سندھ اسمبلی نے 16 فروری 2021ء کو ایک بِل پاس کیا تھا، اس کا عنوان تھا: ''جبری تبدیلیٔ مذہب‘‘۔ اس کے بعد ہم نے علماء کے ایک وفد کے ہمراہ وزیراعلیٰ سندھ جنابِ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی تو انہوں نے اسے روک دیا اور گورنر کے دستخط سے ایکٹ نہیں بنا، پھر اسے اچانک سینیٹ میں پیش کر دیا گیا، اس پر غور کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی، اب اس پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ بھی منظرِ عام پر آ گئی ہے۔ انسانی حقوق کی وزیر محترمہ شیریں مزاری اس کی پُرجوش حامی ہیں۔ اس مجوّزہ مسوّدۂ قانون (Bill) کا عنوان ''امتناعِ جبری تبدیلیٔ مذہب‘‘ رکھا گیا ہے، لیکن اپنے وسیع تر مفہوم اور نتائج کے اعتبار سے یوں گماں ہوتا ہے کہ گویا قبولِ اسلام اور اس کی ترغیب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک مجرمانہ جسارت قرار دینا درکار ہے۔ ہم اس قانون کی تطبیق (Application)، نتائج اور مابعد اثرات (Subsequences) پر گفتگو کرنے سے پہلے اس قانون کی اہم دفعات کا مفہومی ترجمہ پیش کر رہے ہیں:
سیکشن 2، ذیلی شق سی، ای: ''بچے کا معنی ہے: کوئی بھی فرد جو اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہے‘‘، سیکشن 2 ای: ''بالغ کا معنی ہے: کوئی بھی فرد جس کی عمر اٹھارہ سال سے زائد ہو‘‘، ''جبر کا مطلب ہے: طاقت کا استعمال، جسمانی تشدد یا کسی پر جذباتی یا نفسیاتی طور پردبائو ڈالنا‘‘۔
سیکشن 3، ذیلی شقیں:4،5،6: ''کوئی بھی غیر مسلم جو بچہ نہیں ہے، یعنی جس کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہے، عاقل اور بالغ ہے اور وہ مذہب تبدیل کرنے کے قابل اور اس پر آمادہ ہے، وہ اپنے قریبی ایڈیشنل سیشن جج کو مذہب کی تبدیلی کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کی درخواست وصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ مقررہ تاریخ پر متعلقہ شخص ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا، ایڈیشنل سیشن جج اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دبائو کے تحت نہیں ہے اور نہ کسی دھوکا دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔ کوئی غیر مسلم جو مذہب اپنانا چاہتا ہے، ایڈیشنل سیشن جج اس کے مذہبی سکالر سے اس غیر مسلم کی ملاقات کا انتظام کرے گا، یعنی اگر کوئی ہندو مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اس کی کسی اسلامی سکالر سے ملاقات کا انتظام کرے گا، ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور دوبارہ دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم شخص کو 90 دن کا وقت دے گا، اگر وہ 90 روز کے بعد بھی اپنا مذہب تبدیل کرنے کے فیصلے پر قائم رہتا ہے تو اسے مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جائے گا۔ اگر سیشن جج مطمئن ہوتا ہے کہ اس نے تقابلِ ادیان کا مطالعہ کر لیا ہے اور اس پر کسی طرح کا جبر نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہا ہے، تو وہ تبدیلیٔ مذہب کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا‘‘۔
نوٹ: اس میں اہم بات یہ ہے کہ نوے دن گزرنے کے بعد بھی ایڈیشنل سیشن جج کا مطمئن ہونا ضروری ہے، پس اگر وہ کسی وجہ سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر قبولِ اسلام نہیں ہو سکتا یا اس کو اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔ ایک شخص اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ ہے اور اُسے نوے دن کا وقت دیا جا رہا ہے، کون جانتا ہے کہ اس کی زندگی کتنی ہے، اگراس دوران وہ فوت ہو جاتا ہے توکفر پر اس کی موت کا ذمہ دار کون ہوگا، اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اُس کے کفر پر راضی ہے،علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ''اگر کوئی دوسرے کے کفر پر راضی رہا تاکہ وہ اللہ کی شان میں نازیبا باتیں کہے، تو وہ خود بھی کافر ہو جائے گا اور اسی پر فتویٰ ہے، ''فتاویٰ تتار خانیہ‘‘ میں اسی طرح ہے‘‘ (فتاویٰ عالمگیری، ج: 2، ص: 257)۔
سیکشن (4): مذہب کی جبری تبدیلی کی ممانعت: شق (1): ''اگر کوئی شخص کسی کو دوسرے مذہب میں تبدیل کرنے کا ذمہ دار ہے اور سیشن جج کی نظر میں وہ جبری تبدیلی ہے تو اس شخص پر مذہب جبری تبدیل کرانے کا جرم عائد ہو گا اور اس کو کم سے کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے اور کم از کم ایک لاکھ روپے اور زیادہ سے زیادہ دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے‘‘۔
نوٹ: قانون میں اس امر کی نہ کوئی وضاحت ہے اور نہ کوئی معیار کہ جس کی بنیاد پر یہ طے کیا جا سکے کہ جبر ہوا ہے یا نہیں، بس اسے ایڈیشنل سیشن جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
شق (2): '' اگر کوئی شخص ایسے شخص کا نکاح پڑھائے جس کا جبر کے ذریعے مذہب تبدیل کرایا گیا ہو، چاہے وہ اس کا نکاح پڑھانے والا یا نکاح کا سہولت کار ہو تو اس کی سزا بھی کم سے کم تین سال ہو گی‘‘۔ اس شق کے مطابق وہ شخص بھی اسی جرم کا مرتکب ہوگا جس نے اس نکاح کے لیے کسی قسم کی اعانت کی ہے، مثلاً: جہیز کا انتظام کیا یا شادی ہال کا انتظام کیا یا کسی بھی طرح کی سہولت کاری کی تو وہ اس جرم میں برابر شریک ہو گا۔
وضاحت: نکاح پڑھانا ایک دینی کام ہے، اس کے لیے دُلہا اور دلہن کی رضامندی، مہر کا تعیّن اور گواہان کی موجودگی ضروری ہے، نکاح خواں کے پاس نہ تو قاضی اور عدالت کے اختیارات ہوتے ہیں اور نہ تحقیق و تفتیش کے لیے کوئی عملہ ہوتا ہے، لیکن ہر موقع پر اُسے سب سے کمزور فرد سمجھ کر دھر لیا جاتا ہے، یہ بھی درست نہیں ہے۔
شق(3): ''اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کرے جو اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کسی بھی طرح کی معاونت فراہم کرے تو وہ بھی مجرم تصور کیا جائے گا اور اسے بھی کم از کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال کی سزا دی جا سکتی ہے اور اس پر ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی ہوگی‘‘۔
نوٹ: قرآنِ کریم کی رُو سے دعوتِ دین مسلمان کا فریضہ ہے، قبولِ اسلام کی ترغیب دینا ایک قابلِ تحسین امر ہے، لیکن ہمارے ہاں اسے بھی قانونی جرم قرار دیا جا رہا ہے،جبکہ قرآنِ کریم میں صدقات کا ایک مصرف ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے، جنہیں اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو۔
سیکشن 5، شق (2): ''اگر کوئی بچہ جس کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور وہ اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا اعلان کرتا ہے تو اس کے ایسے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی اور یہ تصور کیا جائے گا کہ اس نے مذہب تبدیل نہیں کیا اور اس کو مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ بھی جاری نہیں کیا جائے گا‘‘۔
نوٹ: اسلام کی رُو سے توحید و رسالت کی گواہی دینے، اپنے سابقہ عقائد سے توبہ کرنے اور کلمۂ اسلام پڑھنے سے ایک شخص مسلمان ہو جاتا ہے، لیکن مجوزہ مسودہ قانون اُسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
سیکشن 7 کی شق 5: ''اگر جبری تبدیلیٔ مذہب کا کوئی کیس سیشن کورٹ میں جاتا ہے تو کورٹ اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ نوے دن کے اندر اس کیس کا فیصلہ صادر کر دے اور اس کیس کا دو مرتبہ سے زائد کا التوا نہیں ہو سکتا‘‘۔
نوٹ: واضح رہے کہ ہمارے ہاں انتہائی سنگین جرائم حتیٰ کہ دہشت گردی کے مقدمات بھی برسوں چلتے رہتے ہیں لیکن مذہب کی تبدیلی کے قانون کے لیے نوے دن کا ٹائم دیا جا رہا ہے، پس مجوّزہ بل کی رو سے پاکستان میں یہ سب سے سنگین جرم ہے۔
سیکشن نمبر 7، شق 9: ''جبری تبدیلیٔ مذہب کے کیس کی تفتیش کم از کم ایس پی لیول کا آفیسر انجام دے گا‘‘۔
نوٹ: توہینِ رسالت کی ایف آئی آر درج کرنے کی بابت بھی یہ قرار دیا گیا ہے کہ کم از کم ایس پی لیول کا افسر مطمئن ہوگا تواس کی ایف آئی آر درج ہو سکے گی، ہمارے نزدیک یہ شرط اس لیے عائد کی گئی ہے تاکہ توہینِ رسالت کی ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر سے کام لیا جائے کیونکہ ایک عام آدمی کی رسائی ایس ایچ او تک آسان نہیں ہے، چہ جائیکہ ایس پی تک رسائی کو لازم قرار دیا جائے۔
سیکشن 17: ''وہ بچے جن کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے یا ایسے بالغ اشخاص جو ذہنی معذور ہیں، اگر وہ تبدیلیٔ مذہب کے مرتکب ہوتے ہیں یا ان کا کیس سیشن کورٹ میں چل رہا ہے، تو ان کے نام اور پتے کسی بھی اخبار، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر شائع نہیں کیے جا سکیں گے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ مجرم تصور کیا جائے گا‘‘، حالانکہ لوگ فخر کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں لیکن مجوّزہ بل کی رو سے یہ جرم ہے۔
سیکشن 18: ''اگر کوئی ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ جرم ناقابلِ ضمانت، ناقابلِ راضی نامہ اور قابلِ دست اندازیٔ پولیس ہوگا اور قانون کے مطابق سزا کا مستوجب ہوگا‘‘۔
یہ روئے زمین کا شاید پہلا قانون ہے کہ جس میں اٹھارہ سال عمر والے کو بچہ (Child) قرار دیا گیا ہے، شرعاً تو وہ بالغ ہے، کیونکہ لڑکے یا لڑکی کو شرعاً اُسی وقت بالغ تسلیم کیا جائے گا جب بلوغ کی علامتیں ظاہر ہو جائیں، ورنہ لڑکے اور لڑکی‘ دونوں کو پندرہ سال مکمل ہونے پر بالغ تصور کیا جائے گا، تنویر الابصار مع الدّرّ المختار میں ہے: ''پس اگر لڑکے اور لڑکی‘ دونوں میں بلوغت کی علامات میں سے کوئی علامت نہ پائی جائے تو دونوں کو پندرہ سال کی عمر مکمل ہونے پر بالغ مانا جائے گا، فتویٰ اسی پر ہے‘‘ (رَدُّ الْمُحْتَارِ عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَار، ج: 9، ص: 185، خلاصہ)، علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں: ''لڑکے اور لڑکی میں علامتِ بلوغت پائی جائیں تو انہیں بالغ سمجھا جائے گا اور اگر علامات نہ پائی جائیں تو پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر انہیں بالغ تصور کیا جائے گا، ویسے علامات ظاہر ہونے پر لڑکی کی کم از کم ممکنہ عمر بلوغ نو سال اور لڑکے کی بارہ سال ہے‘‘ (بہارِ شریعت، حصہ: پانز دہم، ص: 203 تا 204، خلاصہ)۔ یورپ و امریکا میں بھی اس کے شواہد سامنے آتے رہتے ہیں۔ (جاری)