16 اگست 1994ء کو میگھالیہ پولیس نے شیلانگ سے چار بین الاقوامی سمگلرز کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے 2.5 کلو یورینیم پروسیسڈ اور 95 کلو گرام یورینیم بر آمد کیا۔ 1998ء میں انڈین پولیس نے ایک اپوزیشن رہنما کے قبضے سے 106 کلو گرام یورنیم بر آمد کیا، اسی سال بھارتی کی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی نے چنائی کے ایک انجینئر ارون کے قبضے سے 8 کلو گرام یورینیم بر آمدکیا۔ اندرا گاندھی سنٹر برائے اٹامک ریسرچ سے رابطہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اس میں وہ تمام اجزا شامل ہیں جنہیں Weapon Grade کا نام دیا جاتا ہے، اس سے اندازہ کیجئے کہ یہ کس حد تک خطرناک ہو سکتا تھا۔ 31 جولائی 1998ء کو سی بی آئی نے اٹامک سنٹر کے دو مزید انجینئرز گرفتار کئے جن کے قبضے سے اسی سلسلے کا مزید 31 کلو گرام یورینیم بر آمد ہوا۔2000ء میں انڈین پولیس نے چار مختلف کارروائیوں کے دوران ایک سکریپ ڈیلر اور کچھ دیگر افراد کو گرفتار کیا تو ان سے8.3 کلو گرام یورینیم بر آمد ہوا۔سی بی آئی نے ایک مشکوک شخص کے گھر چھاپہ مار کر وہاں سے 25 کلو گرام یورینیم بر آمدکیا، اسی سال پولیس نے تین لوگوں کے ایک گروپ سے تین کلو یورینیم بر آمد کیا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نہیں بلکہ دنیا کیلئے سب سے بڑی سکیورٹی رسک بن جانے والی مملکت‘ بھارت میں افزودہ یورینیم کی سمگلنگ اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی سودے بازی سے نقاب اٹھاتے ہوئے 13 نومبر2000ء کو انٹرنیشنل اٹامک انر جی ایجنسی نے ایک رپورٹ جاری کر کے سب کو حیران کر دیا تھا کہ انڈیا سے یورینیم کی 3RODS بر آمد کر نے میں ملوث آٹھ افراد کے گروپ کو گرفتار کیا گیا ہے جو پوری دنیا کے لیے ایک الارم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یکم مئی2000ء کو ممبئی پولیس نے بھابھا ایٹمی ری ایکٹر سے چوری کیے گئے8.3 کلو گرام کے یورینیم کے تھیلے لیلیٰ وتی ہسپتال سے بر آمد کرتے ہوئے دو لوگوں کو گرفتار کیا۔ 27 اگست 2001ء کو ویسٹ بنگال پولیس نے دو لوگ گرفتار کئے جن کے قبضے سے 200 کلو گرام سیمی پروسیسڈ یورینیم بر آمد کیا گیا‘ جن سے متعلق بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ ان کا کسی بین الاقوامی نیٹ ورک سے تعلق تھا۔ 2008 میں ایک کنٹینر‘ جس میں ریڈیو ایکٹو میٹریل پیک تھا‘ مشرقی انڈیا میں واقع ایک ایکٹو نیو کلیئر پاور پلانٹ سے چوری ہو گیا۔ 2008ء میں ہی تھنے (Thane) پولیس نے دو لوگ گرفتار کیے جن کے قبضے سے9 کلو گرام ریڈیو ایکٹو یورینیم بر آمد ہوا۔ 2009ء میں سی بی آئی نے تین افراد گرفتار کیے اور ان کے قبضے سے9 کلو گرام Depletedیورینیم بر آمد کیا۔ 7جولائی 2018ء کو بھارت کے شہر کولکتہ سے پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا تو ان کے قبضے سے ایک کلو ''دھماکا خیز‘‘ مواد بر آمد ہوا جس نے کولکتہ سے نئی دہلی تک ہلچل مچا دی، تفتیش کے بعد پتا چلا کہ یہ دھماکا خیز مواد'' یورینیم‘‘ تھا جس کی 30 ملین بھارتی روپوں میں فروخت کی تھرڈ پارٹی سے ڈیل ہو چکی تھی۔ اگرچہ جوائنٹ کمشنر پولیس کرائمز نے اس کی تصدیق سے انکار کر دیا تھا لیکن انڈیا کی ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے سینئر سائنسدان روی کمار گپتا نے ایک بھارتی ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے پولیس کے جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ بھلے اسے پولیس جو بھی نام دے‘کم گریڈ ریڈی ایشن والا مگر یہ تھا مکمل یورینیم ہی۔
12 مارچ2021ء کی شام نیپالی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے ایک خفیہ اطلاع پر ایک جگہ چھاپہ مارا تو وہاں سے ڈھائی کلو گرام خام یورینیم بر آمد ہوا۔ تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ وہ یہ یورینیم بھارت سے سمگل کر کے لایا گیا تھا۔ گرفتار شدگان میں شامل خاتون نے ایس ایس پی سشیل سنگھ راٹھور کو بتایا کہ اس کے سسر گزشتہ بیس برسوں سے بھارت کے ایک ایٹمی مرکز میں کام کر رہے ہیں‘ یہ یورنیم انہوں نے ہی ہمیں فراہم کیا تھا۔ 8 مئی 2021ء کو مہاراشٹر پولیس نے پانڈیہ اور افضل نام کے دو افراد کو ممبئی کے نواح سے گرفتار کیا جن کے قبضے سے سات کلو ایک سو گرام قدرتی یورینیم برآمد کیا گیا ہے جس کی قیمت 21 کروڑ بھارتی روپے بتائی گئی ہے۔ پانڈیہ اس یورینیم کی فروخت کے لیے گاہک کی تلاش میں تھا۔ بھارت کے اٹامک سنٹر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یہ مادہ قدرتی یورینیم ہے اور ''انتہائی تابکار‘‘ معیار کا ہے جو انسانی زندگی کے لیے شدید خطرناک ہو سکتا ہے۔ ممبئی پولیس کی انسدادِ دہشت گردی یونٹ کے ڈپٹی آئی جی نے بتایا کہ جو قدرتی یورینیم ان سے برآمد کیا گیا ہے وہ 90 فیصد سے زیادہ خالص ہے۔ 2021ء میں اب تک‘ بھارتی پولیس اورسی بی آئی کے اپنے ریکارڈ کے مطا ق 200 کلو گرام چوری شدہ یورینیم انٹرنیشنل نیٹ ورک کے ایجنٹوں سے بر آمد کیا جا چکا ہے، اور جو پولیس اور سکیورٹی اداروں کے ہاتھ نہیں آ سکا‘ وہ کس مقدار میں ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگا نا مشکل کام نہیں۔ 4 جون 2021ء کو جار کھنڈ سے گرفتار کیے گئے سات افراد کی کہانی تو شاید ابھی یادداشتوں میں تازہ ہو جن کے قبضے سے6.4 کلو گرام یورینیم بر آمد ہوا تھا۔ یہ اس بھارت کی چند مثالیں ہیں جس کے ساتھ مل کر امریکی اور مغربی میڈیا پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ امریکا سمیت تمام مغربی ممالک سوتے جاگتے ایک ہی گھڑیال بجاتے رہتے ہیں کہ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثے محفوظ نہیں ہیں‘ یہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں لیکن اسی خطے میں‘ پاکستان کے پڑوسی بھارت میں یورینیم کی چوری، کھلے عام فروخت اور برآمدگی کے درجنوں واقعات یہ طویل فہرست چیخ چیخ کر دنیا، اقوام متحدہ اور دوسری عالمی ایجنسیوں کو بتا رہی ہے کہ دیکھو!بھارتی پولیس اور سی بی آئی خود بتا رہی ہیں کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والا یورینیم بھارت کے گلی کوچوں میں بک رہاہے جو عالمی امن کیلئے کسی بھی وقت شدید خطرہ بن سکتا ہے۔
اس وقت دنیا میں دس سے زیا دہ ممالک افزودہ کئے گئے یورینیم کی خریداری کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں، اگر ان میں سے کسی ایک کو بھنک بھی پڑ جائے کہ بھارت کے ایٹمی مراکز میں کام کرنے والے اس کے سینئر اہلکار 200 کلوگرام افزودہ یورینیم کی فروخت کیلئے '' آن لائن‘‘ تجارت کر رہے ہیں تو اس کے نتائج دیکھنے کیلئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ وقفے وقفے سے واشنگٹن میں جو رونا پیٹنا شروع ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں‘ تو کیا امریکا اور مغرب سمیت ان کے جاپان جیسے اتحادیوں کو دکھائی نہیں دے رہا کہ بھارت کے کم از کم 8 نیوکلیئر ری ایکٹرز عالمی وضع کردہ سیف گارڈز کے بغیر کام کر رہے ہیں جو سول آبادی سمیت پورے خطے کی سکیورٹی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ان آٹھ بھارتی ایٹمی ری ایکٹرز کی سکیورٹی اس عالمی معیار کے برا بر بھی نہیں جو IAEA کا طے کردہ انتہائی کم تر معیار ہے۔
انگلینڈ کے کنگز کالج کی بھارت کے2600 سے زائد ایٹمی ہتھیاروں پر ترتیب دی گئی دو رپورٹس سامنے رکھیں تو دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا ہوا شخص ان کی کمزور سکیورٹی اور نقل و حمل کے نقائص بارے جان کر کانپ کر رہ جائے گا۔ اس کے برعکس پاکستان کا اپنے جوہری اثاثوں کی سکیورٹی کیلئے نظام اس قدر مربوط ہے کہ اس نے انتہائی تربیت یافتہ، چاق و چوبند فوجی نفری ایٹمی اثاثوں کی ہمہ وقت سخت ترین حفاظت کیلئے مقرر کی ہوئی ہے اور نیو کلیئر اثاثوں کے تہہ در تہہ حفاظتی حصار، قدم قدم پر ناقابل عبور رکا وٹوں اور ہر قسم کے مواد کی بھر پور سکیننگ کیلئے جدید ترین مشینیں اور آلات، ایٹمی اثا ثوں کیلئے علیحدہ علیحدہ مقامات اور ان کے گرد سکیورٹی کا جامع اور ناقابل تسخیر حصار قائم ہے جو ان تمام شرائط اور انتظامات کو پورا کرتا ہے جوIAEA نے نیوکلیئر اثاثوں کیلئے انٹرنیشنل معیار مقرر کر رکھا ہے۔ کیا دنیا بھر کے میڈیا اور معلوماتی اداروں کیلئے یہ بات حیران کن نہیں کہ ان کی ہر روز نئی گھڑی جانے والی کہانیوں کے با وجود اب تک دنیا بھر میں پاکستان ہی واحد ایٹمی پاور ہے جہاں آج تک ایٹمی لیکیج، ریڈی ایشن یا اس سے متعلقہ کوئی دوسرا سانحہ پیش نہیں آیا۔