تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     25-09-2021

اگر طالبان کو گرایا گیا

26اگست 2018ء کی شام جب یہ خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں تو ناقابل یقین لگ رہی تھیں۔ اشرف غنی حکومت کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ روسی یا تاجکستانی جہازوں نے افغانستان کی شمال مشرقی سرحد پر طالبان اور تاجک سرحدی فورسز کے مابین ہونے والی ایک جھڑپ کے دوران تخار صوبے کی تریان بستی کے جنگلوں پر بمباری کی ہے جس میں آٹھ طالبان ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ۔ اس پر رائٹرزکی جانب سے یہ رپورٹ کیا گیاکہ یہ حملہ طالبان پر نہیں بلکہ منشیات کے سمگلروں پر کیا گیا کیونکہ روس سے امریکا اور یورپ کو سب سے بڑی شکایات ہی یہ تھیں کہ اس کی حدود سے یورپ میں منشیات کی سمگلنگ بڑھتی جا رہی ہے۔ افغان تاجک سرحد کے قریب جب یہ واقعہ پیش آیا‘ اسی دن سے یہ کہا جانے لگا تھا کہ کل کو اگر امریکا افغانستان سے مکمل طور پر واپس جاتا ہے تو وہ روس کو پنج شیر، تاجکستان اور طالبان کی نگرانی کا فریضہ دے کر جائے گا اور اس سلسلے میں ان میں باہمی معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ روس کے سرکاری اطلاعاتی ادارے سپوتنک کی یہ خبر بھی سامنے رکھیں جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ امریکا افغانستان سے جانے کے بعد اس کے ہمسایہ ملک‘ ازبکستان‘ جس کا روس سے دفاعی یا دوسرا کوئی معاہدہ نہیں‘ میں اپنے فوجی دستے اور سازو سامان رکھنے کا خواہشمند ہے لیکن ازبکستان ابھی تک امریکا کو رضامندی کا اشارہ نہیں دے رہا۔ یہی کچھ امریکا کے سابق اتحادی پاکستان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اب امریکا کو کسی قسم کے فوجی اڈے دینے کیلئے تیار نہیں۔
روس کا یہ خیال ظاہر کرنا کہ طالبان اس کے وسطی ایشیا کے اتحادیوں کیلئے کسی بھی وقت خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں‘ ایک انتہائی کچے ذہن کے وسوسے کے سوا کچھ نہیں بلکہ روس کا یہ سوچنا ''ندی کے پانی پر میمنے اور بھیڑیے‘‘ کی کہانی کو دہرانے کی ہی ایک کاوش لگتی ہے۔ یقینا روس ایک حد سے آگے نہیں جائے گا کیونکہ طالبان کیلئے چین اور روس کے ارادے اور پروگرام‘ جنہیں مشترکہ مفاد کا نام بھی دیا جا سکتا ہے‘ اچھے اشارے دے رہے ہیں۔ آج کی طالبان حکومت یقینا بہت کچھ سیکھ چکی ہے اور وہ دنیا کے کسی بھی ایسے ملک‘ جو ان کے بارے میں رتی بھر بھی نرم خیالات اور ہمدردی رکھتا ہے‘ اُن کی طویل جدو جہد کو ناکام بنانے کی سازش سے دور ہے‘ کے لیے ان کے جذبات ایک اچھے دوست اور ایک سچے ہمدرد کے سے رہیں گے۔ آج افغانستان اور طالبان کو جس قدر دنیا کی توجہ اورہمدردی کی ضرورت ہے‘ شاید اس سے پہلے کبھی نہیں رہی۔ خود اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے افغانستان میں بدترین قحط کے خدشے سے آگاہ کر رہے ہیں‘ اس کے باوجود افغان حکومت کے بلینز آف ڈالر کے اثاثہ جات منجمد کیے جانے پر تمام ادارے خاموش ہیں۔ اگرچہ جنگ زدہ افغانستان کے حالات ایک عرصے سے ایسے ہی چلے آ رہے ہیں مگر اس وقت طالبان اور افغان عوام کو ایک مہذب اور اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنائے جانے والے نظام اور طور طریقوںکے تحت معیشت، روزگار، تجارت اور امن و امان کو دوام دینے کے لیے بیرونی مدد کی ضرورت ہے اور یہ حالات امریکا سمیت یورپ اور عالم اسلام سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
آج سب کو افغانستان کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں اور افغان عوام کو بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے‘ علاج سے تعلیم تک‘ روزگار سے معاشرے کی اصلاح تک‘ ہر پہلو کو ان کیلئے مفید بنانے کیلئے اپنے وسائل بروئے کار لانا ہوں گے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اپنی سازش یا منصوبے سے طالبان کو ناکام بنا کر کوئی بہت بڑا کام کر رہا ہے تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ اُس کے اس عمل سے پھیلنے والی چنگاریاں دوسروں کے علا وہ خود اس کا دامن جلانے کیلئے سب سے پہلے اسی کی جانب لپکیں گی۔ یہ نکتہ افغانستان سے منسلک ہر اس مملکت کے علم میں ہے کہ تاجکستان‘ جس کی سرحد افغانستان کے ساتھ منسلک ہے‘ نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے روس سے ایک معاہدہ کر رکھا ہے گو کہ یہ معاہدہ اس لیے کیا گیا تھا کہ اگر افغانستان سے کسی بھی شدت پسند گروہ، کسی تنظیم یا کسی بھی شکل میں کسی پرائیویٹ لشکر یامسلح جماعت کے افراد تاجکستان میں گھسنے کی کوشش کریں تو ایسی صورت میں روسی فوجیں ان کے مقابلے میں آئیں گی۔ دوسری جانب ازبکستان کی بات کریں تووہ طالبان کی افغانستان میں حکومت آنے سے پہلے سے افغان حکومت کو بار بار کہتا چلا آ رہا ہے کہ وہ ان کے ملک سے متصل اپنی سرحدوں سے مجرموں اور دہشت گردوں سمیت دوسرے تمام لوگوں کی ناجائز نقل و حرکت کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کرے۔ اب اگر موجو دہ صورت حال سامنے رکھیں تو ابھی تک روس کی تمام تر ہمدردیاں طالبان کی موجودہ حکومت کے ساتھ دیکھی جا رہی ہیں اور طالبان نے روسی انتظامیہ کو کابل میں خصوصی دعوت دیتے ہوئے حکومت کی تشکیل سازی میں مدد اور مشوروں کیلئے بھی بلایا تھا۔ اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ روس جلد ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والوں میں شمار ہو جائے گا۔ یہ بات اب کسی کیلئے راز نہیں کہ روسی صدر پیوٹن نے گزشتہ بیس برسوں میں امریکا کے خلاف طالبان کی کافی حد تک مدد بھی کی جس کا سب سے زیادہ ادراک امریکیوں کے علا وہ اور کسے ہو سکتا ہے کہ روسیوں نے کس طرح اپنا بدلہ چکایا ہے۔ اس لئے کچھ حلقے اب یہ سوالات اٹھا رہے یا ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پنج شیر یا کسی بھی دوسری وجہ سے روس کے پاس کئی بہانے ہیں کہ وہ ایسے وقت میں‘ جب امریکا اور نیٹو فورسز افغانستان سے جا چکی ہیں‘ اپنے کئی سٹریٹیجک مفادات کے حصول کیلئے فوجی مداخلت کرنے کی کوشش کرے۔
میری نظر میں اس خیال کو ایک ادھورے ذہن کی سوچ کے سوا ور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ روس‘ جوکل تک امریکا سے بازی ہار کر گھر بیٹھ چکا تھا‘ اب دوبارہ اٹھان کی کوششوں میں ہے لیکن ابھی تک وہ مکمل طور پر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہوا؛ تاہم وہ اس قدر کمزور بھی نہیں کہ اپنے وجود کا بھر پور احساس دلانے کیلئے اسے کسی دوسرے کا سہارا لینا پڑے۔ روس کی افغانستا ن میں شکست اورواپسی کی سب سے بڑی وجہ جہاں ہم افغان مجاہدین کو قرار دیتے ہیں‘ وہیں پر امریکا کی جانب سے افغان مجاہدین کو فراہم کیے جانے والے سٹنگر میزائلز کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر امریکا یہ میزائل فراہم نہ کرتا تو شاید صورتحال کافی مختلف ہوتی۔ممکن ہے کہ پھر روس کو پسپائی نہ اختیار کرنا پڑتی۔ اب کی بار روس کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ جدید ترین ہتھیار دیتے ہوئے امریکا سے بدلہ لیتا لیکن شنید ہے کہ بش کے بعد اوباما اور پھر ٹرمپ انتظامیہ نے روس سے در پردہ کچھ لین دین کرنے کے بعد مسئلہ سلجھا لیا، ورنہ افغانستان کی صورتحال دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی۔
امریکہ اور نیٹو کو خد اکا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اگر روس طالبان کو فضائی یلغار اور دوسرے میزائلوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بھیSU300، SU400 میزائل فراہم کر دیتا تو صورتحال کسی نئی عالمی جنگ کی طرف بڑھ سکتی تھی؛ تاہم روس نے کبھی صاف چھپ کر تو کبھی سامنے آ کر اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہوئے امریکیوں کو اپنے وجود کا احساس بھی دلایا اور ایک حد سے آگے جانے سے گریز بھی کیا۔ افغانستان کی صورتحال سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے دفاعی سٹریٹیجک کے طور پر روس کو نظر انداز کرنا یقینا حماقت ہو گی کیونکہ یہ طے ہے کہ امریکا نے اپنی روانگی سے قبل روس سے افغانستان کی سرحدوں پر پوری تیاری کے ساتھ بیٹھنے کی درخواست کی تھی تاکہ اگر طالبان امریکا سے کیے گئے معاہدے سے نکلنے کی کوشش کریں یا وہ افغانستان میں قتل و غارت اورانتقام لینے لگیں تو روس فوری طور پر آگے بڑھ کر انہیں روک سکے لیکن امید ہے کہ یہ تمام خدشات محض خدشات ہی ثابت ہوں گے، اور طالبان جنہوں نے بیس سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کیا ہے‘ پرانی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اپنی ترجیحات میں سب سے پہلے امن اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو رکھیں گے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اور طالبان کی اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد کی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved