تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-09-2021

ناکام ریاستوں سے کھلواڑ

نائن الیون کے بعد امریکا نے سرد جنگ کے متبادل کے طور پر ''گرم جنگ‘‘ کا تصور اپنایا۔ ایسا کرنا بہت حد تک مجبوری پر مبنی تھا کیونکہ امریکا اب چاہے بھی تو کسی مشترکہ دشمن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور دشمن اصلی نہ ہو تو فرضی سہی۔ تہذیبوں کے تصادم کا راگ الاپ کر اسلام کو مغربی تہذیب کے مقابل کھڑا کیا گیا تاکہ لشکر کشی کا جواز پیش کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
نام نہاد گرم جنگ ہر اُس ملک کے خلاف چھیڑی گئی جس پر فتح پانا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اس جنگ میں کامیابی کی اور کوئی صورت نہ تھی۔ کسی طاقتور ملک سے ٹکرانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ایسا کب ہوا ہے‘ جو اب ہوتا۔ نام نہاد گرم جنگ طاقتور ممالک کے خلاف تو چھیڑی نہیں جاسکتی تھی۔ کوئی بھی بدمعاش کسی دوسرے بدمعاش کے سامنے دادا گیری نہیں کرتا۔امریکی پالیسی میکرز بھی عقل اور جذبات کی سطح پر اتنے گئے گزرے نہیں کہ جذبات کی رو میں بہتے ہوئے کسی طاقتور ریاست کو للکاریں۔ ایسے میں بے چاری کمزور اور ناکام ریاستوں ہی کی شامت آنا تھی‘ سو آئی۔ بعض ممالک خوش حال تو تھے مگر اُن کی عسکری کمزوریاں زیادہ تھیں یعنی وہ بھی اس قابل تھے کہ اُنہیں جی بھرکے برباد کیا جائے۔ اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاملات کو یوں بگاڑا گیا کہ اُن کے لیے اپنے وجود کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ مرے کو مارے شاہ مدار یعنی صرف مجبور و بے کس ہی کو انگوٹھے سے دبایا جاسکتا ہے۔ سیاسی، معاشی، سفارتی، سٹریٹیجک اور ٹیکنالوجیکل‘ غرض ہر طرح کے لاجیکل اور اِل‘ لاجیکل تجربات کے لیے کمزور ریاستوں ہی کو منتخب کیا جاتا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد بھی یہی ہوا۔ ٹوئن ٹاورز کی تباہی اور ہلاکتوں سے پیدا ہونے والا غصہ نکالنے کا اور کوئی معقول راستا نہیں تھا۔ ایسے میں افغانستان، عراق اور لیبیا جیسے ممالک کی ہی باری آنا تھی۔
امریکی پالیسی میکرز اچھی طرح جانتے تھے کہ سوویت یونین کی تحلیل اور سرد جنگ کے ختم ہو جانے پر یک قطبی دنیا میں امریکا کے لیے کسی نہ کسی حریف کا ہونا لازم ہے تاکہ بہت کچھ الٹا سیدھا کرنے کا جواز پیش کرنا ممکن ہو۔ مسلم دنیا سے مغرب کا نظریاتی اور تہذیبی مناقشہ کسی نہ کسی شکل میں رہا ہے۔ اس حقیقت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تہذیبوں کے تصادم کا تصور پروان چڑھایا گیا۔ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو باور کرایا گیا کہ آج کی دنیا میں اگر تہذیب و تمدن کے لیے کوئی حقیقی خطرہ ہے تو وہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دنیا بھر میں مسلمانوں کو مطعون کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے مغرب میں اسلامو فوبیا کی لہر آگئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مہم زور پکڑتی گئی کیونکہ مسلم دنیا میں اندرونی کمزوریاں بھی موجود تھیں۔ مشرقِ وسطیٰ ایک زمانے سے مغرب کے نشانے پر ہے۔ خلیج کو امریکا اور یورپ نے اپنا مطیع بنا رکھا ہے۔ ایسے میں مغرب کی طرف سے زور زبردستی کی تان ٹوٹنی ہے تو مسلم دنیا پر۔ ملا کی دوڑ مسجد تک اور ضمیر و اخلاق سے محروم و عاری سپر پاور کی دوڑ کمزور بالخصوص مسلم دنیا تک۔ نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش، اُن کے مشیروں اور پالیسی میکرز نے عالمی سیاست میں ایک نیا تصور متعارف کرایا جو سراسر مضحکہ خیز تھا مگر چونکہ یہ امریکا نے متعارف کرایا تھا اِس لیے اُسے مسترد کرنے یا اُس کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی گنجائش نہ تھی۔ اِس نئے تصور کے مطابق دنیا کو اصل خطرہ طاقتور اور فاتح ریاستوں سے نہیں بلکہ کمزور اور تباہ شدہ اقوام سے لاحق ہے! ع
ناحق اُن مجبوروں پر یہ تہمت تھی مختاری کی
سٹورٹ ایم پیٹرک نے 'ورلڈ پالٹکس ریویو ڈاٹ کام‘کے لیے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا نے سٹریٹیجک معاملات میں اپنی سوچ بدل لی۔ اس نے (''دی پنٹاگونز نیو میپ‘‘ کے مصنف) ٹامس پی ایم بارنیٹ کا حوالہ دیا ہے‘ جس کا کہنا ہے کہ جون 2002ء میں شائع ہونے والی اپنی پہلی نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی میں اُس وقت کے صدر جارج بش نے دعویٰ کیا کہ امریکا کو اب فاتح ریاستوں سے زیادہ مفتوح ریاستوں سے خطرات لاحق ہیں! یہ دعویٰ انتہائے حماقت کی ایک شکل تھا مگر چونکہ طاقتور ترین ملک کے صدر کے منہ سے نکلا تھا‘ اس لیے لازم تھا کہ اِسے دنیا بھر میں قبول کیا جاتا اور قبول کیا گیا۔ جنوری 2002ء میں دی یو ایس ایجنسی فار انٹر نیشنل ڈویلپمنٹ (یو ایس ایڈ) نے کہا کہ جب کسی ملک میں ترقی کا عمل اور ریاستی عملداری‘ دونوں ہی ناکام ہوجائیں تو اِس کے اثرات اُس ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ پہلے خطے اور پھر باقی دنیا کو لپیٹ میں لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ کمزور اور ناکام ریاستوں کی سرحدیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں، دہشت گردی، سیاسی تشدد، خانہ جنگیاں، منظم جرائم، منشیات کی سمگلنگ، وبائی امراض، ماحول سے متعلق بحران، پناہ گزینوں کا سیلاب اور بڑے پیمانے پر ترکِ وطن جیسی علتیں واقع ہوتی ہیں۔ یو ایس ایڈ کی ''بصیرت‘‘ سے امریکا سمیت پورے مغرب میں دائیں اور بائیں‘ دونوں بازوؤں کے لوگ متاثر ہوئے اور جو پٹی پڑھائی گئی وہ اُنہوں نے بصد شوق پڑھی۔ اپریل 2007ء میں ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے بارک اوباما نے اپنے پہلے کلیدی خطاب میں کہا ''غریب، کمزور اور بہتر گورننس سے محروم ریاستیں دہشت گردی، وبائی امراض اور خطرناک ہتھیاروں کی سمگلنگ کے لیے موزوں ترین مقامات میں تبدیل ہوچکی ہیں‘‘۔
یہ بھی خوب رہی کہ دنیا کے طاقتور ترین ممالک کو خطرہ لاحق ہے تو کمزور ممالک سے! یعنی اُن ممالک سے جن کے پاس طاقت برائے نام بھی نہیں۔ بہانہ یہ تراشا گیا کہ اِن کمزور ممالک میں کئی خطوں کے انتہا پسند جمع ہوکر دہشت گردی کی منصوبہ سازی کرتے ہیں اور پھر منظم ہوکر حملے کرتے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ مسلمانوں کو مطعون کیا گیا۔ ویسے تو مقاصد بہت سے رہے ہوں گے اور ہیں بھی مگر یہ پورا میلہ اصلاً تو مسلمانوں کو دبوچنے کے لیے سجایا گیا تھا۔ سرد جنگ کے بعد جب خلا پیدا ہوا تو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چین اور روس مل کر مسلم دنیا کو ساتھ ملائیں اور نیا بلاک کھڑا کرکے مغرب کا ناطقہ بند کردیں۔
مغرب نے اپنے لیے زیادہ طاقت بٹورنے کا وہ راستا چنا جو کسی بھی اعتبار سے اُسے زیبا نہ تھا۔ ایک زمانے سے پسماندہ دنیا بڑی حسرت سے اور للچائی ہوئی نظروں سے ترقی یافتہ مغرب کی طرف دیکھتی رہی ہے۔ اربوں انسان اس امید کے حامل تھے کہ جب فطری علوم و فنون میں قابلِ رشک پیش رفت یقینی بنالی جائے گی تب اُن کے مسائل بھی ختم ہوجائیں گے اور وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو جائیں گے۔ اعلیٰ ظرفی کا تقاضا تو یہ تھا کہ مغرب کے طاقتور ممالک مل کر کمزور اور ناکام ریاستوں کی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی ختم کرنے پر توجہ دیتے تاکہ اِن ممالک کے عوام بھی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے اور ترقی کی راہ ہموار ہوتی۔ اس کے بجائے توجہ کمزوروں اور غریبوں کی مکمل تباہی پر دی گئی تاکہ وہ کبھی یا کم از کم ایک طویل مدت اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوسکیں۔
امریکا اور یورپ نے گزشتہ پانچ سات عشروں سے کمزور ریاستوں کو دبوچنے پر اکتفا کیا ہے۔ فطری علوم و فنون میں فقید المثال پیش رفت یقینی بنانے کے باوجود وہ اب تک کمزوروں کو کچل کر اپنے لیے طاقت کا اہتمام کرنے کی روش پر گامزن ہیں۔ بالخصوص امریکا نے اس معاملے میں انسانیت سوز جرائم کا بہت زیادہ ارتکاب کیا ہے۔ یہ سلسلہ اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ پس ماندہ خطوں کو بھی آبرو کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے۔ انہیں اس حق سے مزید عرصے تک محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اب یورپ کی روش تھوڑی سی تبدیل ہوئی ہے۔ اصلاحِ نفس کے حوالے سے امریکا کو ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کرنا ہے۔ پس ماندہ خطوں کو کھلونوں کے طور پر برتنے کے بجائے اُن کی مدد کی جانی چاہیے۔ کمزور ریاستوں کا اتحاد بھی معاملات بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ مغرب کے مقابل نئی ابھرتی ہوئی قوتوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے اور لی جانی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved