جس حساب سے موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات مان رہی ہے‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد شرحِ سود میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔ ماضی میں جب ڈالر 169 روپے تک گیا تھا اس وقت شرحِ سو د تقریباً 13 فیصد کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد سٹیٹ بینک نے مداخلت کر کے شرحِ سود اور ڈالر کا ریٹ کم کیا تھا۔ اس وقت مہنگائی کی شرح تقریباً ساڑھے آٹھ فیصد ہے۔ مارکیٹ اصولوں کے مطابق مہنگائی کی شرح میں دو پوائنٹس جمع کر کے شرحِ سود طے کی جانی چاہیے۔ اگر اس اصول پر عمل کر لیا گیا تو شرحِ سود تقریباً ساڑھے دس فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ سٹیٹ بینک کی بہتر حکمت عملی کی بدولت شرحِ سود میں بڑا اضافہ نہیں ہوا۔ شرحِ سود میں مطلوبہ اضافے کی صورت میں روپے کی قدر مزید کم ہو سکتی ہے جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ڈالر کے حوالے سے سٹیٹ بینک کی مداخلت نہ ہونا ممکن نہیں۔ پچھلے تین ماہ میں ڈالر کواپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کے لیے حکومت تقریباً ایک ارب بیس کروڑ ڈالرز مارکیٹ میں ڈال چکی ہے۔ تحریک انصاف سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی ناقد رہی ہے لیکن موجودہ حکومت اب خود بھی اسی طریقہ کار سے نظام چلاتی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے ایک سال تک آئی ایم ایف کی شرائط نہیں مانیں لیکن بالآخر حکومت کو آئی ایم ایف کے سامنے جھکنا پڑا اور بجلی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ آٹے اور چینی کی تجارت کو حکومتی تسلط سے باہر نکالنے کی تجویز بھی بہتر محسوس ہوتی ہے۔ اس سے مقابلے کی فضا قائم ہو سکے گی اور عوام کو سستی اشیائے خورونوش مل سکیں گی۔
ایک طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور دوسری طرف وزیر اور مشیر عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات کی بھرمار ہے جس سے یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ سرکار کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کا سارا زور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹے سچے اعدادوشمار پیش کرنے پر ہے۔ وزرا جب عوام اور میڈیا کو قائل نہیں کر پاتے تو انہیں کنفیوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ آج کل کئی وزرا یہ دعویٰ کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ پاکستان میں تیل کی قیمت برطانیہ اور یورپ کی نسبت بلکہ پورے خطے میں سب سے کم ہے۔ برطانیہ میں ایک لیٹر پٹرول ایک پاؤنڈ تیس پینس کا ہے جو پاکستانی روپوں میں تقریباً تین سو روپے بنتا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 123 روپے 80 پیسے فی لیٹر میں پٹرول دستیاب ہے۔ ایسے افراد سے گزارش ہے کہ وہ عوام کو یہ بھی بتائیں کہ برطانیہ میں ایک گھنٹہ کام کرنے کی کم سے کم اجرت تقریباً سات پاؤنڈ ہے۔ اگر دن میں آٹھ گھنٹے کام کیا جائے تو 56 پاؤنڈز کمائے جا سکتے ہیں جو پاکستانی کرنسی میں 12936 روپے بنتے ہیں‘ اس سے تقریباً 43 لیٹر پٹرول خریدا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان میں ایک دن کی کم از کم اجرت تقریباً چھ سو روپے ہے جس سے ساڑھے چار لیٹر پٹرول ہی خریدا جا سکتا ہے۔ اگر اس طرح اشیا کی قیمتوں کا موازنہ کرنا ہے تو مکمل طور پر کیا جائے‘ یکطرفہ اعدادوشمار پیش کر کے سوشل میڈیا پر تشہیری مہم تو چلائی جا سکتی ہے لیکن انفارمیشن کے اس دور میں عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے حکومتی موقف لینے کے لیے میں نے ڈاکٹر سلمان شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ موجودہ مہنگائی کی اصل ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی اصل وجہ بجلی اور تیل کی ناقابلِ برداشت قیمتیں ہیں۔ بجلی بنانے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار بہت زیادہ ہے یعنی ہم ایک طرح سے بجلی بھی درآمد کر کے استعمال کرتے ہیں۔ پچھلی حکومتوں نے ڈیمز بنانے کی طرف توجہ نہیں دی بلکہ یہ ڈیمز کی مخالفت کرتی رہیں۔ آج بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کافی بڑھ گئی ہیں جس سے بجلی سمیت ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے‘ لہٰذا اب یہ مہنگائی کا شور مچا رہے ہیں۔ 2014ء سے 2018ء تک عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم رہی ہیں۔ یہ وقت تھا کہ ملکی قرضے اتارے جاتے تا کہ آنے والے سالوں میں سود کی ادائیگیوں سے ڈالرز کی قیمت نہ بڑھتی لیکن انہوں نے مزید قرض لے کر معیشت پر دباو بڑھایا جس کا خمیازہ آج پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔
ڈالر کی بڑھتی قیمت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کی قیمت توقع سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میرے مطابق یہ 160 سے 165 کے درمیان رہنا چاہیے۔ حکومت اس حوالے سے اقدامات کر رہی ہے جس کا اثر جلد ہی نظر آئے گا۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی ایک بڑی وجہ افغانستان بھی ہے۔ پاکستان سے ڈالر افغانستان سمگل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جب تک افغان معیشت سنبھل نہیں جاتی‘ تب تک ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھنے میں مسائل پیش آتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بے جا مہنگائی کرنے والوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ صدرِ مملکت نے پاکستان فوڈ سکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس جاری کر دیا ہے جس کے مطابق‘ بغیر کسی وجہ کے مہنگائی کرنے والوں کو 6ماہ قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکتی ہیں۔
ڈاکٹر سلمان شاہ صاحب کی رائے محترم ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا سارا زور اپوزیشن کو برا بھلا کہنے پر ہے۔ اپنا احتساب کرنے کے بجائے پچھلی حکومتوں کو کوسنا آسان عمل ہے لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنا احتساب کرے۔ تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت بنائے آٹھ سال اور وفاق میں حکومت کرتے تین سال ہو چکے ہیں۔ ان سالوں میں کتنے ڈیم بنے اور کتنی بجلی پیدا کی گئی‘ یہ سب عوام کے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے کمزور معاشی حالات کا ملبہ افغانستان پر ڈال دینا بھی مناسب نہیں ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم صاحب نے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں کمی کی وجوہات کے بارے میں استفسار کیا تو بھی انہیں یہی بتایا گیا کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان نہیں آ رہے۔ جس پر وزیراعظم نے ناراضی کا اظہار کیا اور حقیقی وجوہات پر کام کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ڈاکٹر صاحب سے گزارش ہے کہ ڈالر کے معاملے میں افغانستان کے حالات کو ڈھال کے طور پر استعمال نہ کریں بلکہ عوام کو اصل وجوہات بتائیں تا کہ عوام اس نتیجے پر پہنچ سکیں کہ مستقبل میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی جائے یا کوئی اور راہیں تلاش کی جائیں۔ اگر حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے ملکی قرض اتارنے کی بات کی جا رہی ہے تو کورونا کے دنوں میں تیل کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئی تھیں۔ عوام کو یہ بھی بتائیں کہ تحریک انصاف نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کتنا ملکی قرضہ کم کیا۔ اس کے علاوہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کر دینا یا آرڈیننس پاس کر دینا فرسودہ طریقے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے لیکن کوئی تبدیلی نہیں آسکی کیونکہ ایسے قوانین صرف فائلوں کی زینت بنتے ہیں‘ ان پر عملدرآمد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
حالاتِ حاضرہ کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ملک معاشی طور پر نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور بچت کے مواقع تقریباً ناپید ہو گئے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ عوامی فلاح کے لیے مثبت اقدامات کرے۔ اگر مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے تو عوام کی آمدن میں اضافے کے مواقع پیدا کرے۔ شوکت ترین صاحب حالیہ پریس کانفرنس میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم عوام کی آمدن بڑھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار اپنی ناکامیوں کی وجوہات تلاش کرے‘ اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرے‘ ان پر قابو پانے کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کی جائے اور پھر اس حکمت عملی پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اسی صورت میں اگلے دو سالوں میں مثبت تبدیلی آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔