے لڑے‘ آج کل وہ الیکشن کمشنر سے لڑ رہے ہیں۔ نواز شریف نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کرایا تھا کہ وہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی طرح ''اپنا بندہ‘‘ نہیں نکلا تھا تو خان صاحب کے وزیر بشیر احمد المعروف اعظم سواتی نے دھمکی دی ہے کہ الیکشن کمیشن کو آگ لگا دیں۔
اعظم سواتی جیسوں نے ہی بھٹو کو مروایا تھا‘ انہی نے ہی نواز شریف کو مروایا اور اب یہی لوگ عمران خان کو بھی مروائیں گے۔ اپنا بندہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہر وزیراعظم یا پھانسی لگتا ہے یا دہشت گردی کی عدالت سے اپنے ہی بندے کے ہاتھوں دہشت گرد کا درجہ پا کر عمر قید پاتا ہے۔ کرنی تو خان صاحب نے اپنی مرضی ہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو سواتی کے ذریعے آگ لگوائیں یا کمشنر کو ٹانگ دیں‘ ویسے ہی اپنی دل پشوری کے لیے سوچا ذرا بتایا جائے کہ ہر ادارے میں بھٹو‘ سے نواز شریف تک ہر جگہ اپنا وفادار اور اپنا بندہ لانے کا جنون کیا رنگ لاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved