تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     23-09-2021

اب یوٹرن نہیں لینا!

ہماری قوم صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں لیکن کبھی ہم مصلحت کے نام پر اپنے اصول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو کبھی مفاہمت کے نام پر مقصد سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، کبھی عالمی و علاقائی صورتحال آڑے آ جاتی ہے تو کبھی نظریۂ ضرورت قومی امنگوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ پہلے تو کوئی مجبور یا غریب آدمی مصلحت کا شکار ہوتا تھا، کسی بے بس کو مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑتا تھا لیکن اب تو اربابِ اختیار ہی وقت اور حالات دیکھ کر اپنے دعووں اور وعدوں سے پھر جاتے ہیں، منشور سے ہٹ جاتے ہیں اور اپنے اصولوں سے انحراف کر لیتے ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے گئے تھے، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کے ساتھ ساتھ میرٹ اور انصاف کی بلاتفریق فراہمی کے دعوے کیے گئے تھے۔ تبدیلی کے نام پر ووٹ تو لے لیے گئے لیکن جب وعدوں کی تکمیل کا وقت آیا تو ہر بات پر 'یوٹرن‘ لے لیا گیا اور اس بابت تنقید ہوئی تو یوٹرن کو عظیم لیڈروں کی پہچان قرار دیا گیا۔
آج کل ہماری قوم نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی جانب سے سکیورٹی خدشات کی بنا پر بہانہ بنا کر بغیر کھیلے واپس چلے جانے اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے پاکستان آنے سے انکار کے باعث افسردہ ہے۔ قوم کودکھ ہے کہ ہم نے اٹھارہ برس بعد پاک سرزمین پر قدم رکھنے والی کیوی ٹیم کو اتنی عزت دی، ضرورت سے بڑھ کر اور اپنے عوام کو مشکلات میں ڈال کر انہیں فول پروف سکیورٹی فراہم کی، کئی روز تک پریکٹس کے لیے بارات کی شکل میں انہیں ہوٹل سے سٹیڈیم پہنچایا گیا جہاں مہمان ٹیم نے بہترین ماحول میں ٹریننگ کی اور پھر وہاں سے فول پروف سکیورٹی میں واپس ہوٹل لے جایا جاتا رہا۔ جمعرات (16 ستمبر) کو بھی کیوی ٹیم ہوٹل سے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم آئی، پریکٹس سیشن میں بھرپور حصہ لیا اور نیوزی لینڈ کے کپتان نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے ساتھ ون ڈے انٹرنیشنل سیریز کی ٹرافی کی رونمائی تقریب میں شرکت کی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے کرکٹ شائقین جمعہ (17 ستمبر) کو نیوزی لینڈ اور پاکستان کے میچ کے منتظرتھے، سٹیڈیم کے باہر تماشائیوں کی لائنیں دوپہر بارہ بجے ہی لگ چکی تھیں، میڈیا سنٹر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان سے بھر چکا تھا، براڈ کاسٹرز کے کیمرے دنیا بھر کے شائقین کو براہ راست میچ دکھانے کے لیے تیار تھے۔ گرائونڈ میں نصب ڈیجیٹل سکرین آن ہو چکی تھی، میچ آفیشلز چمکتی وردیوں میں ملبوس میدان میں اتر چکے تھے، گرائونڈ سٹاف نے میچ والی پچ پر وکٹیں تک لگا دی تھیں ، سکیورٹی سٹاف نے کیوی ٹیم کی حفاظت کے لیے جیمرز لگا کر سٹیڈیم میں وائی فائی اور انٹرنیٹ سسٹم جام کر دیا تھا۔ ہر شخص کی نظریں پنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے ڈریسنگ رومز پر مرکوز تھیں مگر دونوں اطراف کرسیاں خالی ہی رہیں۔ ہم بھی وہیں موجود تھے اور یہی سمجھتے رہے کہ شاید قومی ٹیم نمازِ جمعہ کی وجہ سے لیٹ ہے اور مہمان کیویز بھی گرین شرٹس کے ساتھ ہی میدان میں اتریں گے۔ میچ دوپہر اڑھائی بجے شروع ہونا تھا اور شیڈول کے مطابق ٹاس کا وقت دو بجے تھا، جب ٹاس کے وقت سے چند منٹ قبل تک کوئی ہل جل نہیں ہوئی تو میڈیا سنٹر میں مختلف چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ پھر اچانک خبر آئی کہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے نامعلوم سکیورٹی تھریٹ کا بہانہ بنا کر میچ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے اور دورۂ پاکستان ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اچانک اور یکطرفہ فیصلہ پاکستانی قوم اور کرکٹ شائقین کے لئے انتہائی مایوس کن تھا جس کے بعد انگلینڈ کا متوقع فیصلہ بھی نوشتہ دیوار تھا اور وہی ہوا‘ جس کا خدشہ تھا۔
نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پاکستان کرکٹ بورڈ، ہماری سکیورٹی فورسز، انٹیلی جنس ایجنسیوں حتیٰ کہ خود وزیراعظم پاکستان کی جانب سے یقین دہانیوں پر اعتماد نہ کیا اور یکطرفہ فیصلہ سنا دیا۔ جو کچھ ہوا، یقینا غلط ہوا‘ لیکن جو ہونا تھا وہ اب ہو چکا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں لگی کرسیوں کو تماشائیوں سے بھرنے کا انتظام کر لیا ہے اور آج (جمعرات) سے نیشنل ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹورنامنٹ راولپنڈی میں شروع ہو رہا ہے۔ یقینا یہ ٹورنامنٹ بھی ہمارے کھلاڑیوں کے لیے ورلڈکپ کی تیاریوں میں مفید ثابت ہو گا اور قوم بھی اپنے ہیروز کو ایکشن میں دیکھ کر یہ غم بھلا دے گی۔ دونوں غیر ملکی بورڈز کے فیصلوں سے ہماری قومی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے اور اب ہم نے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ ہمارے لیے عزت اور وقار ہی سب سے مقدم ہے۔ سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ابھی تک حکومت اور کرکٹ بورڈ کی جانب سے سامنے آنے والے اقدامات اور بیانات قوم کی امنگوں کے عین مطابق ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دورۂ پاکستان کی یکطرفہ منسوخی کے معاملے پر بیرونی سازشوں کا پردہ چاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے دورے کے منسوخی کے بعد سینئر وزرا سے مشاورت کی اور انہیں حقائق دنیا کے سامنے لانے کی ہدایت کی۔ جس کے بعد وفاقی وزرا فواد چودھری اور شیخ رشید نے بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ نیوزی لینڈ کو فیک آئی ڈیز کے ذریعے دھمکیوں بھرے پیغامات بھارت سے بھیجے گئے، مہمان ٹیم کو دھمکیاں دینے کیلئے احسان اللہ احسان کا جعلی فیس بک اکاؤنٹ بھی استعمال کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مقدمہ درج کرکے ایف آئی اے حکام انٹرپول سے رابطہ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنڈے گارڈین نے نیوزی لینڈ ٹیم کے دورے کے خلاف دھمکی آمیز آرٹیکل لکھا تھا جبکہ نیوزی لینڈکے اوپنر مارٹن گپٹل کی اہلیہ کو دھمکی آمیز ای میل بھی بھیجی گئی، یہ بھی فیک آئی ڈی ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس ای میل اکاؤنٹ سے ابھی تک صرف ایک ہی ای میل بھیجی گئی ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان نے یکطرفہ کرکٹ سیریز منسوخ کرنے پر نیوزی لینڈ سے باضابطہ احتجاج کیا ہے، پاکستانی ہائی کمشنر نے منگل کو نیوزی لینڈ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی اور احتجاجی مراسلہ کیوی حکومت کے سپرد کیا۔ ہائی کمشنر نے دورہ ملتوی کرنے کی وجوہات اور تفصیلات کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ طور پر‘ جس انداز میں دورہ ملتوی ہوا وہ غلط ہے، سکیورٹی تھریٹ سے متعلق کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی گئیں۔ سب سے حوصلہ افزا چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کا بیان ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ اپنی کوئی بھی ہوم سیریز کھیلنے نیوٹرل مقام پر نہیں جائیں گے، انہوں نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے انکار کے بعد ایشیائی بلاک بنانے کا اعلان بھی کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی خودداری اور کرکٹ کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہمارے لیے اس سب میں سبق ہی سبق ہے، پتا چل رہا ہے کہ کون دوست ہے، کون ساتھ کھڑا ہے۔ ہمیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہونا‘ ایک ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے معاملہ آئی سی سی کے فورم پر اٹھانے کا بھی اعلان کیا۔ یقینا رمیز راجہ کا موقف پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ہم تمام خطرات کے باوجود ہر ملک میں جا کر میچ کھیلتے ہیں تو پھر دیگر ٹیموں کو بھی یہاں آنا چاہئے۔ ہم نے پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد کرا کے دنیا پر واضح کر دیا کہ ہم ایک پُرامن اورکھیلوں سے محبت کرنے والی قوم ہیں۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، جنوبی ا فریقہ اور زمبابوے کی ٹیمیں یہاں سیریز کھیل چکی ہیں، نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں اور آفیشلز نے ہمارے فول پروف سکیورٹی سسٹم کی تعریف کی ہے، اس کے باوجود یہاں کھیلنے سے انکار ناقابلِ برداشت ہے۔ ہمیں قومی وقار کیلئے اس بات پر ڈٹ جانا ہو گا کہ آئندہ ہم کوئی بھی ہوم سیریز پاکستان سے باہر نہیں کھیلیں گے، پی ایس ایل بھی اپنے ملک میں ہی ہو گا، اور اب کچھ بھی ہو جائے‘ اس موقف پر 'یوٹرن‘ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved