تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     24-09-2021

الیکشن کمیشن کیخلاف مہم جوئی ‘نتائج کیاہوں گے؟

الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے حوالے سے یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218 کی شق تین کے مطابق خود مختار اور غیر جانبدار ادارے کی حیثیت رکھتا ہے اور جب الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں ملک کے مفاد کے تحت اور آئین کے آرٹیکل 5(1) اور(2) کے تحت اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو حکومت نے اس پر بلاوجہ الزامات عائد کرکے قوم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ بعض وزرا نے آئین کے آرٹیکل 213 کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کے معززارکان کو بغاوت پر اکسا کر آئین کے آرٹیکل 218 کی خلاف ورزی کی اور موجودہ حالات میں جبکہ انتخابی اصلاحات‘ قومی ہم آہنگی‘ مشترکہ مفادات‘ اجتماعی جدوجہد اور ملک کے آئندہ انتخابات شفاف بنیادوں پر کروانے کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی جانی چاہیے تھی‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی آڑ میں الیکشن کمیشن کے بنیادی ڈھانچے پر ہی یلغار کردی گئی ہے اور بلاوجہ الیکشن کمیشن کے ارکان کو نافرمانی پر اکسا کر ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا گیا ہے۔
وزرا کے ان آتش فشاں بیانات کی روشنی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بارکونسل کو آگے بڑھناچاہیے اور الیکشن کمیشن کی آئینی معاونت کرنی چاہیے۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو ملک میں انتخابات کو بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں سے پاک غیر جانبدارانہ‘ منصفانہ اور صاف و شفاف بنانے کا آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت ذمہ دارہے۔ آئین کا یہ آرٹیکل کہتا ہے: مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں‘ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی غرض سے اور ایسے دیگر عوامی عہدوں کے انتخاب کے لیے جیسا کہ قانون کے ذریعے صراحت کرد ی جائے گی‘ اس آرٹیکل کے مطابق الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے گا... الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہو گا کہ وہ انتخابات کا انتظام کرے اور انہیں منعقد کروائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کے لیے ضروری ہوں کہ انتخاب ایمانداری‘ حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہوں اور یہ کہ بدعنوانیوں کا سدباب ہو سکے۔
الیکشن کمیشن نے اس آرٹیکل کے تحت اپنی آرا‘ تکنیکی اعتراضات‘ تجاویز اور سفارشات کی صورت میں وزارتِ پارلیمانی امور اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کو ان کی خواہش پر پیش کیں مگر بعض وزرا نے الیکشن کمیشن پر لفظی یلغارکرکے اس اہم آئینی ادارے کی ساکھ کو زمین بوس کرنے کی ناکام کوشش کی اور ادارے کے سربراہ اور دیگر ارکان کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جو کسی حکومتی عہدیدار کے شایان شان نہیں۔ یہ وزرا مسلسل ایک ہفتے سے اپنے غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کی جانب سے الیکشن کمیشن پر غصے کی کئی دیگر وجوہات بھی سامنے آرہی ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن ان دنوں اہم کیسز کی سماعت کررہا ہے‘ جن میں سات سال پرانا فارن فنڈنگ کیس‘ ڈسکہ الیکشن کی اہم ترین رپورٹ‘ فیصل واوڈا کی نااہلی کا کیس اور دیگر معاملات شامل ہیں۔ ان کیسز سے حکومت وقت کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں پھر بھی وزیراعظم کو بعض وزرا نے ان کیسز کے حوالے سے بدگمان کررکھا ہے اور اُن کو درست بریفنگ نہیں دی جارہی۔ تحریک انصاف کا مرکزی سیکرٹریٹ بھی اپنے فرائض کے مطابق ان وزرا کی سرگرمیوں کے بارے میں وزیرِ اعظم کو حالات سے آگاہ نہ کرکے پارٹی مفادات کو مدنظر نہیں رکھ رہا۔ سینیٹر سیف اللہ نیازی بھی کہیں نظر نہیں آرہے اور بعض وزرا بظاہر ایسے سرکش ہوچکے ہیں کہ وزیر اعظم کو بھی خاطر میں نہیں لارہے۔ وہ غیر عوامی اور غیر جمہوری خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
میرے مطابق جناب وزیراعظم کو ادراک نہیں کہ ان کے دو وزرا الیکشن کمیشن کے ارکان کو چیف الیکشن کمیشن کے خلاف اکساکر آئین کی خلاف ورزی کا ارتکاب کررہے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 10 دفعہ55(3) اورآرٹیکل 204 کے تحت الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ ملکی سروس میں موجود کسی بھی سرکاری عہدیدار کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ عام انتخابات میں ووٹنگ کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال اہم پیش رفت ہوگی مگر اسے یکطرفہ طور پر نافذ کرنا قومی یکجہتی کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے 37 اعتراضات‘ جو زمینی حقائق کے عین مطابق ہیں‘ کو مسترد کرنے کے بجائے ان کا ایک ایک کرکے تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر جواب دیا جاتا تو عوام اور حکومت کے لیے زیادہ قابل فہم ہوتا‘ مگروزرا نے الزام تراشی کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے اس سے الیکشن کمیشن کا وقار عوام کی نظروں میں بلند ہوتا جارہا اور حکومت کی ساکھ کمزور ہوتی جارہی ہے‘ لہٰذا حکومت کو الیکشن کمیشن کے خلاف محاذآرائی سے گریز کرنا چاہیے اور الیکشن کمیشن کو خود ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کے لیے فری ہینڈ دیتے ہوئے ووٹنگ مشین کا معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہیے اور اس پر بحث کروائی جانی چاہیے۔ پہلے مرحلے میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات میں اس مشین کو آزمانا چاہیے اور قابلِ قبول ہونے پر آئندہ قومی انتخابات میں اس کا تجربہ مرحلہ وار کیا جانا چاہیے۔ محاذ آرائی سے الیکشن کمیشن کی ساکھ غیرجانبدار ہوگئی ہے جبکہ حکومت ووٹ بینک سے محروم ہوتی جا رہی ہے‘ لہٰذا معاملہ نیک نیتی اور صلح جوئی کے جذبے سے طے کیا جانا ہی ملکی مفاد میں ہے۔ شیخ رشید احمد کی صورت میں حکومت میں ایسی شخصیت موجود ہے جو معاملے کو حل کرا سکتی ہے اور وزرا ان کی قیادت میں الیکشن کمیشن جائیں اور معافی نامہ داخل کروا کر حالات کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔
غالب نے کہا تھا 'ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے‘ حکومت نے خود کو اور قوم کو الیکشن کمیشن اور ووٹنگ مشینوں کے معاملات میں الجھا رکھا ہے جبکہ دوسری جانب معاشی بدحالی کا ایک بہت بڑا طوفان قومی معیشت کے دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ زوردار طوفان دروازے کھڑکیاں توڑ کر اندر آ چکا ہے۔ لوگ مہنگائی کے بے رحم تھپیڑوں سے چیخ اٹھے ہیں۔ اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ‘ چند برس پہلے تک جن کا شمار درمیانے طبقے میں ہوتا تھا‘ اب نچلی سطح پر آچکے ہیں۔ خوراک کی مہنگائی اپنی جگہ مگر توانائی اور دیگر ضروریات بھی عام آدمی کے بس سے باہر ہو چکی ہیں۔ مہنگائی میں ناقابلِ توقع تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ مگر وزرا صاحبان مہنگائی کے حوالے سے غریب عوام کا مذاق اُڑا رہے ہیں‘ اسی طرح ملک ایک آئینی اور سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ڈالر کی شرح مبادلہ میں حالیہ اضافے کے بعد یہ طے ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں عوام کی اور اس کے ساتھ حکومت کی مشکلات میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔
چیف الیکشن کمشنرکے خلاف حکومت کے اہم عہدیدار‘ جن سے ذمہ داری کی توقع کی جانی چاہئے‘ جو بے سر و پا الزامات لگا رہے ہیں میرے خیال میں وہ غلط ثابت ہو جائیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر کو حکومتی دباؤ کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے نہ ہی الزامات کی مہم میں کوئی جذباتی فیصلہ کرنا چاہیے۔ حکومت‘ جو پہلے ہی غیرمقبولیت کی انتہا کو پہنچ چکی ہے‘ کے الزامات اور بے جا اعتراضات کو عوام میں کوئی پذیرائی نہیں مل رہی۔ ان الزامات سے حکومت ہی کی بدنامی ہورہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس‘ بحیثیت آئینی ادارہ جو قانی اختیارات ہیں آخر حکومت انہیں تو نہیں روند سکتی۔
حاصل کلام یہ ہے کہ آنے والے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹ بیلٹ کے استعمال کا امکان نظر نہیں آرہا‘ نہ 2023ء سے پہلے الیکشن ہوتے نظر آتے ہیں ‘بلکہ موجودہ نظام کی تبدیلی واضح طور پر نظر آرہی ہے اور حالات انتہائی خراب صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ آئینی ڈھانچے پر حملہ کرت ہوئے حکومت نے آئین کے آرٹیکل 5(1) اور (2)کو مدِ نظر نہیں رکھا۔ الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں کو آگے بڑھ کر معاملات کو سدھارنا چاہیے‘ یہی عمل ملک و عوام کے لیے فائدہ مند ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved