تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     25-09-2021

شاید ہم کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے!

ویسے تو معاشرے میں عدم برداشت عام ہے اور ہر کوئی معمولی بات پر مرنے مارنے پر اُتر آتا ہے لیکن مہربانوں کی مہربانی سے یہ سلسلہ اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی کامیابی کے ساتھ منتقل ہو چکا ہے۔ فیس بک ہویا وٹس ایپ یا کوئی اور ایسی جگہ جہاں صارفین کو اپنے خیالات جھاڑنے کی اجازت ہو‘ وہاں آپ کو ویسے ہی مناظردکھائی دیں گے جیسے چوک چوراہوں پر ہونے والے جھگڑوں کی شکل میں دیکھے جا تے ہیں۔ جیسا کہ سڑکوں پر ہوتا ہے کہ کبھی کسی کی نئی گاڑی کے ساتھ کسی کی پرانی چھوٹی گاڑی کا بمپریا کسی موٹر سائیکل کا پہیہ ہلکا سا ٹچ ہو جائے اور چاہے اس سے اگلی گاڑی کو خراش تک نہ آئی ہو تب بھی وہ بندہ ایک مرتبہ گاڑی سے باہر ضرور آئے گا اورباریکی بینی سے اپنی گاڑی پر لگنے والی ممکنہ خراش کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اور پانچ دس منٹ یونہی ہنگامہ کرے گا‘ لوگ اکٹھے ہوں گے‘ بیچ بچائو کرائیں گے اور اس کے بعد وہ شخص گالیاں بکتا اور غریب کی موٹر سائیکل یا گاڑی کو ٹھڈے مارتا ہوا اپنی گاڑی میں جا بیٹھے گا۔ اگر اس کے ساتھ مزید دو چار لوگ یا سکیورٹی گارڈ ہوں گے تو وہ دوسرے کی دھلائی بھی کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ اس نے ہارن کیوں بجایا‘ میری گاڑی کو کراس کیوں کیا‘ میری طرف دیکھا کیوں‘ سگنل کھل گیا تھا تو گاڑی چلانے میں چند لمحات کی تاخیر کیوں کی‘ یہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر لوگ ایک دوسرے کی جان تک لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پرلوگوں کے یہ جھگڑے آن لائن بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان فورمز پہ ایسی دھماچوکڑی مچتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ مجال ہے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کیا جائے۔ ہر کوئی اپنی رائے دوسرے پر ٹھونسنا چاہتا ہے۔ آپ یہاں کسی معاملے میں اپنی کوئی رائے دے کر تو یکھیں آپ کو چند ایسے کمنٹس ملیں گے جو آپ کا دماغ گھما کر رکھ دیں گے۔ آپ تو اپنی طرف سے بڑی سلجھی ہوئی پوسٹ کریں گے‘ معاشرے کی کسی برائی کو اجاگر کرتے ہوئے اس کا حل پیش کریں گے یا صرف اتنا بھی لکھ دیں گے کہ بچوں کو والدین کا احترام اور ان کا خیال رکھنا چاہیے تو اس کے جواب میں بھی کئی کمنٹس ایسے آئیں گے جو آپ کو چکرا کر رکھ دیں گے‘ مثلاً کوئی شخص لکھے گا کہ کیا بچوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کا خیال رکھیں۔ آپ ایسے بندے کو سلیقے سے سمجھانے کی کوشش کریں گے تو وہ آگے سے مزید الجھے ہوئے کمنٹس کرے گا اور آپ کو اس بات پر افسوس کرنے پر مجبور کر دے گا کہ آپ نے ایسی پوسٹ کی کیوں۔
وٹس ایپ گروپوں کا بھی بہت دلچسپ حشر ہوتا ہے۔ وٹس ایپ دنیا میں دو ارب لوگ اسی طرح استعمال کر رہے ہیں جیسے نہانے کا صابن یا بالوں میں کی جانے والی کنگھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وٹس ایپ چیک کیا جائے لیکن سارا دن وقفے وقفے سے بھی یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے اور میں خود بھی سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا میں اگر کوئی مفید ترین ایجاد ہے تو وہ وٹس ایپ ہے کیونکہ اس میں صارفین کے پاس کم از کم کچھ نہ کچھ اختیار ضرور ہوتا ہے کہ وہ مرضی کے بندے سے انفارمیشن لے سکتے ہیں وگرنہ سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز تو اتنی گہری کھائی بن چکے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ گر گئے تو باہر نکلنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ وٹس ایپ پر اگر کسی جانب سے کوئی غیر ضروری کال یا پیغام آتا ہے تو آپ فوری بلاک کر سکتے ہیں؛ تاہم یار دوستوں نے اسے بھی دل لگی کا مرکز بنا لیا ہے۔ بہت سے وٹس ایپ گروپ تو باقاعدہ غیبت کی محفلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جہاں دنیا جہاں کی ہر برائی کا ذکر تواتر سے کیا جاتا ہے سوائے اپنی ذات کے۔ ننانوے فیصد وٹس ایپ گروپوں کا انجام لڑائیوں یا غیرضروری پوسٹس کی بھرمار پر ہوتا ہے۔ شروع میں بڑے ذوق و شوق سے گروپ بنایا جاتا ہے۔ درجنوں جانے انجانے افراد کو شامل کیا جاتا ہے۔ اگلے دو تین دنوں میں متعدد مرتبہ گروپ کا نام اور سٹیٹس پر لگی تصویر تبدیل کی جاتی ہے۔ کچھ اجنبی لوگ جو‘ پہلے ہی گروپوں سے تنگ ہوتے ہیں فوراً لیفٹ کر جاتے ہیں۔ کچھ مقصد تو گروپ کے نام سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے ‘ اس کے باوجود گروپ ایڈمن تفصیل سے گروپ کے مقاصد بیان کرتا ہے جس پر بہت سے لوگ واہ واہ کرتے ہیں۔ گروپ بنانے کی کامیابی پر ایڈمن کو مبارک بادوں کے پیغام بھیجتے ہیں۔ کئی تو یہاں تک لکھ دیتے ہیں کہ یہ گروپ بنا کر آپ نے دنیا کی سب سے بڑی مشکل حل کر دی ہے۔ بعد میں انہی لوگوں کی جانب سے اِدھر اُدھر کی غیر ضروری پوسٹس اس گروپ میں فارورڈ ہونا شروع ہو جاتی ہیں تو گروپ ایڈمن کی جانب سے انہیں وارننگ دی جاتی ہے۔پھر جب ایڈمن کی جانب سے صبح بخیر جیسا کوئی پیغام بھیجا جاتا ہے تو وہی شخص جسے ایڈمن نے متعلقہ پوسٹس پر ڈانٹا ہوتا ہے‘ اُلٹا ایڈمن کے لتے لینے لگتا ہے۔ اسی اثنا میں گروپ کا کوئی ممبر جس نے نیا نیا یوٹیوب چینل بنایا ہوتا ہے وہ گروپ میں اس کا لنک شیئر کر کے چینل اور ویڈیو کو لائیک سبسکرائب اور شیئر کرنے کی درخواست کر دیتا ہے اور بلاناغہ اپنے چینل کا ویڈیولنک نہ صرف اس گروپ میں بھیجتا ہے بلکہ دیگر تمام گروپوں کو بھی بھیج دیتا ہے حتیٰ کہ ان گروپوں میں شامل لوگوں کو انفرادی طور پر بھی یہ لنک بھیجنے سے باز نہیں رہتا اور یوں بیشتر جگہوں پر اسے بلاک کر دیا جاتا ہے۔
آپ کوئی بھی وٹس ایپ گروپ کھول لیں آپ کو اس میں سے گروپ سے متعلقہ اصل اور ضروری مواد انتہائی مشکل سے ملے گا۔ اِدھر اُدھر کی خبروں‘ وائرل ویڈیوز اور خبروں کے لنک‘ سیلفیوں اور ذاتی زندگی سے متعلق تصاویر کی بھرمار دکھائی دے گی اور اگر آپ ان چیزوں کو دیکھنے لگ گئے تو پھر آپ کا بہت سا اہم وقت اس میں ضائع ہو جائے گا۔ باقی رہی سہی کسر ڈسکشنز کے دوران ہونے والے جھگڑوں میں نکل جائے گی۔ کوئی اجنبی شخص اچانک گروپ کے کسی معزز یا سینئر ممبر کی پوسٹ پر کوئی اعتراض لگا دے گا جس پر وہ سینئر ممبر گروپ لیفٹ کر جائے گا اور ایڈمن اسے واپس لانے کیلئے اس کے ترلے منتیں کرتا پھرے گا۔جس نے وٹس ایپ بنایا ہو گا اس نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ہم اس کا کیا حشر کریں گے اور اتنی مفید ایپ کو بھی ذاتی عناد کا شکار کر دیں گے۔اس کا سب سے اچھا فیچر بول کر کوئی پیغام بھیجنا ہے کیونکہ بیس تیس سیکنڈ یا ایک ڈیڑھ منٹ کے آڈیو پیغام میں صارف انتہائی ضروری بات ہی کرتا ہے لیکن بعض لوگ پھر بھی کال کرنے پر مصر رہتے ہیں۔ایسے ہی ایک صاحب مجھ سے ناراض ہو گئے کہ وہ بیرون ملک سے کسی موضوع پر مجھے کال کرنا چاہتے تھے اور وہ بھی رات کے گیارہ بجے۔ میں نے کہا آپ آڈیو میسج بھیج دیں میں سن کر مناسب وقت پر جواب دے دوں گا۔ انہوں نے برا مان لیا اور لکھا کہ نہیں ایسی کوئی ارجنٹ بات بھی نہیں تھی‘ پھر کبھی کال کر لوں گا۔ اگلے روز پھر انہوں نے وٹس ایپ کال کر دی اور اس بار ویڈیو کال آ رہی تھی۔ میں آفس کام میں مصروف تھا۔ اب اس ویڈیو کال کو بھی ریجیکٹ کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ تاہم اس واقعے سے یہ یقین ہو گیاکہ ہم واقعی ایک شاندار اور عظیم قوم ہیں‘ہم بادشاد لوگ ہیں جیسی چاہے جدید ٹیکنالوجی آ جائے‘ موبائل فون کے جتنے مرضی جدید ماڈل آ جائیں‘انٹرنیٹ ہمارے لیے ہزاروں لاکھوں آسانیاں پیدا کر دے لیکن شاید ہم کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved