تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     22-09-2021

عام معافی کا معاملہ

تنازع خواہ سماجی ہو یا سیاسی‘ مقامی اور قومی ہو یا بین الاقوامی‘ حل کرنے کے لیے قابلِ ترجیح راستہ پُرامن مذاکرات ہیں۔ اقوام متحدہ‘ جسے دنیا میں جنگ کی روک تھام اور قیام امن کیلئے قائم کیا گیا تھا‘ کے چارٹر میں بھی تادیبی کارروائی سے پہلے گفت و شنید‘ مذاکرات‘ مصالحت‘ ثالثی‘ عدالتی اور تیسرے فریق کی مدد پر مبنی طریقے آزمانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس لیے اگر حکومتِ پاکستان کے چند حلقوں کی طرف سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے عام معافی کا اعلان کر کے اسے تشدد اور دہشت گردی کی راہ چھوڑ کر ریاست کے پُرامن اور قانون کے پابند شہری بننے پرآمادہ کیا جا سکے‘ تو اس سے بہتر اور کوئی آپشن نہیں‘ لیکن کیا حکومت کو یقین ہے یا کسی طرف سے اسے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ 2007 سے اب تک ہزاروں معصوم پاکستانی شہریوں‘ جن میں سکیورٹی فورسز کے ارکان بھی شامل ہیں‘ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے بعد ٹی ٹی پی دہشت گردی کی راہ چھوڑ کر ریاستِ پاکستان کی رٹ قبول کر لے گی؟ ابھی تک اس کے کوئی اشارے سامنے نہیں آئے بلکہ افغانستان میں طالبان کے غلبہ حاصل کرنے کے بعد ٹی ٹی پی نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ صرف اگست کے مہینے میں اس نے دہشت گردی کے 32 حملوں کا ارتکاب کیا۔ 15 ستمبر کو شمالی وزیرستان میں ایک حملے میں سکیورٹی فورسز کے سات جوان شہید ہوئے۔ اس سے ایک روز قبل ملحقہ جنوبی وزیرستان میں اس تنظیم نے ایک خود کش حملے میں مزید ایک فوجی جوان کو شہید کر دیا تھا۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد امید تھی کہ ٹی ٹی پی کے سرحد پار سے حملوں کا سلسلہ رک جائے گا‘ کیونکہ حکومت پاکستان کی طرف سے پیہم الزام عائد کیا جاتا تھا کہ سابق افغان حکومتوں کا انٹیلی جنس ادارہ این ڈی ایس اور بھارت کی ''را‘‘ ایجنسی‘ دونوں ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ بہرحال افغانستان کی سابقہ حکومتوں نے ٹی ٹی پی کے ایک سابق رہنما مولوی فقیر محمد کو جیل میں ڈالے رکھا تھا‘ لیکن طالبان نے مولوی فقیر محمد کو نہ صرف جیل سے نکال کر رہا کر دیا بلکہ رہائی کے بعد اسے پاکستان کے خلاف تقاریر کرنے کی آزادی بھی ہے۔
مولوی فقیر محمد کی تقاریر اور ان سے قبل ٹی ٹی پی کے نئے رہنما کے ایک حالیہ اعلان سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تنظیم اپنے ایجنڈے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں‘ بلکہ اس نے اس ایجنڈے میں پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں ایک آزاد ریاست بنانے کا مطالبہ بھی شامل کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق ٹی ٹی پی کی طرف سے خیبر پختونخوا میں اپنے حملے مرتکز کرنے کا مقصد قبائلی علاقوں میں ایسے حالات پیدا کرنا ہے‘ جن میں اسے دوبارہ وہ پوزیشن حاصل ہو جائے جو اسے 2014 سے پہلے حاصل تھی۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز ٹی ٹی پی کے ان عزائم سے لا علم نہیں ہیں اور وہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (IBO) کے ذریعے ان عزائم کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہے‘ لیکن 15 اگست کے بعد پیدا ہونے والے نئے حالات کی روشنی میں ٹی ٹی پی کے چیلنج کے تمام پہلوئوں کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر دہشت گردی کے خطرے کے خلاف ایک ہمہ گیر اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی بنیاد پر ہمہ جہت حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اس کے لیے جن اہم امور کو پیش نظر رکھنا چاہئے‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے بیانیے کو شکست دینے کے لیے ایک کائونٹر بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی علاقے کے مروجہ آئینی اور جمہوری نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ افغان طالبان کی ''امارت اسلامیہ‘‘ کے مماثل سماجی اور سیاسی نظام رائج کرنا چاہتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی کامیابی سے ٹی ٹی پی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ جوش و خروش سے اپنے بیانیے کا پرچار کر رہی ہے جبکہ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے آپس میں اختلافات کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف ابھی تک ایسا کوئی بیانیہ سامنے نہیں آیا جو ٹی ٹی پی کے بیانیے کا مؤثر توڑ ہو۔
دہشت گردی کا موثر طور پر مقابلہ کرنے کے لیے دوسرا اہم اقدام قومی اتحاد‘ یکسوئی اور انسدادِ دہشت گردی کے عمل کو زیادہ شفاف بنانا ہے۔ دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور تمام دہشت گرد تنظیموں کے آپس میں روابط قائم ہیں جن کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو معلومات‘ تجربات اور مہارت کے شعبوں میں امداد فراہم کرتی ہیں۔ اتنے بڑے بین الاقوامی نیٹ ورک کا مقابلہ کرنا اکیلے کسی ملک کے لیے ممکن نہیں۔ بین الاقوامی تعاون دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے‘ لیکن بنیادی طور پر ہر ملک کو اپنے ہی وسائل اور کوششوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔
افغان طالبان دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان کے خدشات کو اچھی طرح سمجھتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے دنیا اور پاکستان کو یقین دہانی کرانے کے لیے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی ملک کے خلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘ مگر بیشتر مبصرین کی رائے ہے کہ طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف طاقت استعمال نہیں کریں گے۔ اس کی ایک وجہ افغانستان کی پیچیدہ صورت حال اور طالبان کو متعدد محاذوں پر سنگین چینلنجز کا سامنا ہے۔ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف طاقت استعمال کر کے ایک نیا محاذ کھولنا نہیں چاہیں گے۔ دوسرے ٹی ٹی پی نے گزشتہ تیرہ برسوں میں امریکی اور افغان فوج کے خلاف جنگ میں طالبان کا ساتھ دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے جنگجو طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر غیر ملکی فوج کے خلاف طالبان کے شانہ بشانہ لڑتے رہے ہیں۔ تیسرے ٹی ٹی پی‘ افغان طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کو اپنا نظریاتی رہنما تسلیم کرتی ہے۔ طالبان کی افغانستان میں کامیابی پر جس تنظیم نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا تھا‘ وہ ٹی ٹی پی تھی‘ بلکہ اس کے نئے رہنما نے امید ظاہر کی تھی کہ طالبا ن کی کامیابی سے اس کے جنگجوئوں کو نیا حوصلہ ملے گا۔ ماضی میں قریبی تعاون پر مبنی تعلقات اور نظریاتی ہم آہنگی کی موجودگی میں طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف ہتھیار کیسے اٹھا سکتے ہیں؟
طالبان کے ہاتھوں مولوی فقیر محمد کی جیل سے رہائی اور پاکستان کے خلاف تقاریر کی آڑ دینے پر پاکستان کو ضروری سبق سیکھنا چاہئے‘ اور دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کیلئے اپنے ہی وسائل اور توانائیوں پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ٹی ٹی پی کے بارے میں طالبان کا جو موقف سامنے آیا وہ یہ ہے کہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اسے کس طرح حل کرنا ہے‘ اس کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے‘ البتہ ثالثی کرا سکتے ہیں۔ اگر ٹی ٹی پی دہشت گردی سے اعلانیہ دست بردار ہو کر ریاست پاکستان کے آئین‘ قانون اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کا اعلان کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہو تو اس کے ارکان کے لیے حکومت پاکستان عام معافی کا اعلان کر سکتی ہے‘ لیکن حکومت پر واضح ہونا چاہیے کہ یہی پالیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھی لاگو کرنا پڑے گی۔ اگر عام معافی کا اعلان صرف ایک تنظیم تک محدود رکھا تو اس سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی‘ مزید بڑھ جائے گی۔ حکومت پاکستان نے نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے جنگجوئوں کو عام معافی دے کر جو درجن بھر معاہدے کئے تھے‘ ان کا کیا حشر ہوا تھا؟ امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان‘ جو سابقہ حکومتوں کے دور میں پاکستانی طالبان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے سخت مخالف اور بات چیت کے حامی تھے‘ کوئی نیا قدم اٹھانے سے پہلے ماضی کے تجربات کو سامنے رکھیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved