تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     22-09-2021

ڈھانچے اور گورننس؟

پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پے درپے تبدیلیوں اور اَن گنت تجربات کے بعد انصاف سرکار کا تنظیمی ڈھانچہ سچ مچ کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ کوئی کسی کا ہم پیالہ ہے تو کوئی کسی کا ہم نوالہ۔ ماضی میں فیصلہ سازی اور اہم تقرریوں اور تبادلوں پر چیموں‘ جٹوں‘ چٹھوں‘ وٹوؤں‘ چودھریوں‘ ملکوں‘ مزاریوں‘ لاشاریوں‘ لغاریوں‘ زرداریوں‘ دریشکوں‘ کھوسوں‘ راجپوتوں‘ آرائیوں‘ کشمیریوں‘ نکئیوں سمیت نجانے کون کون سی برادریوں پر مشتمل سیاسی اشرافیہ کی اجارہ داری تھی۔ بدلتے وقت کے ساتھ اختیارات سمٹتے سمٹتے شریف برادران اور ان کے حواریوں تک محدود ہوتے چلے گئے اور اہم ترین منصوبہ جات سے لے کر فیصلہ سازی اور تقرریاں‘ تبادلے تک‘ انہی کے مرہونِ منت اور منظوری سے مشروط ہوتے چلے گئے۔
دور کی کوڑی لانے والے کیا خوب کہتے ہیں کہ شریف برادران کرپشن تو کیا کرتے مگر گورننس پر سمجھوتا کم ہی کرتے تھے۔ جن انتظامی افسران کو اہم ترین عہدوں سے نوازتے تھے‘ ان پر نظر بھی کڑی رکھا کرتے تھے۔ پرفارمنس اور سروس ڈلیوری میں کوتاہی اور غفلت پر جواب طلبی اور چھٹی کروانے سے بھی گریز نہیں کیا کرتے تھے جبکہ دورِ حاضر میں‘ محسوس ہوتا ہے کہ گورننس بھی ٹھیکے پر دے ڈالی گئی ہے‘ جو ظاہر ہے کہ کرپشن کا باعث بن رہی ہے۔ اب ٹھیکیداروں اور وینڈروں کی مرضی ہے کہ وہ گورننس کا اُونٹ کسی کروٹ بٹھاتے ہیں۔ ویسے بھی اُونٹ کے بارے میں یہ مثل مشہور ہے کہ ''اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘۔
جس طرح ملک بھر کی جیلوں میں قدم قدم پر بھتہ سسٹم رائج ہے اور جیلوں میں موبائل فون کے ساتھ وائی فائی روزانہ استعمال کرنے سے لے کر ہر روز ملاقات اور کھانے کے ہفتہ وار ٹھیکے تک‘ گھرکا کھانا منگوانے سے لے کر بیرکس کے دروازے رات کو کھلے رکھنے تک اور منشیات کے عادی قیدیوں کو حسبِ طلب منشیات کی فراہمی تک‘ ہر ہر سہولت کے ریٹ طے ہیں، جس طرح جیلوں کے اندر عرصۂ اسیری آسان کرنے کے لیے ہر قیدی کو کچھ نہ کچھ قیمت روزانہ کی بنیاد پر چکانا پڑتی ہے‘ اسی طرح پیدائشی پرچی سے لے کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور قبر کے لیے جگہ کے حصول تک‘ ہر موقع پر عوام کو تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔ جس ملک میں ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بھاری قرض کا نادہندہ ہو جس سے اس کا کوئی لینا دینا نہ ہو‘جہاں ہر ہزار میں سے سڑسٹھ سے زائد بچے پیدا ہوتے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہوں‘ وہاں لاچار اور بے کس عوام کسے وکیل کریں‘ کس سے منصفی چاہیں؟
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ عوام کا خون چوسنے سے لے کر ان سے قربانیاں مانگنے تک‘ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تعجب ہے عام آدمی جیل میں جاکر بھتہ دیتا ہے تب کہیں جاکر اسے کچھ سکھ کا سانس لینے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اسیر اشرافیہ کو الٹا انتظامیہ بھتہ ادا کرتی ہے۔ ان کے بہترین علاج معالجے سے لے کر تمام جملہ سہولتوں کی فراہمی تک‘ جیل کا عملہ ان کے حکم کی تعمیل کا پابند ہوتا ہے۔
ریاست، قوم اور وطن کی مٹی سے بدعہدی اور بے وفائی سے بڑا شاید ہی کوئی جرم ہو‘ آدھا ملک جاتا رہا بلکہ اکثریتی حصہ جدا ہو گیا مگر نہ ہم نے اس سانحے کے عوامل اور اسباب سے سبق سیکھا اور نہ ہی اپنا قبلہ درست کیا۔ سبق سیکھنا تو درکنار‘ اس قومی سانحے کو ایک واقعہ سمجھ کر تاریخ کے اوراق میں دفن ہی کر ڈالا۔ زندہ قومیں ایسے سانحات کو نہ تو کبھی دفن کرتی ہیں اور نہ ہی فراموش۔ کیونکہ زندہ قومیں اپنے زخم ہرے اور ہمیشہ تازہ رکھتی ہیں۔ زخم تازہ ہو تو اس کی کسک بے چین کیے رکھتی ہے اور یہی بے چینی قوموں کے جاگنے کی علامت ہوتی ہے۔ اگر کہیں کوئی زخم مندمل ہوتا نظر بھی آئے تو کھرچ کر اپنی اذیت میں خود اضافہ کر لیا کرتی ہیں تاکہ وہ کسی سانحے کو فراموش نہ کر بیٹھیں۔
سقوطِ ڈھاکہ جیسے قومی سانحہ سے لے کر لمحۂ موجود تک‘ رونما ہونے والے نجانے کیسے کیسے سانحات اور حادثات کے باوجود کیا حکمران‘ کیا عوام‘ سبھی ناصرف مطمئن بلکہ نازاں اور شاداں چلے جارہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کسی مملکت کی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ اس کے طول و عرض میں کوئی ایسا مائی کا لعل میسر نہیں ہو جس کی بابت گواہی دی جا سکے کہ اس نے دھرتی کا حق ادا کر دیا۔ محنت، ذہانت، دیانت، قابلیت اور تدبر کے زور پر ایسی کامیاب پالیسیاں بنائی ہوں، ایسی کارکردگی دکھائی ہو، ایسی اصلاحات کی ہوں جن سے نہ صرف ملک و قوم کو فائدہ ہوا ہو، معیشت مستحکم ہوئی ہو اور قوم کے دِن پھر گئے ہوں بلکہ ادارے بھی مضبوط‘ خود مختار اور فعال ہوگئے ہوں، ضابطے پروان چڑھے ہوں، شخصی صوابدید کے کلیے کو ترک کیا گیا ہو۔ اجتماعی مفادات کے عین مطابق فیصلہ سازی کا بول بالا ہوا ہو۔
امن و امان سے لے کر صحتِ عامہ اور تعلیم و تدریس تک‘ شہری سہولتوں سے لے کر ترقیاتی منصوبوں تک‘ سماجی انصاف سے لے کر معاشی استحکام تک‘ داخلی و خارجی پالیسیوں سے لے کر اخلاقی قدروں تک‘ سبھی الفاظ کا گورکھ دھندا‘ دلفریب وعدے اور قول و فعل کے تضادات کا پہاڑ بنتے چلے جارہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کے ہر دورئہ لاہور کے بعد تبادلے روایت بنتے جارہے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بین الاضلاعی دوروں کے دوران سرکاری افسران کی معطلیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ انصاف سرکار ان سبھی کارروائیوں کو گڈ گورننس ثابت کرنے پر بضد ہے جبکہ زمینی حقائق اور عوام کی تحقیرِ جاریہ ان سبھی اقدامات کا مسلسل منہ چڑائے چلے جا رہے ہیں۔
سربراہِ حکومت کے لیے ایک مفید مشورہ پیشِ خدمت ہے کہ آئے روز تبادلوں اور معطلیوں سے نہ گورننس کی جھلک نظر آتی ہے اور نہ ہی کہیں میرٹ دکھائی دیتا ہے؛ انصاف سرکار اگر عوام کی حالتِ زار بدلنے اور گڈگورننس میں سنجیدہ ہے تو ان دوروں اور دھڑا دھڑ تبادلوں کے بجائے دادرسی‘ سمیت مفادِ عامہ اور صحتِ عامہ کے سبھی اداروں میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں تک اعلیٰ حکام کی رسائی اور ریکارڈنگ کی سخت مانیٹرنگ سے کارکردگی کو جانچنے کا میکنزم بنایا جائے۔ ان کیمروں میں عوام الناس کی سرکاری اداروں میں دھتکار اور پھٹکار کے سبھی مناظر بھی بآسانی دیکھے جا سکیں گے۔ سرکاری کرسی پہ بیٹھ کر فرعون بنے انتظامی افسران کی گردن کا سریا بھی ان کیمروں میں خوب نظر آجائے گا۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہی گڈگورننس کا سنگِ میل ہے۔ بھاگم بھاگ دورے بریفنگز اور ڈی بریفنگز کے نتیجے میں معطلیاں اور تبادلے مسائل کا حل ہرگز نہیں‘ اُلٹا یہ اقدامات حکومت کی سبکی اور جگ ہنسائی کا سبب بنتے چلے جا رہے ہیں۔
گڈ گورننس کے لیے بہتر اور قابلِ عمل آپشنز اختیار کرنا ہوں گے۔ مکھی پہ مکھی مارنے اور ماضی کے حکمرانوں کے ایکشن رِی پلے چلانے سے گورننس کا جھکا ہوا سر بلند ہوگا نہ ہی تار تار میرٹ رفو کیا جاسکتا ہے۔ ایسے حالات میں انتظامی ڈھانچے صرف اور صرف ڈھانچے ہی بن کر رہ جاتے ہیں اور ڈھانچے گورننس نہیں کر سکتے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے‘ ڈی این اے جیسے تشخیصی ٹیسٹ سے لے کر سچ اور جھوٹ کاپتا لگانے والی ڈیوائسز اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی ترقی کے اس دور تک میں کیسے کیسے علوم قدرت کے کون کون سے بھید پاچکی ہے اور ہمارے ہاں انتظامی امور چلانے کے لیے کبھی وزیراعظم صوبائی دارالحکومت آتے ہیں تو کبھی وزیر اعلیٰ کو منظوریوں کے لیے وفاقی دارالحکومت جاکر حتمی منظوری لینا پڑتی ہے۔ یہ طریقہ کار اور پالیسی سرکاری وسائل کے بے دریغ ضیاع کے ساتھ ساتھ سبھی حکومتی اقدامات کو شکوک و شبہات سے دوچار کرنے کے علاوہ نیتوں اور اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کا باعث ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved