میڈی کلینک ہارٹ ہسپتال پری ٹوریا کے باہر کئی روز سے نیلسن منڈیلا کے چاہنے والوں کا جمِ غفیر جمع ہے۔ ہسپتال کے باہر کی ایک دیوار کو مختص کردیا گیا ہے‘ تاکہ سائوتھ افریقی‘ اپنے عظیم رہنما کے لیے صحت یابی کی نیک خواہشات اور دعائوں کے پیغامات دیوار پر چسپاں کر سکیں‘ رنگ برنگے پھولوں کے ڈھیر دعائیہ کارڈز کے ساتھ موجود ہیں۔ اس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے خصوصی کمرے میں 95 سالہ کمزور‘ نحیف اور پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا نیلسن منڈیلا زیر علاج ہیں۔ چند روز پہلے ڈاکٹروں نے دماغی موت کی تصدیق کردی تھی۔ نسلی امتیاز کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کو اپنی بے مثال جدوجہد سے ایک نئی زندگی عطا کرنے والا رہنما زندگی کی شام میں خود لائف سپورٹنگ مشینوں کے ذریعے سانس لے رہا ہے۔ اُس سے محبت کرنے والے جانتے ہیں کہ اب دعائیں بھی‘ اُن کے محبوب رہنما کو واپس نہیں لا سکتیں۔ اس کے باوجود اس ہسپتال کے باہر دعا کرنے والوں کا ہجوم بڑھتا جاتا ہے اور پھر جولائی تو ہے ہی نیلسن منڈیلا کا مہینہ‘ جس کی 18 تاریخ کو دنیا بھر میں منڈیلا ڈے منایا گیا۔ مقصد عالمی امن کے فروغ کی جدوجہد کو سلام پیش کرنا تھا۔ چند ہفتے پیشتر‘ نیلسن منڈیلا کے جدوجہد کے دنوں کے قریبی ساتھی‘ 83 سالہ احمد کاتھراڈا (Ahmad Kathrada) نے اپنے بہادر رہنما کی عیادت کے لیے خصوصی طور پر ہسپتال کا دورہ کیا اور چند لمحے بیمار نیلسن منڈیلا کے ساتھ گزارے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دل گرفتہ انداز میں بتایا کہ ان کے لیے یہ ناقابلِ یقین ہے کہ اپنے وقت کا بہادر اور چٹان کی طرح مضبوط شخص‘ بیماری سے شکست کھا چکا ہے۔ وہ بول نہیں سکتے مگر اپنے چہرے کے تاثرات اور آنکھوں کے ذریعے معمولی اظہار کے قابل ہیں۔ وہ اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ اپنا ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتے۔ اسی طرح لائف سپورٹ سسٹم پر منتقل ہونے کے بعد نیلسن منڈیلا کی خودنوشت تحریر کرنے والی افریقی مصنفہ شارلین سمتھ نے خصوصی اجازت نامے کے ساتھ نیلسن منڈیلا کی عیادت کی اور پھر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بہت ٹوٹے ہوئے لہجے میں بتایا کہ \"He is basically gone. He is not there\"۔ سائوتھ افریقہ میں کہیں شاعر اس عظیم شخصیت کو خدا حافظ کہنے کے لیے نظمیں لکھ رہے ہیں‘ کہیں مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو اٹھائے دعائوں میں مصروف ہیں‘ کہیں موسیقار المیہ دھنوں پر مشتمل گیت ترتیب دے رہے ہیں۔ کہیں چند دن پہلے کینسر کے مریض ننھے بچوں نے پانچ ہزار کپ کیکس کی مدد سے فادر آف دی نیشن کا پورٹریٹ بنا کر انہیں پچانویں سالگرہ کی مبارکباد دی۔ 18 جولائی 2013ء کو نیلسن منڈیلا پچانویں برس کے ہوگئے۔ اس کے باوجود کہ اُن کی صحت کی حالت یہ ہے کہ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا‘ مگر لوگ اپنے عظیم رہنما کی پچانویں سالگرہ منانے کے لیے پُرجوش نظر آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیلسن منڈیلا 20 ویں صدی کا وہ نام ہے جس نے اپنی لازوال جدوجہد سے دنیا بھر کے انسانوں سے احترام اور محبت حاصل کی ہے اور آج دنیا بھر میں نیلسن منڈیلا کی شخصیت کو ان تھک لگن اور غیر متزلزل جدوجہد کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے جس سائوتھ افریقہ میں آنکھ کھولی وہ نسلی امتیاز کی بدترین قسم Apartheid system کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ کالے رنگ کے سائوتھ افریقیوں کو اچھوت سمجھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ انسانوں سے بدتر سلوک ہوتا۔ قونو‘ گائوں کے ماڈیبا قبیلے میں جنم لینے والے نیلسن کو اس احساس نے تحریک آزادی کی اس عظیم جدوجہد کا حصہ بنا دیا جس نے بالآخر نسلی امتیاز کے تمام قوانین کا سائوتھ افریقہ میں خاتمہ کردیا۔ سائوتھ افریقہ گورنمنٹ کی نسلی امتیاز کی پالیسیوں کے خلاف پُرامن جدوجہد میں میرکارواں کی حیثیت سے حصہ لینے پر نیلسن منڈیلا کو اپنی عمر کے ستائیس قیمتی سال جیل میں گزارنا پڑے۔ ان کی تحریک کے ساتھی ان کے ساتھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ ان کڑے حالات میں بھی اس عظیم رہنما نے اپنی امید اور اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیئے رکھا بلکہ خود ان مشکل حالات میں ایسی زندگی گزاری جو ایسے تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو کٹھن حالات میں حوصلہ ہار دیتے ہیں۔ جیل میں رہ کر نیلسن منڈیلا نے یونیورسٹی آف لندن کے کارسپانڈنٹ پروگرام کے تحت بیچلر آف لاء کی ڈگری حاصل کی۔ 1990ء میں نیلسن منڈیلا جیل سے رہا ہوئے اور 1993ء میں انہیں پُرامن جدوجہد کرنے پر نوبل پرائز دیا گیا۔ اس نوبل پرائز میں سائوتھ افریقہ کے ایک اور رہنما بھی حصہ دار تھے۔ 1994ء میں وہ تاریخی لمحہ بھی آیا جب کالے رنگ‘ معمولی نقش و نگار کے حامل‘ نیلسن منڈیلا کو سائوتھ افریقہ کا پہلا بلیک صدر چن لیا گیا۔ کالوں کے خلاف نسلی امتیاز کے تمام قوانین ختم ہو گئے اور یوں آزادی کی ایک طویل جدوجہد ثمر آور ثابت ہوئی۔ نیلسن منڈیلا اب ایک داستانوی کردار کے حامل ہیں۔ ان کی شخصیت پر بے شمار لکھا گیا۔ خود انہوں نے اپنی داستان بھی تحریر کی اور اس کا نام ’’لانگ واک ٹو فریڈم‘‘ رکھا۔ 2005ء میں ریڈرز ڈائجسٹ کے لیے انٹرویو لیتے ہوئے صحافی نے پوچھا کہ سنا ہے جیل کے دنوں میں آپ کوئی نظم اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے سنایا کرتے تھے‘ وہ کیا تھی۔ 88 سالہ رہنما مسکرایا اور W.E Henley کی نظم کی چند لائنیں خوبصورت انداز میں دہرائیں۔ اس نظم کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس نظم کا ایک ایک حرف اس عظیم لیڈر کی شخصیت کا پرتو ہے۔ چند لائنیں پڑھیں۔ In the fell clutch of circumstance I have not winced nor cried aloud. Under the bludgeoning of chance My head is bloody, but unbowed. I thank whatever gods may be For my unconquerable soul. I am the master of my fate; I am the captain of my soul. زندگی کی شام‘ لائف سپورٹنگ سسٹم پر سانس لیتے ہوئے‘ نحیف و نزار نیلسن منڈیلا آج بھی دنیا کو اپنے صائب مقاصد کے لیے چٹان کی طرح ڈٹ جانے کا سبق دے رہے ہیں۔ نیلسن منڈیلا‘ اُٹھیے! دنیا آپ کی راہ میں آنکھیں بچھائی منتظر کھڑی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved