تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     24-09-2021

افغان کرکٹ لیگ اور کرکٹ کریسی

کہا جاتا ہے کہ امن نام کی کوئی چیز دنیا میں موجود نہیں‘ امن محض دو جنگوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے۔ آج کی جدید دنیا میں دیگر بہت سی جدتوں کے ساتھ جنگ یا حملہ کرنے کے طریقے بھی بدل چکے ہیں۔ اب آتشیں اسلحے کے بجائے 'نرم طاقت‘ سے دشمنوں کو ڈھیر کیا جاتا ہے۔ نرم، مخفی، دھیرے اور دیر پا طریقوں سے کیے جانے والے ان حملوں کو پانچویں نسل کی جنگ یعنی ففتھ جنریشن وار فیئر کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ کے محاذوں میں فلمیں، بیانات، غلط اور مصنوعی خبریں، شک و ابہام، پراکسی اور سائبر حملے وغیرہ شامل ہیں۔ کسی ملک کو خلفشار میں مبتلا یا اپنے زیر اثر رکھنے کیلئے کچھ ایسا کرنا کہ جو پہلے نہ ہوا ہو‘ ایک اہم طریقۂ واردات ہے۔ اس کا تازہ ترین اظہار برطانیہ کے مکمل زیر اثر چھوٹے سے ملک نیوزی لینڈ کی جانب سے دورۂ پاکستان کو فوری ختم کرتے ہوئے کرکٹ سیریز سے عین پہلے اسے منسوخ کر دینا ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی حرکت تھی جیسے فلموں میں عین رخصتی کے وقت دلہن شادی سے انکار کرتے ہوئے ہیرو کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے۔
کرکٹ کا کھیل برطانیہ نے ایجاد کیا تھا، جنوبی ایشیا میں اپنے غیر قانونی راج اوردورِ استحصال کے دوران وہ اس کھیل کا تحفہ اس خطے کو بھی دے گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کھیل نے دیگر مقامی کھیلوں کا شوق اور ان کی شہرت ماند ہی نہیں کر دی بلکہ تقریباً ختم کر کے رکھ دی۔ اس کی ایک بڑی مثال ہاکی کا کھیل ہے جس میں تاحال عالمی مقابلوں کی فہرست میں انڈیا اور پاکستان کے ریکارڈ نمایاں ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ گول کرنے والے پاکستان کے ہیرو سہیل عباس نے باقاعدہ طور پر اور بجا گلہ بھی کیا کہ لوگ تو انہیں پہچانتے تک نہیں۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لوگوں کے دماغوں میں کھیل کا صرف ایک ہی مطلب راسخ ہو چکا ہے اور وہ ہے کرکٹ! اس بات کو مزید کنفرم کرنے کیلئے آپ سوشل میڈیاپر کرکٹ اور دیگر کھلاڑیوں کے فالورز کی تعدادکا موازنہ کر سکتے ہیں۔ اسی لیے انتہائی محتاط رہتے ہوئے بھی مکمل اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں لوگ کرکٹ کے ساتھ عقیدے کی طرح کا لگائو رکھتے ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پورے جنوبی ایشیا میں کرکٹ سے عوام کا لگائو جنونی حد تک پایا جاتا ہے۔ اسی لیے مغربی طاقتوں نے بھونڈے اور بچکانہ طریقے سے ایک دورہ منسوخ کرایا اور اسی کی آڑ میں برطانیہ نے بھی اپنا دورہ منسوخ کر دیا جبکہ آسٹریلیا کی طرف سے بھی اس کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔ اس موقع پر پی سی بی کے نومنتخب چیئر مین رمیز راجہ کا کافی نڈر قسم کا بیان سامنے آیا ہے کہ یہ سب کچھ کمزور ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ دوسری طرف برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے مابین برطانیہ میں کھیلی جا رہی سیریز کے تیسرے ون ڈے میچ سے قبل نہ صرف نیوزی لینڈ کی ٹیم کو دھمکیاں موصول ہوئیں بلکہ اس کی وجہ سے ایک ٹریننگ سیشن بھی منسوخ کیا گیا، پھر میچ سے قبل بھی دھماکے کی افواہ پھیلی مگر اس سب کے باوجود میچ کا انعقاد کیا گیا۔ اسی میچ کے دوران ایک عالمی خاتون مبصر نے پاکستان میں موجود ہوتے ہوئے نیوزی لینڈ کی ٹیم کی جانب سے دورہ منسوخ کرنے کو اقدام کو حیران کن اور طاقتور ملکوں کی غیر مناسب حرکت قرار دیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ خیالات سکائی نیوز پر براہِ راست براڈ کاسٹ ہوئے۔ انگلینڈ کی جانب سے دورہ منسوخ کرنے کے بعدیہ تسلیم کیا گیا کہ دورہ سکیورٹی خدشات کے باعث منسوخ نہیں کیا گیا بلکہ اس حوالے سے حیران کن طور پر کھلاڑیوں کی ''تھکاوٹ‘‘ کو وجہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بڑی ٹیموں کی سیریز کو منسوخ کرانے میں بھارت کی کتنی زیادہ خواہش اور کوشش ہو سکتی ہے‘ اس کا بخوبی اندازہ آزاد کشمیر میں ہونے والی ٹی ٹونٹی پریمیر لیگ اور اس میں شرکت کے لیے آنے والے برطانوی اور جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کو روکنے کی بھارتی کوششوں سے کیا جا سکتا ہے۔ اس بات پر مہر تصدیق اس سازش میں استعمال ہونے والی ای میل ریکارڈز سے ثبت ہو جاتی ہے جو وفاقی وزرا نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں پیش کیے۔ اس حوالے سے جعلی اکائونٹس، جعلی ای میل ایڈریسز اور جعلی شناخت سمیت ہر چیز کا ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے،اس کے جواب میں ابھی تک بھارت کا کوئی ردعمل نہیں آنا اور ہر چھوٹی چھوٹی بات کا الزام پاکستان پر لگانے کے لیے تیار بیٹھی مودی انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے اپنے لب مکمل طور پر سیے رکھنا سب کچھ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔
جو ہو چکا‘ سو ہو چکا‘ اب بات اس کے حل اور مداوے کی ہے تو اس ضمن میں میرے خیال میں ایک چیز نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے یکطرفہ اقدام کا بہت بڑا جواب ہو سکتی اور اس سارے اثر کو نہ صرف زائل کر سکتی بلکہ اس منسوخی کے عمل کو غلط ثابت کر سکتی ہے‘ وہ ایک عالمی طرز کا مقابلہ ہے۔ اس کے لیے پی ایس ایل کو کسی نئی شکل میں متعارف کرایا جائے یا اس کا ایک خصوصی ایڈیشن کرایا جاسکتا ہے جس میں پوری دنیا سے کھلاڑیوں کو بلایا جائے، کھلاڑیوں کے علاوہ کمنٹری کرنے کے لئے بھی صرف عالمی شہرت یافتہ کمنٹیٹرز کو ہی بلایا جائے۔ ان تمام لوگوں کے اعزاز میں مختلف مقامات پر تقریبات منعقد کرکے ان کے انٹرویوز نشر کیے جائیں۔ اس کے لئے رمیز راجہ اپنے بیس سالہ کمنٹری کے تجربے اور غیر ملکی کمنٹیٹروں سے اپنے ذاتی تعلقات بھی بروئے کار لا سکتے ہیں۔ اسی طرح خود وزیراعظم عمران خان بھی اپنے ذاتی عالمی تعلقات کو استعمال کر سکتے ہیں ۔اسی طرز کے ایک کھیل کی پہلے بھی نشاندہی کر چکا ہوں کہ وہ عالمی کھلاڑی‘ جو اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں‘ ان کی بھی ایک مختصر لیگ کرائی جاسکتی ہے۔ اسی طرز کی ایک لیگ رواں سال مارچ میں بھارت نے بھی منعقد کرائی تھی۔ نہ صرف اس طرز کی ایک لیگ فوری طور پر کرائی جائے بلکہ اس کو ایک مستقل ایونٹ کا درجہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان ٹی ٹونٹی طرز کی کرکٹ کے بانیان میں سے ایک ہے جس نے اس طرز پر مقامی سطح کا ایک ٹونامنٹ کروایا تھا،جبکہ ٹی ٹونٹی کے سب سے پہلے چھکے کا اعزاز بھی سابق پاکستانی کپتان وسیم اکرم کے پاس ہے جنہوں نے 2003ء میں Hampshire Hawks اور Sussex Sharks کے مابین کھیلے جا رہے سب سے قدیمی ٹی ٹونٹی میچ میں یہ ریکارڈ قائم کیا تھا۔تو کیوں نا اب بھی کسی نئی طرز کی کرکٹ کا کوئی رنگ جمایا جائے۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے بھی بیس‘ بیس اوورز کے بجائے سو گیندوں کے میچ کرا کر ٹی ٹونٹی کو ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی تھی۔ اس ٹونامنٹ میں ایک اوور چھ گیندوں کے بجائے پانچ گیندوں کا رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ شارجہ میں سابقہ کھلاڑیوں کی فلاح یا مدد کیلئے بینی فشری میچز بھی کھیلے جاتے تھے، ان تمام تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی نیا تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اب بات ایک ایسے حل کی ہی ہے جو ہر لحاظ سے مکمل پیکیج اور ایک بہتر جواب ثابت ہو سکتا ہو۔
دوسری جانب افغانستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت کرکٹ کی پرانی اور مضبوط ٹیموں کے مقابل اٹھ رہی ہے اور بجا طور پر زمبابوے، کینیا، بنگلہ دیش، سکاٹ لینڈ، اور آئر لینڈ سے زیادہ مضبوط ٹیم بن چکی ہے۔ اس کے دو سپنر آل رائونڈر ز‘ راشد خان اور غلام نبی ٹاپ کھلاڑیوں کے طور پر بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔ افغانستان کی ٹیم اب تک اپنے ملک میں کوئی سیریز نہیں کھیل سکی تو کیوں نا افغانستان کو پاکستان میں ایک ٹی ٹونٹی سیریز کرانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس کیلئے 'اگر مگر ممالک‘ کے کھلاڑیوں کے بغیر افریقہ اور ایشیا کے کھلاڑیوں پر مشتمل ایفروایشیا کپ ٹورنامنٹ بھی کرایا جاسکتا ہے۔ ماضی میں ایک ٹورنامنٹ آسٹرلیشیا کپ ( ا ٓسٹریلیا اور ایشیا )کے نام سے تین مرتبہ 1986ء، 1990ء اور 1994ء میں منعقد ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ کے تینوں کپ پاکستان نے جیتے تھے۔ آپ کو یاد کرا دوں کہ اسی سلسلے کے پہلے ٹورنامنٹ کے فائنل میں جاوید میانداد نے آخری گیند پر چیتن شرما کو چھکا مار کر تاریخ رقم کی تھی۔ اب افریقہ سے زمبابوے، کینیا اور جنوبی افریقہ جبکہ ایشیا سے سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان اور نیپال کی ابھرتی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ میں ایک نیا رنگ بھرنے کا کام کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی شائقین کو متوجہ کرنے کیلئے عالمی سطح پر کھیلنے والے سکھ کھلاڑیوں کو بھی مدعو کیا جا سکتا ہے۔
اب گیند پی سی بی کے کورٹ میں ہے‘ جو بھی کرنا ہے‘ وہ فوری کرنا چاہیے، کیونکہ اس وقت کافی امکانات میسر ہیں، بصورت دیگر منسوخ دورے کا ذکر بلند ہوتا رہے گا اور اس ذکر کی آڑ میں ہم خود بھی پروپیگنڈا جال کا شکار ہو رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved