مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم بیالیس برس پہلے ماہ ستمبر کی بائیس تاریخ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش بھی بیسویں صدی کے تیسرے سال میں اسی ماہ ستمبر کی پچیس تاریخ کو ہوئی تھی۔ انہوں نے 76 برس اس دنیا میں گزارے اور اس کے بعد وہاں جا بسے جہاں ہم سب کو جانا ہے۔ بقول منیر نیازی؎
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
کوئی ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں سے بھرا ہوا
مولانا کی برسی جماعت اسلامی کے زیر اہتمام باقاعدہ طور پر تو نہیں منائی جاتی کہ اسے ''بدعتِ حسنہ‘‘ سمجھنے والے اب بھی تعداد میں کم ہیں، لیکن یاد تازہ کرنے کا کچھ نہ کچھ اہتمام ہوہی جاتا ہے۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں اور مختلف مقامات پر سید صاحب کے عشاق کچھ نہ کچھ اہتمام کرگزرتے ہیں۔ ویسے بھی مولانا ایسی شخصیت نہیں ہیں کہ جنہیں سال کے کسی مقررہ دن یا مقررہ وقت پر یاد کرکے پھر طاق نسیاں میں رکھ دیا جائے۔ وہ آج بھی ہماری سیاست اور سماج کا ایک زندہ حوالہ ہیں۔ ان کی قائم کردہ جماعت اسلامی نہ صرف پاکستان میں متحرک ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک میں اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہے۔ گلستانِ مودودی کے خوشہ چیں پورے عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے افکار سے مستفید بھی ہورہے ہیں اوران پر بحث و تمحیص بھی کررہے ہیں۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی ان کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ''سیاسی اسلام‘‘ کا موجد کہہ کردل کا بوجھ ہلکا کرنے والے بھی ان کی بھاری بھرکم شخصیت کا انکار نہیں کرپاتے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اردو کے بے مثال ادیب تھے۔ آغا شورش کاشمیری تو انہیں اس زبان کا سب سے بڑا نثرنگار قرار دیتے تھے کہ غالب کے خطوط کے بعد ایسی اردو لکھنا اور کسی شخص کے حصے میں نہیں آیاکہ جسے معمولی حرف شناس بھی پڑھ اور سمجھ سکتا ہو اور بڑے سے بڑا عالم بھی جس پرسر دھنتا ہو۔ مشکل سے مشکل مضامین کو آسان سے آسان الفاظ میں بیان کردینے کی جو صلاحیت ان کے حصے میں آئی تھی، اس کی ہمسری کا دعویٰ شاید ہی کوئی کرپائے۔ ان کی بات دل سے نکلتی محسوس ہوتی اور براہ راست دل تک پہنچ جاتی ہے۔ ان کا استدلال فطری، سادہ اور آسان ہوتا ہے۔ وہ اپنی بات اس طرح سمجھاتے چلے جاتے ہیں، جس طرح ایک ماہر کاریگر اینٹ پر اینٹ رکھ کر عظیم الشان عمارت بناتا چلا جاتا ہے۔ مولانا صرف نثرنگار نہیں تھے، مفسر، محدث، متکلم، مورخ اور محقق بھی تھے، انہوں نے محض کتابیں ہی نہیں لکھیں، لیکچر ہی نہیں دیئے، اپنے مقصد کے حصول کیلئے ایک ایسی تنظیم بھی کھڑی کرکے دکھا دی، جو اپنی مضبوطی کے اعتبار سے آج بھی بے مثال ہے۔ برصغیر میں کئی جماعتوں اور تحریکوں نے جنم لیا، لیکن جماعت اسلامی کا تشخص ان میں منفرد نظرآتا ہے۔ اس میں وراثتی قیادت سرنہیں اٹھانے پائی۔ ایک امیر کے بعد دوسرا امیر آیا، لیکن کسی کے بچوں کو بھی اسے اپنی جائیداد قرار دینے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی نے اپنا کوئی امیرتو کیا عام عہدیدار بھی اس لئے نہیں چناکہ اسے کسی بزرگ سے کوئی نسبی تعلق ہے۔ پاکستان کی سیاسی ہی نہیں مذہبی جماعتیں بھی ملوکانہ اثرات سے اپنے آپ کو بچا نہیں پائیں، ان کے جواز یا عدم جواز پر بحث ہوسکتی ہے، اورہر جماعت کا معاملہ اس کو درپیش مخصوص حالات کے پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس بحث میں الجھے بغیر اس حقیقت کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ جماعت اسلامی پاکستان ہی نہیں ہندوستان میں بھی کسی نسبی یا خاندانی تعلق کی اسیر نہیں ہوپائی، اس کے ارکان نے اس کی کوئی اہمیت تسلیم نہیں کی اور اہل سنت والجماعت کا جوہری امتیاز برقرار رکھا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت اسلامی اگرچہ انتخابی طاقت نہیں بن پائی اور مولانا نے انتخاب کے ذریعے انقلاب کا جو خواب دیکھا تھا، وہ ہنوز شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پایا، لیکن تعلیمی، سماجی اور فلاحی میدان میں اس کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ اس کے زیراثر قائم مختلف ادارے حسن کارکردگی کے اعتبار سے ممتاز ہیں، لوگ ان پر بھروسہ کرتے اور انہیں اپنی امانتوں کا مستحق گردانتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ووٹ بینک میں اضافہ نہیں ہو پایا لیکن اس کے جو نمائندے بھی منتخب ایوانوں تک پہنچے ہیں، انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے، اپنے اعتبار اوروقار کی حفاظت کی ہے۔ مولانا مرحوم کی برسی کے موقع پران کے سیاسی افکار بھی زیر بحث آئے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے آئین اور قانون کے دائرے میں رہنے پر بہت زوردیا۔ وہ کسی غیرقانونی طریقے کو آزمانے یا کسی زیرزمین سرگرمی کو اپنانے پرکسی طور تیار نہیں ہوئے۔ انتخاب کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش ہی ان کے نزدیک نہ صرف پسندیدہ بلکہ ''واحد آپشن‘‘ رہی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کسی بھی ملک کے خلاف جنگ یاامن کا فیصلہ کرنے کااختیار ریاست کا حق جانا اور اس پراصرار کیا۔ وہ کسی ایسی سرگرمی کو جہادی قرار دینے کیلئے تیار نہیں ہوئے، جو کسی گروہ نے اپنے طور پر (اعلانیہ یا خفیہ) اپنائی ہو۔ ان کے طے کردہ یہ دو اصول آج بھی پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ امنِ عالم کے ضامن ہیں۔ جہاد کی علمبردار غیرحکومتی تنظیموں نے اپنی سرگرمیوں سے خود بھی نقصان اٹھایا اوران ملکوں کوبھی اس کے اثرات بھگتنا پڑے ہیں، جنہوں نے آنکھیں بند کرنے میں نجات ڈھونڈی تھی۔
مولانا مودودی نے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے متحدہ محاذ بنانے یا انتخاب میں حصہ لینے کیلئے دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کرنے کو بھی اپنی حکمت عملی میں اہمیت دیئے رکھی۔ مولانا مرحوم کے جانشینوں میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد نے بھی پاکستان قومی اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد اور متحدہ مجلس عمل بنانے میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں کامیابیاں بھی انہیں نصیب ہوئیں، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتحاد بنانے یا ان سے نکل جانے کے معاملے میں ہمیشہ احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ ہیجانی اور جذباتی اسلوب نے ہزیمت سے دوچار بھی کیا ہے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میں انتخابی حلقوں کی حفاظت کا اہتمام ضروری ہوتا ہے، جس کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا سکا۔ آج جبکہ جماعت اسلامی انتخابی سیاست کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی وضع کرے جس کے تحت منتخب ایوانوں میں اس کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایک زمانہ تھا جب متناسب نمائندگی پر زور دیا جا رہا تھا اور برطانوی انتخابی نظام‘ جس میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے، خواہ مجموعی طور پر وہ اقلیت ہی میں کیوں نہ ہو، کے خلاف دلائل لائے جارہے تھے۔ یاد رہے‘ سو میں تیس ووٹ حاصل کرنے والا یوں کامیاب قرار پاتا ہے کہ اس کے خلاف پڑنے والے ستر ووٹ، تین امیدواروں میں تقسیم ہو جاتے ہیں 20+25+25 یوں اکثریت اسمبلی سے باہر کھڑی رہ جاتی ہے اور تیس ووٹ حاصل کرنے والا ایک سو کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اس پر کوئی فیصلہ نہ ہواتو اس معاملے کو خارج از بحث کردیا گیا۔ متناسب نمائندگی پرآج بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بلدیاتی اداروں کا تسلسل بھی برقرار نہیں رکھا جا سکا۔ جماعت اسلامی اس حوالے سے بھی کسی فیصلہ کن معرکے کی تیاری کرے تو کامیابی قدم چوم سکتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے وجود سے انکار کرکے صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی مستحکم نہیں ہوپائیں، ان کی حیثیت بنیاد کے بغیر کھڑی کی جانے والی عمارت ہی کی رہے گی، جسے چند پھونکوں سے اڑایا جا سکتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)