خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر… بھارت سے پیاز، آلو، بجلی خریدیںاور چینی بیچیں۔ آپ کا جو دل چاہے بھارت سے خریدیں اور بیچیں‘ کسی کو کوئی اعتراض نہیں‘ لیکن اپنی عزت نفس نہ بیچیں‘ اپنی شناخت نہ بیچیں۔ جب کوئی بیچنے اور خریدنے کی نیت ہی کر لے تو پھر کوئی حد نہیں رہتی۔ پاکستان بھولا نہیں‘ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سال ہوئے ہوں گے جب ایران پاکستان انڈیا گیس پائپ لائن (آئی پی آئی) کے سمجھوتے پر ابتدائی دستخط ہوئے تھے۔ چند دن بعد ہی بھارت نے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے معاملے کو لٹکا دیا۔ بھارت کے دفاعی اداروں نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان جب چاہے گا آپ کی طرف آنے والی گیس روک کر ہماری صنعتوں کو مہیا ہونے والی توانائی کم کر دے گا۔ بھارتی آرمی چیف نے یہاں تک کہا: ’’پاکستان کے ہاتھوں محتاج بننے سے بہتر ہے کہ ہم اپنا ایک ایک بلب بند کر کے اپنی توانائی کی ضرورت پوری کریں‘‘ پھر انہوں نے واقعتاً بھارت کی ہر فوجی چھائونی کو ایک ایک بلب بند کرنے کا حکم جا ری کر دیا۔ بھارت نے آئی پی آئی کا رکن بننے سے معذرت کر لی۔ پاکستان اب خریدو فروخت اور تجارت کے نام پر بیک چینل سفارت کاری کے ذریعے بھارت سے ایک ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے کی بات کر رہا ہے اور اس کی تیاریاں اتنی زور شور سے جاری ہیں کہ بھارت کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد وزیر اعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف سے لاہور میں مذاکرات بھی کر گیا ہے۔ اب ہمیں ان کو اپنے وہ نقشے فراہم کرنے ہیں جہاں وہ بجلی کی تاریں بچھائیں گے اور گرڈ اسٹیشن تعمیر کریں گے۔ پاکستانی میڈیا کے کچھ حلقوں سمیت آج پاکستان کے مختلف اداروں میں بیٹھے ہوئے ہمارے بہت سے مہربان بھارتیوں کی ’’پر خلوص دوستی‘‘ کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے۔ وہ صحیح کہتے ہوں گے‘ لیکن اگر آپ بھارت کے ایک سرے سے دوسرے تک گھوم لیں تو آپ کو بھارت کی پُرخلوص دوستی کا اصل چہرہ نظر آ جائے گا۔ پھر بھی روشن دماغوں کو بھارتی دوستی کی حقیقت سمجھ میں نہ آئے تو وہ بھارت کے ایک بڑے تجارتی گروپ ’’ ٹاٹا‘‘ کی پاکستان اور پاکستانیوں سے کی جانے والی ’’لاز وال محبت‘‘ کی ایک کہانی سن لیں: ٹاٹا گروپ نے بھارت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کے لیے تاریخ کا بہت بڑا ٹینڈر جاری کیا جس میں حصہ لینے کیلئے دنیا بھر کے اداروں کو حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔ ان ٹینڈروں میں حصہ لینے کے لیے پاکستان کی چندبڑی کمپنیاں بھی آگے آئیں جن میں سے دو کا تعلق پاکستان کے بہت بڑے صنعتی گروپوں سے ہے۔ پاکستان کے یہ دو کھرب پتی صنعت کار ٹاٹا گروپ آف انڈسٹریز اور ہوٹلز کے مرکزی دفتر ممبئی ہائوس پہنچے تو انہیں چند منٹ کے لیے انتظار گاہ میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ چند منٹ کا یہ انتظار بڑھتا گیا اور کوئی ساڑھے تین گھنٹے بعد انہیں ٹاٹا گروپ کے چیئر مین رتن ٹاٹا کی سیکرٹری کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ چیئر مین صاحب اس وقت مصروف ہیں اس لیے وہ آپ سے ملاقات نہیں کر سکتے۔ ہمارے صنعت کار مایوس تو ہوئے لیکن انہوں نے سیکرٹری سے درخواست کی کہ ہم ممبئی میں ہی موجود ہیں‘ ان سے کہیں کہ وہ ہمیں کسی اور دن کا وقت دے دیں لیکن انہیں کہا گیا کہ ابھی ان کے پاس وقت نہیں ہے‘ وہ بہت مصروف ہیں۔ ممبئی ہائوس سے مایوس ہو کر دونوں پاکستانی صنعت کار نئی دہلی پہنچے اور ہائی کمیشن کے دفتر جا کر ساری کہانی سنائی اور مدد کی درخواست کی۔ ہائی کمشنر کے لیے یہ دو صنعت کار انتہائی اہم تھے اس لیے انہوں نے بھارتی وزیر تجارت آنند شرما سے رابطہ کیا اور ان سے اپنے صنعت کاروں کی ہونے والی ’’عزت افزائی‘‘ سے آگاہ کیا۔ آنند شرما نے رتن ٹاٹاسے فون پر درخواست کی وہ پاکستان کے ان اہم ترین صنعت کاروں کو ملاقات کا شرف بخشتے ہوئے ان کو بھی ٹینڈر میں حصہ لینے کا موقع دیں۔ بھارتی وزیر تجارت نے رتن ٹاٹا سے کہا کہ بھارتی حکومت کیلئے یہ بات پاکستان کے تجارتی حلقوں میں کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑے گی اور ہماری حکومت کیلئے یہ حرکت انتہائی شرمناک سمجھی جائے گی۔ رتن ٹاٹا نے آنند شرما کو انتہائی سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا: ’’یہ بات آپ کیلے با عث شرم ہوگی‘ میرے لیے اس کے کوئی معنی نہیں ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ اس کے بعد دونوں صنعت کار بے نیل و مرام واپس پاکستان آ گئے۔ یہ ہے اس محبت اور دوستی کی آشا کا ہلکا سا اظہار جو بھارت کے ایک صنعت کار کے دل میں پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف اس وقت کچھ ایسے ’’محب وطن‘‘پاکستانی بھی ہیں جو بھارت سے ہزاروں کی تعداد میں جنریٹر منگوانے کے بعد ان پر دھڑا دھڑ\'\'MADE IN CHINA\'\' کی پتریاں لگا کر پاکستان میں بیچ کر کروڑ پتی بنتے جا رہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہ ہوئی۔ بے عزت ہوکر واپس آنے کے بعد بھی وہ صنعت کار ٹینڈر دینے کے لیے بھارت کے مختلف اداروں سے وابستہ افراد کی منتیں کرتے رہے لیکن بری طرح نا کام رہے۔ پاکستان کی حکومت بھی درخواستیں کرتی رہی لیکن کوئی کامیابی نہ ملی۔ اتنے گھٹیا سلوک کے بعد بھی پاکستان کی بھارت نواز حکومت نے اسی ٹاٹا گروپ کو ایک تجارتی آرڈر دیتے ہوئے TATA SUMO\'S بھیجنے کی درخواست کی‘ لیکن رتن ٹاٹا نے پاکستان کو ایک وہیکل بھی دینے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان کی یہ در خواست ردی کی ٹوکری میں پھینک دی۔ جب یہ بات میڈیا کے ذریعے بھارت میں عام ہوئی تو پورا بھارت ٹاٹا کی اس وطن دوستی پر جھوم اٹھا اور سوشل میڈیا پر یہ عبارت جھلملانے لگی \'\'AWAKE INDIAN COUNTRYMEN,NATION IS ABOVE EVERYTHING ELSE.....\'\' دوسری طرف ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ بھارت سے بجلی لیں گے۔ بھارت سے انفرادی مدد بھی لیں گیــ کیونکہ دونوں طرف ہم ایک ہی ہیں۔ یہ تو صرف وردی والے ہیں جو ہمیں ایک نہیں ہونے دیتے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved