تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     22-07-2013

نظربندی کے شوقین

پاکستانی آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا لیڈر‘ جو وزیراعظم کہلاتا ہے‘ سب سے زیادہ بااختیار اور طاقتورعہدیدار ہوتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد جب اس منصب کے لئے انتخاب کا مرحلہ آیا‘ تو آسانی سے گزر گیا۔ نہ افواہیں پھیلیں۔ نہ قیاس آرائیاں ہوئیں اور نہ ہی ناموں کی فہرستیں بنائی گئیں۔ سب جانتے تھے کہ ملک کا وزیراعظم کون ہو گا؟ 18ویں ترمیم کے بعد‘ صدر کا منصب محض ایک آئینی عہدہ بن کر رہ گیا ہے‘ جسے آرائشی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لئے زور آزمائیاں ہو رہی ہیں جب کہ وزیراعظم کا انتخاب بھاری اکثریت کے ساتھ آسانی سے کر لیا گیا تھا۔ اب منصب صدارت کے لئے امیدواروں کی کئی دنوں سے فہرستیں بنائی جا رہی ہیں۔ ابتدا میں جو متوقع امیدوار سامنے آئے تھے‘ ان میں ممتاز بھٹو کا نام بھی شامل تھا۔ مگر جو تازہ فہرست سامنے آ رہی ہے‘ اس میں سے ممتاز بھٹو کا نام غائب ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ‘ ان کے سیاسی اثاثوں سے خوفزدہ ہو گئی۔ وہ پاکستان کے بنیادی تصور کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے ہیں‘ جن کی ذمہ داری اٹھانا‘ نوازشریف کے لئے مشکل کام ہوتا۔ اب جو نام قیاس آرائیوں میں باقی رہ گئے ہیں‘ وہ ہیں جناب اقبال ظفر جھگڑا‘ سردار مہتاب عباسی‘ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی‘ ممنون حسین اور سید غوث علی شاہ۔ یہ سب کے سب بڑے محترم اور سینئر سیاستدان ہیں۔ 2008ء میں صدر کا عہدہ بہت طاقتور تھا۔ یہی وجہ تھی جب موجودہ صدر ‘زرداری کو اپنے لئے عہدہ چننے کا موقع ہاتھ آیا‘ تو انہوں نے بلاتامل منصب صدارت کا انتخاب کیا۔ اس وقت صدر کے اختیارات اتنے زیادہ تھے کہ وہ جو چاہتے‘ کر گزرتے اور وزارت عظمیٰ کا عہدہ اتنا بے مایہ اور بے معنی تھا کہ اس پر میرظفراللہ جمالی کو بھی فائز کیا جا سکتا تھا اور وہ سچ مچ فائز ہوئے بھی۔ جمالی صاحب پر تسلی نہ ہوئی‘ تو اس وقت کے فوجی صدر نے چوہدری شجاعت حسین کو بھی وزیراعظم بنانے میں کو ئی ہرج نہ سمجھا۔ہوتا یوں ہے کہ جو کوئی بھی‘ کسی منصب پر فائز ہوتا ہے‘ وہ ساری طاقت اسی میں جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے آئے تھے۔ فوج کی طاقت ان کے پاس تھے۔ چاہتے تو وزیراعظم بن جاتے۔ کیونکہ اس وقت تک ساری طاقت وزیراعظم کے پاس تھے۔ مگر فیلڈ مارشل کو وزیراعظم کا لفظ ہی پسند نہیں تھا۔ انہوں نے اقتدار پر اپنا قبضہ مکمل ہوتے ہی‘ اس عہدے کو پاکستانی نظام سے باہر نکال پھینکا۔ وہ صدر بنے اور آخری دن تک صدر ہی رہے۔ قومی اسمبلی بنا دی اور خود اس کے اندر نہیں گئے۔ کابینہ بنا دی مگر وزیراعظم نہیں بنایا۔ اقتدار کی تمام طاقتیں اپنے ہاتھ میں رکھیں اور جب تک بس چلا‘ ان کا خوب استعمال کیا۔انہیں ہٹانے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ تو وہ بھی صدر بنے اور تب تک بنے رہے‘ جب تک پاکستان کو توڑنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ اس وقت صدارت کے منصب میں اتنی دلکشی تھی کہ مغربی پاکستان کے منتخب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ اسمبلی میں اکثریت رکھنے کے باوجود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹربننا پسند کیا اور صدر کہلائے۔ اس وقت تک پاکستان میں صدر کا عہدہ ہی سب سے طاقتور ہوا کرتا تھا۔ آئین سازی کا عمل شروع ہوا‘ تو اس بات پر زبردست بحث چلی کہ انتظامی اختیارات کا مالک کون ہو گا؟ صدر یا وزیراعظم؟ اپوزیشن نے اندازہ لگایا کہ بھٹو صاحب اختیارات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ان کے مزاج میں اقتدار اعلیٰ سے کم کسی چیز کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ اس وقت کے اپوزیشن لیڈروں نے جن میں اکثریت قدآور سیاستدانوں کی تھی‘ اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ وہ منصب صدارت کو علامتی عہدہ بنانے پر زور دیں گے۔ کیونکہ بھٹو صاحب کسی دوسرے کی برتری ماننے پر تیار نہیں ہوں گے۔ وہ یقینی طور پہ اپنے لئے صدر کا منصب چنیں گے۔ بہتر یہ رہے گا کہ انہیں صدر بننے سے روکا جائے اور انہیںوزیراعظم بننے پر مجبور کیا جائے۔ کیونکہ پروٹوکول میں صدر کا منصب ہی سب سے اعلیٰ ہو گا اور بھٹو صاحب اس سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ چنانچہ طویل بحث مباحثے شروع ہو گئے۔ اپوزیشن کوشش کرتی رہی کہ سارے اختیارات وزیراعظم کے آفس میں مرتکز کئے جائیں اور پیپلزپارٹی کے نمائندے زور دیتے رہے کہ صدر کو زیادہ بااختیار ہونا چاہیے۔ یہ بڑا دلچسپ مقابلہ تھا۔ پیپلزپارٹی والے‘ اپوزیشن کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ اختیارات صدر کے پاس رہنے دیں اور اپوزیشن تقاضا کر رہی تھی کہ پارلیمانی روایات کے مطابق وزیراعظم کو زیادہ بااختیار بنایا جائے۔ اس بحث کے دوران ایک موقع پر ولی خان مرحوم نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’بھٹو مجبور ہو کر پھنستا جا رہا ہے۔ یہ نمبر دو بننا کبھی قبول نہیں کرے گا۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ سارے اختیارات وزیراعظم کو دلوا دیں۔ بھٹو صدر سے کم پر راضی نہیں ہو گا۔ وہ ہر حال میں صدر بنے گا اور حکومت کوئی دوسرا چلائے گا۔‘‘ پیپلزپارٹی مذاکرات کے دوران اپوزیشن کے سامنے پسپا ہوتی چلی گئی۔ وزیراعظم کو بااختیار بنانے کی ہر تجویز بڑی ’’مزاحمت‘‘ کے بعد ’’بادل ناخواستہ‘‘ قبول کر لی گئی۔ آئین پر اتفاق رائے ہو گیا اور جب وہ منظور ہوا‘ تو صدر کا عہدہ نمائشی رہ گیا تھا اور کلی اختیارات کا مالک وزیراعظم بن گیا تھا۔ آئین پاس ہوا‘ تو اپوزیشن نے خوشیاں منائیں۔ فتح کے شادیانے بجائے اور اپنی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست کی شطرنج پر مات دے دی اور پھر ہوا یوں کہ منظورشدہ آئین کے تحت جب حلف اٹھانے کا وقت آیا‘ تو بھٹو صاحب منصب صدارت چھوڑ کر‘ خود وزیراعظم بن بیٹھے اور وہ بڑے بڑے قائدین جو اپنے آپ کو سیاست کے کھیل میں چیمپئن سمجھتے تھے‘ ہکابکا ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے پائے گئے اور بھٹو صاحب فاتحانہ قہقہے لگاتے ہوئے ان کی حالت دیکھتے رہے۔ اس واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے‘ بھٹو صاحب نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’وہ مجھے مات دینے کے چکر میں تھے۔ میں نے پانسہ پلٹ کے ان کی بری حالت کر دی۔‘‘ انگریزی میں انہوں نے ’’آئوٹ وٹ‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ وہ مجھے آئوٹ وٹ کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے انہیں آئوٹ وٹ کر دیا۔ان کے داماد آصف زرداری کو جب موقع ملا تو انہیں بھی صدارت کا طاقتور منصب حاصل ہو گیا۔ وہ چاہتے تو تین چار سال بااختیار صدر بن کے رہ سکتے تھے لیکن انہوں نے پہلا موقع ملتے ہی اپنے آپ کو خوشی سے چوہدری فضل الٰہی بنا لیا۔ دیر اس آئینی ترمیم تک پہنچنے میں لگی‘ جس پر طویل بحث مباحثے ہو رہے تھے اور ساتھ ہی مذاکرات بھی چل رہے تھے۔ گزشتہ پارلیمنٹ کے تمام رہنمائوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے 1977ء کے بعد ایک طاقتور آئینی وزیراعظم کا منصب بحال کرتے ہوئے‘ اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس دے دیئے۔ یہ وہی عہدہ ہے‘ جو چوہدری فضل الٰہی کے سپرد کیا گیا تھا اور چوہدری فضل الٰہی جس طرح کے صدر تھے‘ اس کے بارے میں ان گنت لطیفے مشہور ہیں۔ 1977ء کا آئین نافذ ہونے کے بعد‘ بھٹو صاحب بیرونی دورے پر گئے‘ تو واپسی کے وقت صدر نے دریافت کیا کہ ’’نئی پروٹوکول کے مطابق مجھے وزیراعظم کا استقبال کرنا چاہیے؟ یا ایوان صدر میں بیٹھے رہنا چاہیے؟‘‘ کسی نے مشورہ دیا کہ آپ صدر مملکت ہیں۔ آپ کو وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔ چوہدری صاحب نے ایک لمبی سانس بھری اور متذبذب انداز میں کہا ’’ویکھیں یار مروا نہ دیویں۔‘‘ ان دنوں جو سیاسی لیڈر گرفتار ہوا کرتے‘ ان کی رہائی کے مطالبات دیواروں پر لکھے جاتے تھے۔ اچانک راولپنڈی کی دیواروں پر یہ مطالبہ بھی لکھا ہوا نظر آنے لگا۔’’فضل الٰہی کو رہا کرو۔‘‘ایجنسیوں نے سراغ لگانا شروع کیا اور بڑی تلاش کے بعد ایک شخص کمبل اوڑھے دیوار پر لکھتا نظر آیا ’’فضل الٰہی کو رہا کرو۔‘‘ ایک اہلکار نے آگے بڑھ کر کمبل اتارا‘ تو اندر سے جو آدمی برآمد ہوا وہ خود چوہدری فضل الٰہی تھے۔ یہ ہے وہ منصب‘ جسے حاصل کرنے کے لئے موجودہ دور کے انتہائی محترم اور سینئرسیاستدان ‘ طاقت آزمائی کر رہے ہیں۔امید ہے ان میں سے جو بھی صدر بنے گا‘ وہ دیواروں پر اپنی رہائی کے مطالبات نہیں لکھا کرے گا۔کیونکہ ہر امیدوار شاہی محل میں نظربند ہونے کا خواہش مند ہے۔منصب پر فائز ہونے کے بعد اسے پتہ چلے گا کہ وزیراعظم تو اسے ملاقات کے لئے وقت بھی نہیں دے رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved