تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-09-2021

طالبان کا افغانستان …(2)

میں کابل شہر کو پاکستان کے کسی پسماندہ شہر پر قیاس کرتا ہوا افغانستان پہنچا تھا، لیکن یہ شہر میرے اندازے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ عمدہ سڑکیں، صفائی کا مناسب انتظام، دس دس منزلہ رہائشی عمارتیں، شاپنگ مال اور بے پناہ ٹریفک کی وجہ سے کابل بالکل پشاور جیسا دِکھتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ پشاور میں پشتو اور کابل میں فارسی زیادہ بولی جاتی ہے۔ میں نے اہتمام کرکے شہر کے ایسے باسیوں سے ملاقات کی جو ہمیشہ سے یہیں رہ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ شہر آج سے بیس برس پہلے بالکل کھنڈر تھا۔ سڑکیں تھیں نہ گلیاں، کوئی عمارت تھی نہ باغ بس ہر چیز کا ایک نشان باقی تھا اور امکان یہی تھا کہ اب تب میں یہ نشان بھی مٹ جائیں گے۔ بتانے والوں نے بتایا کہ کابل پر حامد کرزئی جب دوہزار چار میں امریکہ کی مدد سے حکمران ہوئے تو شہر نے ترقی شروع کی۔ میں نے غور کیا تو واقعی بیشتر عمارتوں کی عمر دس پندرہ سال سے زیادہ نہیں تھی‘ حتیٰ کہ سرکاری دفاتر بھی اسی عرصے میں اگر بنے نہیں تھے تو کم از کم ان کی مرمت اور دیکھ ریکھ اسی عرصے میں کی گئی تھی۔ اسی لیے شہر کا شہر کچھ نیا سا معلوم ہوتا ہے۔ جس دن کی میں بات کررہا ہوں اس شہر میں طالبان کو داخل ہوئے چوبیس روز ہو چکے تھے، لیکن کہیں سے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ اس پر زور زبردستی سے قبضہ کیا گیا ہے یا کوئی انقلاب یہاں آچکا ہے۔ اتنے پُرسکون انداز میں سب کچھ رواں دواں دکھائی دے رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
کابل آنے سے پہلے میرا یہ بھی خیال تھا کہ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے ملک سے فرار ہوکر اچھا نہیں کیا۔ ان کی طرف سے جب یہ بیان آیا کہ انہوں نے خون خرابے سے بچنے کے لیے ملک چھوڑا ہے تو مجھے لگا یہ بیان محض ان کی بزدلی کی تاویل ہے ورنہ اصل رہنما تو وہی ہے جو آخری دم تک اپنے ملک میں رہے۔ کابل کو دیکھ کراپنا خیال کافی غلط لگا‘ بلکہ میں سوچنے لگا کہ اشرف غنی نے اتنا غلط کام بھی نہیں کیا۔ اگر اس شہر میں گولیاں چلنے لگتیں یا انیس سو نوے کی دہائی کی طرح راکٹ برسنے لگتے تو راکھ سے ابھرنے والا کابل ایک بار پھرجل جاتا۔ یہ شہر اشرف غنی کا ہے نہ حامد کرزئی کا، یہ شہر تو افغانوں کا ہے۔ اس شہر کی تباہی کے موہوم سے خدشے پر بھی اگر اشرف غنی نے خود کو بھگوڑا کہلوانا پسند کرلیا ہے تو یقین مانیے کچھ مہنگا سودا نہیں۔ خلوص نیت کے ساتھ اپنے ملک کی محبت میں کمائی ہوئی بدنامی بھی ایک طرح کی قربانی ہی تو کہلائے گی۔
امریکی امداد سے بنے ہوئے کابل میں امارت کے نشانات تو بن گئے تھے لیکن امن و امان کبھی قائم نہ ہو سکا۔ شہر کے لوگ بتاتے ہیں کہ بہت تھوڑے پیسوں کے عوض کسی کا ماردیا جانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ موبائل کا چھن جانا یا پیسے لوٹ لیے جانا ایک عام تجربہ تھا۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں حالات کی خرابی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ کسی اچھے ہوٹل چلے جائیں، ہر کمرے کا دروازہ بکتربند بنایا گیا ہے تاکہ ہوٹل کے مہمانوں کے لیے کوئی باہر سے آکر خطرہ نہ بن جائے۔ بظاہر عام لکڑی سے بنے یہ بکتربند دروازے اتنے بھاری ہیں کہ انہیں کھولنے یا بند کرنے میں کافی قوت صرف ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اعلیٰ طبقے نے اپنے لیے بکتربند دروازوں، بکتربند گاڑیوں اور ذاتی محافظوں کا بندوبست کرلیا تھا تو ان کے لیے سبھی کچھ محفوظ تھا، بدامنی کا اصل عذاب تو عام آدمی بھگت رہا تھا۔
پچھلی کئی صدیوں سے کابل افغانستان کا مرکزی شہر ہے۔ جس نے اس شہر پر قبضہ کر لیا پورے افغانستان پر اس کی حکومت قائم ہو گئی۔ جب تک اس شہر نے مزاحمت جاری رکھی، کسی بھی حملہ آور کو افغانستان کا حکمران کہلانے کا موقع نہیں مل سکا۔ اس لیے طالبان کی موجودہ حکومت اس وقت قائم ہوئی جب انہیں کابل میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو کابل کی طرف سے طالبان کی مزاحمت نہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ افغانستان نے انہیں قبول کرلیا ہے۔ اس قبولیت کی وجہ صرف یہ تھی کہ لوگوں کو ان کی امن و امان قائم کرلینے کی صلاحیت پر یقین تھا۔ جو معاشرے امن و امان سے محروم ہو جائیں، انہیں امن دینے والا ہر حکمران قبول ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ طالبان نے لوگوں کی یہ توقع سو فیصد پوری کی۔
امن وامان قائم کرنے کا طالبانی طریقہ نہایت سادہ ہے۔ شہروں میں اور شاہراہوں پر انہوں نے سیاہ پگڑی پہنے اپنے مسلح لوگ کھڑے کردیے‘ جو آنے جانے والوں کو چیک کرتے رہتے ہیں اور تکلیف دینے کی معافی بھی مانگتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی بھی شخص اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے مداوے کے لیے جا سکتا ہے اور متعلقہ طالب اپنے امیر مولوی صاحب سے رابطہ کرکے اس کے مسئلے کا حل تلاش کرنا شروع کردیتا ہے۔ ملزم پر الزام ثابت ہو تو سزا فوری اور غلط ثابت ہو تو بریت بھی فوری۔ سڑک پر کھڑے عام طالب سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک یہ نظام موبائل فون کے ذریعے چل رہا ہے۔ کسی چوک میں کھڑی ایک طالبان پارٹی کا سربراہ اپنے موبائل سے اوپر والے کو فون کرتا ہے اور سب کچھ حرکت میں آجاتا ہے۔ نظام کی اس سادگی اور تیزی کا اثر یہ ہوا کہ اس وقت کابل شہر پوری طرح متحرک ہے۔ دکانیں کھلی ہیں، ریستوران چل رہے ہیں، شاپنگ مالز میں مرد، خواتین اور بچے آجا رہے ہیں، سڑکوں پرگاڑیوں کا اتنا رش ہے کہ پیدل چلنا بھی بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ افغانستان میں گاڑیاں دائیں ہاتھ چلتی ہیں، اس بنیادی اصول کے سوا کسی دوسرے ضابطے کی پابندی نہیں کی جاتی اور طالبان بھی ٹریفک کے اس بے ہنگم نظام میں صرف اسی وقت دخل دیتے ہیں جب معاملہ بہت ہی زیادہ خراب ہوجائے اور دوردور تک گاڑیوں کی قطاریں لگ جائیں۔ جیسے جیسے ٹریفک پولیس کے اہلکار اپنی ڈیوٹیوں پر واپس پہنچ رہے ہیں انہیں چوراہوں پر کھڑا کیا جارہا ہے مگر ٹریفک قوانین پر عمل درآمد میں سختی بالکل نہیں کی جارہی۔ شاید یہ بھی کوئی حکمت عملی ہو کیونکہ قانون کا نفاذ کسی ایک وقت میں ایک دفتر میں کسی ایک پر کرنا آسان ہے۔ سڑک پرچلنے والے کو سب کے سامنے کسی قاعدے میں لانا مشکل ہے۔ کہیں بات بگڑ جائے تو بگڑتی چلی جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا‘ کوئی دس برس پہلے تیونس میں ایک خوانچہ فروش کا خوانچہ الٹا گیا تھا اور صرف چھبیس دن بعد ملک کے صدر کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔
کابل میں واقع صدارتی محل کو ارگ کہتے ہیں اور یہ علاقہ شہر نو کہلاتا ہے۔ ارگ سے کچھ ہی دور ایک پارک ہے جہاں افغانستان کے مختلف جنگ زدہ علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں نے خیمہ بستی بسا رکھی ہے۔ ان میں سے زیادہ ترلوگوں کا تعلق شمالی افغانستان کے علاقوں سے ہے‘ جہاں فارسی بولی جاتی ہے۔ یہ مہاجر بھی فارسی بولتے ہیں یا اردو۔ اردو اس لیے کہ ان میں سے بہت سے پاکستان میں ہی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ دوہزار چار کے بعد اپنے گھروں کو لوٹے اور طالبان کی حکومت سے لڑائی کی وجہ سے ایک بار پھر مہاجر ہوکر کابل آگئے۔ اس خیمہ بستی میں ایک ہزار لوگ ہوں گے۔ ہرشخص غربت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ۔ اگر کیمپ میں کوئی جھوٹ ہی کہہ دے کہ پارک کے باہر کوئی اہل خیر پیسے یا کھانے کی کوئی چیز بانٹ رہا ہے توبچے، بڑے اور خواتین اس طرف دوڑ لگا دیتے ہیں۔ میں اس کیمپ میں پہنچا تو بہت سے لوگ میرے اردگرد اکٹھے ہوگئے۔ میں ان سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر وہ سب مجھ سے دو سوال کرنے لگے۔ پہلا سوال تھاکہ غیر ملکی امداد کی کوئی خبر ہے تو بتاؤ۔ دوسرا سوال تھا طورخم بارڈر کب کھلے گا۔ میرے پاس ان دونوں سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved