تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-09-2021

راستا بدلنا پڑے گا !

آج کی دنیا میں سیاست و معیشت کے حوالے سے جو بڑی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں وہ تمام کی تمام مغربی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہیں۔ انتہائی نوعیت کی طاقت سے بہرہ مند ہونے کے بعد مغرب نے جو کچھ کیا‘ وہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ مغرب کی پیدا کردہ خرابیوں سے خود اُسے کوئی استثنا حاصل ہے۔ مغربی دنیا کے لوگ بھی انتہائی نوعیت کی نفسی پیچیدگیوں اور اخلاقی خرابیوں سے دوچار ہیں۔ اُن کی زندگی میں بھی خطرناک بلکہ ہلاکت خیز نوعیت کی خرابیاں در آئی ہیں۔ مغرب کی حکومتوں نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر جو پالیسیاں اختیار کیں وہ اوّل تا آخر صرف اور صرف طاقت کا مظہر ہیں اور طاقت میں اضافے ہی کا حتمی مقصد لیے ہوئے ہیں۔ جہاں سب کچھ طاقت ہی کو سمجھ لیا جائے وہاں تہذیب اور اخلاقیات کا جنازہ اٹھ جائے تو حیرت کیسی؟
ڈھائی‘ تین ہزار سال کے سفر میں انسان نے جو مراحل طے کیے ہیں وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ اُن سے بہت کچھ سیکھا جائے اور جو کچھ سیکھا جائے اُس کی بنیاد پر ایسا بہت کچھ کیا جائے جو دنیا کو زیادہ قابلِ سکونت بنانے میں معاون ثابت ہو۔ ہر دور کے انسان نے بہت کچھ سہا ہے۔ بالخصوص پانچ‘ سات صدیوں کے دوران دنیا بھر کے انسانوں نے مختلف حوالوں سے انقلابی ادوار کا سامنا کیا ہے۔ یہ سب کچھ بظاہر اس مقصد کے لیے تھا کہ دنیا میں کچھ بہتری آئے، جینا آسان ہو اور وہ سب کچھ کیا جاسکے جو اب تک صرف آدرشوں کا حصہ رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے انسان نے وہ سب کچھ ممکن بنالیا ہے جو دنیا کو قابلِ رشک حد تک درست کرنے کے لیے درکار ہوا کرتا ہے مگر پھر بھی درست تو کچھ بھی نہیں ہو پارہا۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ انسان اپنے اندر سے اب تک لالچ اور حسد کو کھرچ کر پھینک نہیں سکا۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے جو کچھ درکار ہوا کرتا ہے‘ وہ سب کچھ اب آسانی سے میسر ہے مگر اُس کی تقسیم کی راہ میں انسان خود روڑے اٹکا رہا ہے۔ مغرب نے مادّی اعتبار سے فقید المثال ترقی ممکن بنائی مگر اس معاملے کا انتہائی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو انتہائی بھونڈے اور شرم ناک انداز سے خیرباد کہتے ہوئے اُس راہ پر چلنے کو ترجیح دی جارہی ہے جو بالآخر ہمہ گیر تباہی پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
ہر دور میں قدرت کسی ایک خطے کو نمایاں ترین مقام عطا کرتی ہے‘ باقی دنیا اُس سے بہت کچھ سیکھتی ہے، بیشتر معاملات میں اُس کی طرف دیکھتی ہے، پس ماندہ خطے اپنے حالات کی درستی کے لیے اُس ترقی یافتہ خطے سے اشتراکِ عمل کی امید رکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ خطے کو بلند مقام قدرت کی طرف سے اِسی لیے ملتا ہے کہ وہ باقی دنیا کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے میں مدد دے۔ ہر دور کا ترقی یافتہ خطہ کم و بیش تمام معاملات میں باقی دنیا کا پیشوا ہوتا ہے۔ یہ پیشوائی دی ہی اس لیے جاتی ہے کہ وہ اپنے حصے کا کام کرے اور اپنے لیے دائمی یا تادیر رہنے والی توقیر کا اہتمام کرے۔
کم و بیش پانچ صدیوں سے دنیا کی پیشوائی مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا پر حکومت کی ہے اور اپنی ہر بات منوانے کی بھرپور کوشش ہی نہیں کی بلکہ اِس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ پہلے یورپ نے دنیا کو زیرِ نگیں کیا اور پھر امریکا نے میدان رہی سہی کسر پوری کی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یورپ نو آبادیات کے ڈھانچے کو ساتھ لے کر چلتا تھا یعنی کمزور ممالک اور پس ماندہ خطوں کو فتح کرکے اُن پر اپنا راج قائم کرنے کے بعد انہیں باضابطہ غلام ٹھہراتا تھا۔ کئی خطے صدیوں تک یورپ کے غلام رہے۔ امریکا نے طریقِ واردات تھوڑا بدلا۔ وہ کسی بھی ملک کو باضابطہ غلام نہیں بناتا بلکہ وہاں اپنی مرضی کے یعنی حاشیہ بردار قسم کے لوگوں کو حکمرانی سونپ کر اُن سے اپنے سارے کام نکلواتا ہے۔ امریکی مفادات کو مستحکم تر کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں اور اِن کوششوں کے نتیجے میں متعلقہ ممالک اور خطے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اب یورپ نے اپنی روش تھوڑی سی بدلی ہے۔ وہ اب نو آبادیات پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی کسی خطے کو اپنے حاشیہ بردار حکمرانوں کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے۔ اب اُس کی کوشش یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا خطے کو عسکری قوت سے فتح کرکے زیرِ نگیں رکھنے کے بجائے علم و فن اور مالیات کے ذریعے اپنی ساکھ بہتر بنائی جائے اور اپنی بالا دستی برقرار رکھی جائے۔ اِسے اصطلاحاً ''نرم قوت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یورپ کی بیشتر ریاستیں اب نرم قوت کی راہ پر گامزن ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ اپنے علم و فن اور مالیاتی استحکام سے باقی دنیا میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کریں۔ اِس صورت میں یورپ کی بالا دستی تو قائم رہے گی مگر قتل و غارت کی گنجائش زیادہ نہیں رہے گی۔ یہ بہت حد تک معقول طریقہ ہے۔ آج کی دنیا کو ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جن سے جنگوں اور خانہ جنگیوں کی راہ مسدود ہو اور اشتراکِ عمل کی گنجائش بڑھے۔ یورپ نرم قوت کے ذریعے اشتراکِ عمل بڑھانا چاہتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، وہ یہ سب کچھ بہبودِ عامہ کے نقطۂ نظر سے نہیں کر رہا بلکہ اُسے بہت سے معاملات میں موافق حالات ملے ہیں جن سے بھرپور استفادہ کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ برطانیہ اب تک دو تین صدیاں پیچھے جی رہا ہے، یورپ کی دیگر ریاستیں چاہتی ہیں کہ باقی دنیا پر اپنی بالا دستی اس طور قائم رکھی جائے کہ معاملات قتل و غارت تک نہ پہنچیں، تباہی و بربادی کا بازار گرم نہ ہو۔ اِس کے لیے سفارت کاری اور معیشت کو ایک پیج پر لاکر ایسی پالیسیاں تیار کی گئی ہیں جن سے مالیات و تجارت کو مرکزی حیثیت ہو اور بیشتر معاملات قدرے منطقی انداز سے تکمیل پذیر ہوں۔
امریکا اب تک اپنا راستا بدلنے کو تیار نہیں۔ اُس کی خواہش و کوشش ہے کہ دنیا بھر میں کہیں نہ کہیں قتل و غارت جاری رہے، تباہی و بربادی کا بازار گرم رہے۔ کیوں؟ اِس کی بھی ایک ٹھوس وجہ ہے۔وہ یہ کہ امریکی پالیسیوں کی کامیابی کا مدار اصلاً اس بات پر ہے کہ دنیا بھر میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہے۔ امریکا میں صنعتی ڈھانچے کی بنیادی دفاعی ساز و سامان کی تیاری اور فروخت پر رکھی گئی ہے۔ اِسے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کہتے ہیں۔ امریکی معیشت میں صنعت کو آج بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے اور امریکی صنعتوں کی کامیابی کا مدار اس بات پر ہے کہ دنیا بھر میں اسلحے کی طلب پیدا ہوتی رہے۔ امریکی پالیسی میکرز مختلف خطوں میں جنگوں اور خانہ جنگیوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں تاکہ اسلحے کی طلب میں کمی نہ آئے اور دفاعی ساز و سامان کی امریکی صنعت رسد یقینی بنانے پر مامور رہے۔
ایک زمانے سے دنیا اس بات پر زور دے رہی ہے کہ امریکا اپنی پالیسیاں تبدیل کرے۔ اب تو یورپ بھی راستا بدل چکا ہے۔ امریکی پالیسی میکرز اب بھی کچھ سیکھنے کو تیار نہیں۔ امریکا کتنا طاقتور ہے اس کا اندازہ خود اُنہیں بھی ہے جو ہر معاملے میں امریکا کی طرف دیکھتے ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ طاقتور کی طاقت فیصلہ کن حد تک کم ہوچکی ہے مگر چونکہ دنیا کو چلانے والا نظام اُس کا تیار کردہ ہے اس لیے معاملات کی اصلیت کھل کر سامنے نہیں آرہی۔ عالمی نظام میں اپنی مرضی کے فیصلے یقینی بناکر امریکا باقی دنیا کو اب بھی پریشانی سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ عالمی مالیاتی نظام میں امریکا مرکزی مقام رکھتا ہے اور یورپ بھی بالا دست ہے۔ یہی سبب ہے کہ سب کچھ اس نظام سے چَھن کر گزرنے کے باعث امریکا اور یورپ کو فوائد سے نواز رہا ہے۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا۔ چین اور روس اب اس میدان میں اتر چکے ہیں اور اپنی پوزیشن کا استحکام چاہتے ہیں۔ عالمی سیاسی و معاشی نظام میں محض پیوست رہنے کی بنیاد پر امریکا اور یورپ کی گاڑی اب زیادہ دور تک نہیں چل سکتی۔ دوسروں کی قبور پر اپنے تاج محل کھڑے کرنے کی روش امریکا کو اب ترک کرنا ہی پڑے گی۔ اِس نیک کام میں تاخیر تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جانے والے حالات کو جنم دینے میں دیر نہیں لگائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved