تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     24-09-2021

طالبان کا افغانستان…(3)

کابل میں پاکستان کے سفارتخانے سے بڑی اور کھلی جگہ کسی دوسرے سفارتخانے کے پاس نہیں۔ وسیع وعریض باغ کے بیچوں بیچ سفید رنگ کی یہ عمارت اب شہر کے اندر آچکی ہے۔ جیسے ہی آپ اسکے دہرے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہیں شاہانہ انداز کا ایک وسیع راستہ آپ کو عمارت کے صدر دروازے تک لے جاتا ہے۔ اس عمارت میں آپ کو جو کچھ خوبصورت نظر آئے وہ برطانوی حکومت کا بنایا ہوا ہے‘ جہاں جہاں بے ڈھب تعمیر دکھائی دے سمجھ لیجیے وہ اپنی کارستانی ہے۔ ہم اگر ڈھنگ کے ماہر ِتعمیرات کی خدمات حاصل کرلیتے اوراپنی ضروریات کا درست اندازہ لگاتے تو بہت کچھ بہتر ہوسکتا تھا لیکن ریاستی ڈھانچے میں اگر تھوڑی سی بھی لیاقت ہوتی تو اپنا یہ حال ہوتا؟ مجھے معاف کردیجیے کہ میں موضوع سے کچھ ہٹ گیا۔
پاکستانی سفارتی عملے نے پچھلے بیس برس کابل میں قیدیوں کی طرح گزارے ہیں۔ ریاستی سرپرستی میں وہاں کا میڈیا ہمارے خلاف چوبیس گھنٹے زہر اگلتا رہا جس کی وجہ سے عام آدمی کے ذہن میں بھی پاکستان کا تاثر بگڑ گیا اور اس نے ہمیں اپنا دشمن تصور کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس نے سفارتخانے کو تو گویا نشانے پر رکھا ہوا تھا۔ سفارتی نمبرپلیٹ والی ہماری گاڑیاں جیسے ہی شہر میں نکلتیں‘ انہیں این ڈی ایس کی گاڑیاں باقاعدہ نرغے میں لے کر ٹکر ماردیتیں۔ آئے روز سفارتخانے کے سامنے مظاہرے کرائے جاتے‘ امریکا کی بنائی ہوئی حکومت کے وزیر روزانہ ہمارے خلاف بیان بازی کرتے۔ بے حد کوشش کے باوجود سابق افغان حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون سے گریزاں رہی۔ طالبان کی آمد کے بعد حالات میں کافی تبدیلی آئی ہے لیکن بیس سالہ پروپیگنڈے کے اثرات ابھی ذہنوں میں موجود ہیں۔
میں جمعہ کے روز اپنے سفارتخانے پہنچا‘ وہیں ایک طرف بنی چھوٹی سی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ کابل میں پاکستانیوں کو زیادہ اجنبیت محسوس نہیں ہوتی لیکن پھر بھی سفارتخانے کے لوگوں کے ساتھ جمعہ ادا کرنا بہت اچھا لگا۔ پاکستانی سفارتخانہ افغانستان میں کام کرنے والے کل چھ سفارتخانوں میں سے ایک ہے جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہاں کام کررہے ہیں۔ باقی سفارتخانوں میں تو کام بہت کم ہے لیکن پاکستان کے سفارتخانے پر کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ ہر صبح سینکڑوں لوگ ویزا لینے کے لیے آن پہنچتے ہیں اور نئی افغان حکومت کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے کیلئے کافی کام کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں کہ طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کمزور ہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا تعلق سیاسی نوعیت کا نہیں۔ اب چونکہ طالبان حکومت میں ہیں اس لیے ان کے ساتھ تعلقات کو سیاسی اور حکومتی دائرے میں لانے کیلئے محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ طالبان کا حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ محدود ہے اور پھر ان کے پاس ایسے تجربہ کار سفارتکار بھی نہیں جو ریاستوں کے درمیان معاملات کی پیچیدگیاں سمجھ کر فیصلے کرسکیں۔ دہری پریشانی یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک افغانستان کی نئی حکومت کوتسلیم نہیں کیا‘ اس لیے ان تعلقات کو سفارتی شکل دینے میں جو کچھ بھی کرنا ہے دراصل پاکستانی سفارتکاروں کو ہی کرنا ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان ہیں۔ ایک پیشہ ور سفارتکار جس کی زندگی عالمی سیاست کی گرہیں کھولتے گزری ہے۔ میں ذاتی طورپر پاکستانی دفترخارجہ کی صلاحیتوں کا معترف نہیں اور اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں لیکن افغانستان میں پاکستانی سفارتخانہ اور سفیر دونوں ہی کمال کررہے ہیں۔ معلوم نہیں کیسے یہ ہوا کہ ایک سال پہلے منصوراحمد خان کو جنیوا سے بلاکر افغانستان کی سفارت سونپ دی گئی۔ یہی وہ عرصہ ہے جب امریکا یہاں سے نکل رہا تھا‘ اس کی بنائی ہوئی حکومت خشک پتوں کی طرح بکھر رہی تھی اور لوگ ایک نئے انقلاب کی راہ دیکھ رہے تھے۔ ایسے حالات میں سفارتکاری دل گردے کا کام ہے۔ پچھلے مہینے ایک صبح ہمارے سفارتخانے کو ہرات میں پاکستانی قونصل جنرل نے فون کرکے بتایا کہ یہاں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ دوپہر کو فون آیا کہ ہرات میں طالبان کیخلاف برسرپیکار سابق گورنر اسماعیل خان نے فون کرکے اطمینان دلایا ہے کہ ہرات میں موجود پاکستانی سفارتکاروں کی ہر ممکن حفاظت کی جائے گی۔ تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ قونصل خانے پر متعین افغان حکومت کے سپاہی جا چکے ہیں۔ جیسے ہی حکومت کے اہلکارگئے تو اسماعیل خان کے سات لوگوں نے آکر قونصل خانے کی عمارت کے باہر اپنی پوسٹ قائم کرلی۔ انہیں آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ہرات کے قونصل خانے سے اطلاع آگئی کہ اسماعیل خان کے مقرر کردہ سپاہی بھی بھاگ چکے ہیں اور طالبان نے سکیورٹی سنبھال لی ہے۔
جب ہرات طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اگلے دن کابل میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر کھڑے افغان حکومت کے اکیس سپاہیوں کے انچارج نے دروازے پر دستک دی۔ چونکہ کسی بھی سفارتخانے کی اندر کی سکیورٹی اسی ملک کے لوگ سنبھالتے ہیں‘ اس لیے اندر سے پاکستانی گارڈ نے دستک کی وجہ پوچھی تو انچارج نے بتایا کہ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اگر طالبان آ گئے تو کیا پاکستانی سفارتخانہ انہیں گیٹ سے اندر آنے دے گا؟ ظاہر ہے یہ فیصلہ گارڈ تو نہیں کرسکتا تھا‘ اس لیے اس نے خاموشی اختیار کرلی۔ اگلے دن اکیس میں سے سات سپاہی غائب ہوگئے۔ تین دن بعد باقی سپاہیوں نے بھی آنا چھوڑ دیا۔ پھر پندرہ اگست کو طالبان کی ایک ٹولی آئی‘ انہوں نے سفارتخانے کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ آپ کی حفاظت کیلئے سات افراد متعین کیے جارہے ہیں۔ یہ اعلان تھا گویا افغانستان میں آنے والے انقلاب کا۔ اس انقلاب کے بعد بھی معاملہ عجیب تھا۔ سڑکوں پر طالبان کا راج تھا لیکن ان کے سپاہیوں کو یہ علم نہیں تھا کہ سفارتی گاڑی اور حکومتی گاڑی میں کیا فرق ہوتا ہے۔ دوردراز کے دیہات سے آئے ہوئے ان نوجوانوں نے ہر بڑی گاڑی کو 'دولتی‘ یعنی حکومتی گاڑی قرار دے کر پکڑنا شروع کردیا۔ ان حالات میں کوئی دوسرا سفارتخانہ تو متحرک نہیں تھا لیکن پاکستانی سفارتخانے کے لوگ کابل میں پھنسے پاکستانیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہے تھے۔ ایسے میں جگہ جگہ ہمارے سفارتخانے کی گاڑیوں کو روک لیا جاتا اور مطالبہ ہوتاکہ گاڑی چھوڑ دو کیونکہ یہ 'دولتی‘ ہے۔ اس کے بعد ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا‘ روکنے والی ٹولی کے امیر سے رابطہ ہوتا‘ پھر ان سے اوپر والے قاری صاحب سے بات ہوتی اور پھر کہیں سے حکم آتا اور گاڑی چھوڑی جاتی۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ ایک ریاست کا سارا نظام دم توڑ چکا ہو اور بڑے سے بڑا معاملہ ناتجربہ کار مگر مسلح نوجوانوں کے ہاتھ میں آجائے تو کیا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی غلط فہمی بھی معصوم کو مجرم بنا ڈالتی ہے۔ کئی دن بعد سفارتخانے کی کوششوں سے ہی طالبان کی تنظیم نے اپنے کارکنوں کو سمجھایا کہ سرخ نمبر پلیٹ والی گاڑی سفارتی حفاظت میں ہوتی ہے‘ اسے نہ چھیڑا جائے۔ چلتے چلتے یہ بھی جان لیجیے کہ کابل میں بہت ہی کم بڑی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ سڑکوں پرکھڑے طالبان انہیں سرکاری سمجھ کر بیت المال میں بھیج دیتے تھے۔ اس کا علاج لوگوں نے یہ کیا کہ بڑی گاڑیاں پوشیدہ جگہوں پر کھڑی کردیں اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں۔ 'دولتی‘ ہونے کی بنیاد پرصرف گاڑیاں ہی نشانہ نہیں بنیں بلکہ بڑی عمارتیں بھی طالبان نوجوانوں نے دولتی قرار دے کر اپنے تصرف میں کرنا چاہیں۔ اس طرح کے واقعات جب اعلیٰ سطح تک رپورٹ ہوئے تو ان نوجوانوں کو اندازہ ہوا کہ بڑی بڑی عمارتیں نجی ملکیت میں بھی ہوسکتی ہیں۔ مجھے کابل کی ایک بڑے شاپنگ مال کے سامنے کھڑے بندوق بردار طالبان نوجوان نے حیرت سے بتایا کہ افغانستان میں لوگ اتنے امیربھی ہیں کہ دس دس منزلہ عمارتیں بنا لیتے ہیں۔ جو نوجوان مجھے یہ بتا رہا تھا اسکے پاؤں میں ہوائی چپل تھی۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved