تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-09-2021

سالانہ پراگریس رپورٹ …(آخری حصہ)

تقریباً دو ماہ قبل میرے ایک قاری نے مجھے میل کی اور اس میں مجھ سے گزشتہ سال وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ہونے والی ملاقات میں دی جانے والی تجاویز اور ان میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرنے کے متعلق لکھا تھا۔ میں نے تب یہ کالم صرف اس لیے نہ لکھا کہ دو ماہ اور گزر جائیں اور اس معاملے کو ایک سال پورا ہو جائے تو میں اس معاملے پر ہونے والی پیش رفت سے قارئین کو آگاہ کروں۔ یعنی سالانہ پراگریس رپورٹ پیش کی جائے۔ سو یہ رپورٹ پیش خدمت ہے۔
17 ستمبر 2020 کی اس ملاقات میں کل نو تجاویز دی گئی تھیں۔ اسی ملاقات میں وزیر اعلیٰ نے مجھے ایمرسن کالج کا سابقہ طالب علم ہونے کے ناتے یہ خوشخبری سنائی کہ وہ ایمرسن کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے جا رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ آج سے تین سال پہلے ستمبر 2017 میں قدیمی نشتر میڈیکل کالج کو بھی اسی شوق میں یونیورسٹی بنا دیا گیا تھا‘ مگر آج تین سال بعد بھی یہ عالم ہے کہ سوائے ایک وائس چانسلر کے پوری یونیورسٹی میں نہ تو کوئی دوسرا شخص یونیورسٹی کا ملازم ہے اور نہ ہی کوئی ایک فیکلٹی ممبر ہے۔ کسی یونیورسٹی کا سب سے بڑا ثبوت اور نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو ڈگری جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہے‘ مگر نشتر میڈیکل یونیورسٹی اس لحاظ سے دنیا کی انوکھی یونیورسٹی ہے کہ گزشتہ تین سال سے قائم ہے اور اس کے طلبہ کو پاس ہونے پر ڈگری یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی عطا کی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ ایمرسن کالج کو بھی اسی قسم کی دھنیا یونیورسٹی بنا کر محض اس کی فیس میں دگنا تگنا اضافہ کرنے کے بجائے اس قدیمی اور تاریخی کالج کو کالج ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ہنس کر بات ٹال دی، وہ مسکراتے ہوئے بات کو ٹالنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔
اب ذرا ان نو تجاویز اور ان پر ہونے والی پیش رفت پر بات ہو جائے۔
1: ملتان تا ہیڈ محمد والا سڑک کو دو رویہ کرنے کا مطالبہ سن کر وزیر اعلیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ سی آ گئی تھی۔ یہ سڑک دراصل ملتان سے ان کے آبائی قصبے بارتھی جانے کے لیے سب سے مختصر ترین روٹ ہے۔ یہ میری نو عدد تجاویز میں سے واحد تجویز ہے‘ جس پر سو فیصد کام ہو رہا ہے۔ سولہ کلو میٹر لمبی سڑک اور ڈیڑھ کلومیٹر لمبے پل کے لیے تین ارب روپے منظور ہو چکے ہیں۔
2: اندرون شہر کے سرکلر روڈ کی کشادگی کے معاملے پر نہ صرف یہ کہ پیش رفت زیرو ہے بلکہ مستقبل قریب میں بھی اس پر کسی قسم کی ہل جل کا امکان معدوم ہے۔
3: نشتر ہسپتال کے اڑھائی لاکھ روپے کے عظیم سالانہ مرمتی بجٹ میں ایک پیسے کا اضافہ نہیں ہوا۔
4: نشتر ہسپتال کے غسل خانوں اور ٹوائلٹس کی تعمیر نو ظاہر ہے اڑھائی لاکھ والے سالانہ مرمتی فنڈ سے کرنا تو ناممکنات میں سے تھا‘ اس کے لیے علیحدہ سے بجٹ مختص کرنا چاہیے تھا‘ لیکن اس معاملے میں بھی پیش رفت صفر ہے۔
5: نشتر میں کثیر منزلہ پارکنگ پلازہ ہی شہر کے وسط میں موجود جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال کو درپیش پارکنگ کے مسائل کا حل ہے اور اس کے لیے میں نے ایک ماہر تعمیرات سے اس کی ماہرانہ رائے لینے کے بعد وزیر اعلیٰ کو تجویز دی تھی کہ محدود زمین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پارکنگ کے مسائل کا واحد حل کثیر منزلہ پارکنگ پلازہ ہی ہے اور اس کے لیے نشتر ہسپتال کے موجودہ پارکنگ ایریا پر زیر زمین تین منزلیں بنا کر چوتھی منزل زمین کے لیول پر بنانے سے نہ صرف پارکنگ کے در پیش موجودہ مسائل سے نجات مل جائے گی بلکہ مستقبل میں بھی یہ پلازہ پارکنگ کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے لیے کافی رہے گا‘ مگر اس پر آج ایک سال نو دن بعد تک تو تنکا بھی توڑ کر دوہرا نہیں کیا گیا بلکہ سرے سے یہ معاملہ کہیں زیر بحث ہی نہیں آیا۔
6: کینسر کی ابتدائی سٹیج پر تشخیص کرنے کے لیے ملتان میں موجود ملتان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن اینڈ ریڈیالوجی ہسپتال (مینار) میں Pet Scanner لگانے کے معاملے میں میری تجویز پر عمل درآمد تو ہوا لیکن سرکار نے اس مشینری کے لیے مینار کے بجائے نشتر ہسپتال کا انتخاب کر لیا ہے۔ تقریباً ایک ارب روپے کی لاگت کا یہ پراجیکٹ وہاں لگایا جا رہا ہے جہاں اسے چلانے کے لیے نہ تو تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ عالم یہ ہے کہ سال 2012-13 میں خریدا جانے والا Linear Accelerator (LINAC) عرصہ آٹھ‘ نو سال سے ابھی تک سٹور میں پڑا ہے۔ کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی اس مشین کی قیمت تین چار سال قبل بھی تیس کروڑ روپے سے زائد تھی اور اب ڈالر کی قدر میں ہوشربا اضافے کے بعد اس کی قیمت کم از کم پچاس کروڑ کے لگ بھگ ہو گی۔ یہ مشینری آج بھی تنصیب کی منتظر ہے اور اس عاجز کو گمان ہے کہ اس مشینری کی وارنٹی سٹور میں پڑے پڑے ختم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف اس قسم کا LINAC جو تقریباً دو سال قبل مینار میں آیا تھا، نصب ہو چکا ہے‘ صرف چالو ہونا باقی ہے اور اس کی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے کینیڈا سے وہ ٹیم نہیں آ رہی جس نے اس کو چلانے کے لیے درکار سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہے۔ پیٹ سکینر مکمل طور پر نیوکلیئر میڈیسن موڈیلیٹی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کو نشتر ہسپتال میں دینا ایک ارب روپے کی بربادی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مینار میں نہ صرف اس کو چلانے والے لوگ موجود ہیں بلکہ وہ اس سلسلے میں ڈاکٹروں کو تربیتی سہولتیں بھی فراہم کر رہے ہیں۔
7: قلعہ کہنہ پبلک لائبریری کی مرمت اور تزئین نو کے سلسلے میں سابقہ ڈپٹی کمشنر عامر خٹک اور سابقہ کمشنر ملتان جاوید اختر محمود نے کافی دوڑ دھوپ کی تھی اور اس لائبریری میں ریڈنگ روم، دوسری منزل پر گیلری اور واش رومز کا منصوبہ بنا کر اس کے لیے فنڈز کا بندوبست کر رہے تھے کہ ان کا تبادلہ ہو گیا۔ اب کیا بنتا ہے؟ دیکھتے ہیں! فی الحال تو معاملہ وہیں پر ہی ہے جہاں ایک سال پہلے تھا۔
8: کپاس کے پتا لپیٹ وائرس فری بیج کی تیاری کا جو حال ہے وہ میں گزشتہ سے پیوستہ کالم میں لکھ چکا ہوں۔ اس پر ہونے والی حکومتی پراگریس زیرو ہے۔
9: ملتان جمخانہ کے لیے بھی سابقہ کمشنر ملتان نے بھاگ دوڑ کر کے سو کنال رقبہ کی منظوری لے لی تھی۔ اس کی کابینہ سے منظوری بھی ہو گئی تھی اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب (IDAP) نے بھی منظور کر لیا تھا، مگر منظور شدہ زمین پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے لیے قبضہ ہو گیا اور یہ منصوبہ بھی ٹھپ ہو گیا۔
قارئین! ان نو تجاویز میں سے صرف ایک تجویز، یعنی ہیڈ محمد والا روڈ کو دو رویہ کرنے پر کام شروع ہونے والا ہے‘ حالانکہ میرا بد گمان دل مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے اس منصوبے کو بھی مستقبل میں اپنی سفری سہولت کے لیے منظور کیا ہے کہ انہوں نے ساری عمر اس عہدے پر نہیں رہنا مگر ساری زندگی اس سڑک پر سفر کرنا ہے؛ تاہم اس لکھاری کو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے طفیل اس سڑک سے گزرنے والے ہزاروں مسافروں اور مخلوق خدا کا بہرحال بھلا ہو جائے گا۔
باقی تجاویز سے کیونکہ وزیر اعلیٰ کو ذاتی طور پر کچھ لینا دینا نہیں تھا اس لیے وہ سب کھوہ کھاتے چلی گئی ہیں‘ لیکن یہ عاجز نہ تو مایوس ہے اور نہ ہی دل برداشتہ یا دل گرفتہ۔ اس وزیر اعلیٰ سے یہ کام نہ ہوئے تو کسی اگلے وزیر اعلیٰ کے آگے اپنے شہر کی بھلائی کے لیے ہاتھ پھیلا دیں گے۔ اللہ اپنی مخلوق کی بھلائی کا کام بھی اسی سے لیتا ہے جسے وہ توفیق عطا کرتا ہے۔ بندے کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ اپنا کام دل جمعی اور خلوص سے کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved