تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     26-09-2021

طالبان کا افغانستان…(5)

کابل میں عام طور پر دکانیں آٹھ بجے بند ہوجاتی ہیں البتہ ریستوران رات بارہ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ ایک رات ہم کھانا کھاکر ہوٹل کی طرف واپس آرہے تھے کہ دیکھا‘ لوگ اس کے گیٹ کے دونوں طرف فٹ پاتھ پر کپڑے بچھائے ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے ہیں‘ اور کچھ لوگوں کے پاس چائے کے تھرموس اور کپ بھی رکھے ہیں جن سے چائے انڈیل انڈیل کر پی جارہی ہے۔ یہ ٹولیاں ایک دوسرے کے اتنے قریب بیٹھی تھیں کہ ان کے بیچ میں سے گزرنا بھی مشکل تھا‘ لیکن عجیب بات تھی کہ ان لوگوں میں کوئی بے چینی تھی نہ کوئی تحرک بلکہ کچھ لوگ تو باقاعدہ چادر بچھا کر سو بھی رہے تھے۔ اجنبی ملک میں رپورٹنگ ہو اور اتنا بڑا ہجوم کسی رپورٹر کو نظر آجائے تو وہ اس کی وجہ کا سراغ لگائے بغیرنہیں رہ سکتا‘ سو میں نے فوراً قریب جاکر ان سے بات کرنا شروع کردی۔ یہاں بھی اردو بولنے والے مل گئے۔ ان سے معلوم ہواکہ یہ لوگ دراصل صبح سویرے بینک سے اپنے پیسے نکلوانے کیلئے بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کی حکومت آئی تو لوگوں نے پیسے نکلوانے کیلئے بینکوں پر یلغار کردی۔ ظاہر ہے کوئی بینک جتنا بھی بڑا ہو‘ اگر اس کے کھاتہ دار بیک وقت اس سے اپنے جمع کردہ پیسے مانگ لیں تو وہ ادا نہیں کرسکتا۔ یہ معاملہ افغانستان میں بھی ہوا۔ اس کا حل طالبان حکومت نے یہ نکالا کہ چند دن کیلئے تو بینک بند رکھے اور پھر کھولے تو پیسے نکلوانے کیلئے یہ شرط لگادی کہ کوئی بھی ہفتے میں ایک بار بیس ہزار افغانی یا دو سو امریکی ڈالر سے زیادہ رقم بینک سے نہیں نکلوا سکتا۔ ظاہر ہے جس کے پیسے بینک میں رکھے تھے اس کیلئے تو مصیبت کھڑی ہوگئی۔ بازار میں خریدوفروخت نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ جن کے پاس نقد پڑا تھا ان کا کام تو چلتا رہا، باقیوں کیلئے گھر چلانا بھی مشکل ہوگیا۔ جب اپنے ہی پیسے شرائط کے تابع نکلوانے کی اجازت ہوئی تو اب کسی کو ضرورت ہے یا نہیں وہ اپنے پیسے بینکوں سے نکلوانا چاہتا ہے۔ یہ ہجوم بھی اسی مقصد کیلئے جمع تھا اور چونکہ ہمارے ہوٹل کے دائیں اور بائیں بینکوں کے شاخیں تھیں اس لیے دونوں طرف لوگ رات سے آکر جمع ہوگئے تھے کہ اگلے دن جب بینک کھلیں تو اپنے پیسے جلد ازجلد نکلوا سکیں۔
افغانستان میں بینکنگ سسٹم پہلے تھوڑا بہت کام کررہا تھا‘ لیکن اس کو اصل فروغ امریکا کی سرپرستی میں چلنے والی حکومتوں کے دور میں ملا۔ ملک کو ملنے والی امداد، بیرون ملک مقیم افغانوں کا پیسہ اور تجارتی لین دین سبھی کچھ بینکوں کے ذریعے ہونے لگا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نظام کے ساتھ ساتھ ہنڈی حوالے کا نظام بھی پورے زوروشور سے چل رہا تھا‘ لیکن سرکاری پیسے اور بیرون ملک تجارت بڑی حد تک بینکنگ سسٹم کے ذریعے ہی چل رہی تھی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بینک تو تقریباً بند ہیں مگر کرنسی کا مارکیٹ میں لین دین زوروشور سے جاری ہے۔ اس طرح کی سب سے بڑی مارکیٹ پل خشتی بازار میں ہے جہاں مجھے کرنسی ڈیلروں نے بتایاکہ فی الحال افغانی کرنسی کی قدر مستحکم ہے لیکن جیسے ہی بیرون ملک سے درآمد کیلئے ادائیگیاں ہوں گی تو اصل صورتحال کا پتا چلے گا۔ پل خشتی کی کرنسی مارکیٹ کے علاوہ شہر بھر میں آپ کو سڑکوں پر ایسے لوگ باآسانی مل جائیں گے جن سے آپ کرنسی کا لین دین کرسکتے ہیں۔ جیسے پرانے زمانے میں عطر بیچنے والے گلے میں شیشے کے دروازے والا لکڑی کا ڈبہ گلے میں ڈال کر بازاروں میں پھرتے تھے، بالکل ویسے ہی ڈبے گلے میں ڈالے یا فٹ پاتھ پر رکھے ہوئے یہ کرنسی ڈیلر آپ کو ہاتھ کے ہاتھ ڈالر، پاکستانی روپیہ، یورو، افغانی سب کچھ ایک سے دوسرے میں بدل دیں گے۔ جتنی بڑی تعداد میں لوگ کرنسی کے لین دین سے وابستہ ہیں، ان کو دنیا کا کوئی مرکزی بینک کنٹرول نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں کا کاروبار بغیر کسی رسید کھاتے کے چل رہا ہے اور یہیں سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان کی اصل معیشت وہ ہے جس کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں‘ اور دراصل یہی وجہ ہے کہ طالبانی انقلاب کے بعد بھی کاروبار حرکت میں ہے۔
کابل کی گرمئی بازار ملک کی معاشی صحت کا ثبوت نہیں۔ حکومت کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے بھی قاصر ہے۔ مجھے کابل کے غازی ہائی سکول کے پرنسپل نے بتایاکہ اسے اور دیگر اساتذہ کو دو مہینے سے تنخواہ نہیں ملی۔ اس نے تقریباً روتے ہوئے کہاکہ اب تو دکاندار سے ادھار سامان لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ وہ نوجوان جو طالبان تحریک کے سپاہی ہیں، نظریاتی وجوہات کی بنیاد پر لڑتے رہے لیکن اب حالت امن میں ان سے کام تو پورا لیا جا رہا ہے مگر کسی کو ایک دھیلے کی بھی ادائیگی نہیں ہورہی۔ ایک مارکیٹ میں گھومتے طالبان نوجوان سے میں نے تنخواہ کے بارے میں پوچھا تواس نے بڑی خوشی سے بتایاکہ اب تک توکچھ نہیں ملا مگر اب امید ضرور ہے۔ میں نے تفصیل چاہی تو اس نے کہا‘ 'اب ہماری فہرستیں بننا شروع ہوگئی ہیں۔ ہم میں سے جوشخص سرکاری نوکری کرنا چاہتا ہے‘ اسے وردی کے ساتھ تنخواہ بھی ملے گی‘۔
افغانستان کو چلانے کیلئے امریکہ بیس برس تک اوسطاً چار ارب ڈالر سالانہ حکومت کی امداد کرتا رہا ہے۔ یہ رقم افغانستان کی سرکاری آمدنی کا دو تہائی حصہ تھی۔ یہ امداد بند ہوئی ہے تو سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی اس وقت طالبان حکومت کا اہم ترین مسئلہ بن چکی ہیں لیکن اس کا حل دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امداد تو بند ہوئی سو ہوئی مگر وہ تمام لوگ بھی جو وزارت خزانہ یا مرکزی بینک چلا رہے تھے‘ ملک چھوڑکر جا چکے ہیں۔ نجی بینکوں کے اعلیٰ افسر بھی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ بڑے کاروباری لوگ بھی ہجرت کر چکے، گویا افغانستان کو چلانے والے جتنے بھی لوگ تھے وہ ملک سے باہر ہیں۔ یہ اتنا بڑا خلا ہے جسے پُر ہوتے نہ جانے کتنا وقت لگے۔ امریکی امداد کا متبادل فی الحال کوئی نہیں‘ جہاں تک حکومتی آمدنی کا تعلق ہے تو اب اس کا سب سے اہم ذریعہ گمرک یعنی کسٹم ہے۔ پچھلی حکومت اس مد میں تقریباً ساڑھے سات ارب افغانی ہر مہینے اکٹھے کرتی تھی جو کم و بیش سارا ہی تنخواہوں میں نکل جاتا تھا۔ بینک بند ہونے کی وجہ سے یہ آمدنی بھی سرکاری خزانے میں اس طرح آرہی ہے کہ ملک کے سرحدی راستوں پر ایک مولوی صاحب بیٹھے ہیں جو ملک میں آنے والے سامان پر نقد وصولی کرکے لوہے کے ٹرنک میں ڈال دیتے ہیں اوراس کے عوض ایک پرچی جاری کردیتے ہیں۔ یہ پرچی اور اس پر لکھا ہوا مولوی صاحب کا موبائل نمبر ہی فی الحال سرکاری کھاتے میں پیسے جمع ہونے کا ثبوت ہے‘ لیکن یہ سارا پیسہ ملا کر بھی تنخواہوں کیلئے کافی نہیں۔
مجھے طالبان کی موجودہ حکومت کے ایک وزیر کے دفتر میں ان کے پرانے دوست ملے جو خود بھی طالبان کی طرف سے لڑتے رہے ہیں مگر بعد میں انکی مالی مدد کرنے پرہی اکتفا کرتے رہے۔ وہ پاکستان میں رہتے رہے ہیں اس لیے یہاں کے نمایاں صحافیوں کو پہچانتے ہیں۔ میں دفتر کے اندر جارہا تھا اور وہ باہر نکل رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو فوراً بغلگیر ہوگئے۔ حالات پوچھے تو مجھے ایک طرف لے گئے۔ کہنے لگے: 'تم سب لوگ سمجھتے ہو طالبان نے امریکا کو شکست دے دی، مجھے لگتا ہے کہ ہم جال میں پھنس گئے ہیں۔ دفتر ہیں تو عملے سے خالی، خزانہ ہے تو پیسوں سے خالی، امدادی اداروں کے وعدے ہیں تو عمل سے خالی۔ ہمارے خلاف اس سے بڑی سازش کوئی نہیں ہوسکتی۔ ہم میدان میں آتش و آہن سے لڑنے والے ہیں، پیسوں کی لڑائی میں ہم مارے جائیں گے‘۔ میں نے انہیں کہاکہ جب پاکستان بنا تھا تواس وقت نواب آف بہاولپور نے سرکاری ملازمین کی چھ مہینے کی تنخواہیں ادا کرنے کیلئے پیسے اپنی جیب سے دے دیے تھے، آپ بھی کوئی ایسا ہی بندوبست کرلیں۔ میری بات سن کر بولے: ہم پاکستان ہیں، نہ یہاں کوئی نواب آف بہاولپور ہے اور نہ قائد اعظم۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved