تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     25-09-2021

الیکشن کمیشن اور حکومت

بھارت کے پہلے وزیر اعظم پندٹ جواہر لال نہرو کی موت (1964) کے بعد لال بہادر شاستری وزیر اعظم بنے تو ان کی کابینہ میں اندرا گاندھی بحیثیت وزیر اطلاعات شامل تھیں۔ اس وقت ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ شاستری کی کابینہ میں اگر کوئی ''مرد ہے تو وہ صرف اندرا گاندھی ہیں‘‘۔ اس کی وجہ اندرا گاندھی کی شخصیت تھی‘ جس میں تکبر‘ احساسِ برتری‘ ضد‘ کروفر اور 'ہم چو ما دیگرے نیست‘ والی ذہنیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کیونکہ وہ خود کو کانگریس کی ورکر سمجھنے کے بجائے بھارت کے مشہور‘ دولت مند سیاستدان اور وکیل پنڈت موتی لال نہرو کی پوتی اور جواہر لال نہرو کی بیٹی سمجھتی تھی۔ 1966 میں تاشقند میں شاستری کی اچانک موت کے بعد اقتدار کی جنگ میں اندرا گاندھی نے آسانی سے مرارجی ڈیسائی جیسے سینئر اور جہاندیدہ سیاستدان کو شکست دے کر اپنی شخصیت کا لوہا اپنے تمام سیاسی مخالفین سے منوا لیا‘ لیکن کمال ہے بھارت کی جمہوریت اور جمہوری اداروں خصوصاً عدلیہ اور الیکشن کمیشن آ ف انڈیا کا‘ جنہوں نے طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور اندرا گاندھی اور دیگر بڑے بڑے سیاستدانوں کا غرور خاک میں ملا دیا۔
1975 میں جب اندرا گاندھی کے اقتدار اور طاقت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا‘ اور ملک میں کسی پارٹی‘ شخصیت اور ادارے کو ان کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی‘ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 1971 کے انتخابات میں یوپی کے حلقہ رائے بریلی سے لوک سبھا کی سیٹ پر اندرا گاندھی کی کامیابی کو کالعدم قرار دے دیا اور بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیتنے والی وزیر اعظم کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا تھا۔ عدالت نے یہ فیصلہ ان کے مدمقابل سوشلسٹ پارٹی کے رہنما راجہ نرائن کی پٹیشن پر کیا تھا‘ جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم (اندرا گاندھی) نے 1971 کے انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران سرکاری وسائل کا استعمال کیا تھا۔ اندرا گاندھی نے یہ سیٹ ایک لاکھ دس ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتی تھی اور ان کی پارٹی آل انڈیا کانگریس نے لوک سبھا کی 518 میں سے 352 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے پارلیمانی انتخابات میں فقیدالمثال اکثریت حاصل کی تھی‘ لیکن سیاسی طور پر توانا ہونے کے باوجود وہ اپنی عدلیہ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں‘ البتہ اسی سال انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا اور سیاسی مخالفین ‘ صحافیوں اور ایمرجنسی کو ہدف بنانے والے دیگر حلقوں سے جیلیں بھر دیں‘ مگر یہ اقدام اندرا گاندھی کو مہنگا پڑا۔ 1977 کے انتخابات میں ان کی پارٹی حزبِ مخالف کی مختلف پارٹیوں پر مشتمل سیاسی اتحاد ''جنتا پارٹی‘‘ سے ہار گئی اور ان کے سب سے بڑے مخالف مرارجی ڈیسائی بھارت کے پہلے نان کانگریس وزیر اعظم بن گئے۔
اندرا گاندھی کی آمرانہ حکومت کے زوال کے نتیجے میں بھارت میں جن جمہوری اداروں کو سب سے زیادہ فروغ ملا ان میں عدلیہ اور میڈیا کے علاوہ الیکشن کمیشن آف انڈیا بھی شامل تھا۔ اندرا گاندھی کا غرور خاک میں ملنے اور کانگریس کی مرکزیت پرستی کی سیاست کے زوال سے پہلے بھارت میں الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو کوئی سیاستدان یا سیاسی پارٹی اہمیت دینے کو تیار نہ تھی بلکہ یہ کہا جاتا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کے نتائج کا اعلان کرنا ہے‘ لیکن جوں جوں بھارت میں جمہوریت کی جڑیں گہری ہوتی گئیں‘ انتظامیہ کی آمریت کی جگہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی نے لینا شروع کی۔ جمہوری ادارے اور سویلین بالا دستی کے اصول‘ دونوں مضبوط ہوتے گئے۔ اس تاریخی عمل سے مستفید ہونے والے اداروں میں الیکشن کمیشن آف انڈیا خاص طور پر نمایاں ہے۔
الیکشن اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کی تاریخ میں بعض شخصیات ایسی بھی گزری ہیں‘ جنہوں نے اس عمل کو آگے بڑھانے اور مضبوط کرنے میں ایسی ان مٹ مثالیں قائم کیں کہ ان کے بعد ہر آنے والے کو ان پر لازماً عمل پیرا ہونا پڑا۔ ان میں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشان (T. N. Seshan) کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے آئین میں درج اختیارات کو دیانت داری اور جرأت کے ساتھ استعمال کرکے اپنی شخصیت کی ایسی دھاک بٹھائی کہ ان کے دور میں مشہور تھا‘ بھارتی سیاستدان صرف دو چیزوں سے ڈرتے ہیں‘ ایک اپنے بھگوان سے اور دوسرے چیف الیکشن کمشنر سیشان سے۔ بھارت میں الیکشن کمیشن کے موثر اور طاقتور ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عدلیہ کے سینئر اور ریٹائرڈ ججوں کے بجائے ایڈمنسٹریٹو سروس آف انڈیا سے تعلق رکھنے والے سینئر یا ریٹائرڈ افسروں کو بطور چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا جاتا تھا۔ چونکہ ان افسروں کو اپنے سارے دورِ ملازمت میں سیاستدانوں سے پالا پڑتا تھا‘ اس لیے انہیں ہینڈل کرنا وہ خوب جانتے تھے۔
اندرا گاندھی اور کانگریس کی سیاست کے زوال اور الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ایک مفلوج ادارے سے مستعد اور غیرمعمولی طور پر فعال ہونے کی داستان پر مبنی یہ طویل تمہید اس لیے باندھی ہے کہ آج کل پاکستان میں بھی الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے کردار اور دائرہ اختیار پر ایک تنازع چل رہا ہے۔ تنازع کا اصل سبب آئندہ (2023) کے انتخابات میں حکومت کی طرف سے ہر قیمت پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) استعمال کرنے کا اعلان ہے‘ لیکن الیکشن کمیشن نے 37 تحفظات کا اظہار کرکے اس پر مزید تحقیق اور تیاری کا مشورہ دیا ہے۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کے ان تحفظات کو رد کرکے چیف الیکشن کمشنر پر سیاست کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس مہم کی قیادت وفاقی کابینہ کے دو ارکان اعظم سواتی (وزیرِ ریلوے) اور فواد چودھری (وزیرِ اطلاعات) کر رہے ہیں‘ جنہوں نے چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر حیات کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر اپوزیشن کی زبان بولنے کا الزام لگاتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔یاد رہے کہ حزبِ اختلاف میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی اور میڈیا کے بعض حصوں نے بھی دنیا کے باقی ملکوں میں ای وی ایم کے استعمال سے پیدا ہونے والی مشکلات کا حوالہ دے کر مشینی ووٹنگ پر تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مزید مشاورت کی سفارش کی ہے‘ لیکن ای وی ایم کے استعمال پر حکومت کے یکطرفہ فیصلے اور عجلت کو دیکھ کر اپوزیشن یہ الزام عائد کرنے پر مجبور نظر آتی ہے کہ حکومت 2023 کے انتخابات میں ای وی ایم کے ذریعے دھاندلی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
میری نظر میں پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک ایسے شخص نے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا ہے جس نے حکومت کے یکطرفہ اور آئین کی روح کے منافی فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیا ہے بلکہ غیرقانونی اقدامات کا نوٹس لے کر مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ گزشتہ سال ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں دو درجن سے زائد پریزائیڈنگ افسروں کے الیکشن ریکارڈز کے ہمراہ اغوا میں انتظامیہ کے کچھ ارکان کا مبینہ کردار اس کی ایک مثال ہے۔ اس سے پہلے کسی چیف الیکشن کمشنر نے حکومت کے غیر آئینی یا یکطرفہ اقدامات کا ڈٹ کر سامنا نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ الیکشن کمیشن کے محدود اختیارات اور کمزور پوزیشن کے علاوہ یہ بھی تھی کہ ہر حکومت ایسے من پسند فرد کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کرتی‘ جو اس کی خواہشات کو آنکھیں بند کرکے پورا کرنے پر آمادہ ہوتا تھا۔ الیکشن کمشنر کی تعیناتی کو وزیر اعظم اور لیڈر آف دی اپوزیشن کے مابین بامعنی مشاورت سے مشروط کرکے الیکشن کمیشن کے دیرینہ عدم تحفظ کو دور کیا گیا۔ ظاہر ہے کسی بھی حکومت‘ جو انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے پر تلی ہو اور ایک الیکشن کمیشن‘ جو بے خوف و خطر غیرآئینی اور غیر قانونی اقدام کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو‘ کے مابین تنازع ناگزیر ہے۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ وہی کہانی پاکستان میں دہرائی جا رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved