پاکستان اس وقت ایک تاریخی دور سے گزر رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ڈالر بھی 170 روپے کی سطح کو چھو رہا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار پٹرول 123 روپے فی لیٹر ہوچکا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرضہ بھی جون 2021ء میں 39 ہزار859 ارب روپے پر پہنچ چکا ہے۔ ایک تاریخ ساز صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بجلی کے بلوں میں 5 سے 35 فیصد تک ایڈوانس انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ پروفیشنل شعبوں سے وابستہ نان فائلرز کے بجلی بلوں میں ایڈیشنل ٹیکس لاگو ہو گا۔ بجلی کی قیمتوں میں سال 2018ء سے اب تک 40 فیصد ہونے والا اضافہ اس کے علاوہ ہے۔ بجلی کے بنیادی نرخ 2018ء میں 11 روپے 72 پیسے فی یونٹ تھے‘ جو اب 4 روپے 72 پیسے کے اضافے کے بعد 16 روپے 44 پیسے فی یونٹ ہو چکے ہیں۔ سرکاری ریٹیل ریٹ کے مطابق ایک کلو چینی بھی 89 روپے 75 پیسے ہے، مارکیٹ میں اس قیمت پر چینی ڈھونڈ لانے والے عام صارف خوش قسمت تصور ہوتے ہیں۔
ادارہ شماریات نے گزشتہ ہفتے کے اعدادوشمار میں گھی کی فی کلو قیمت 345 روپے 70 پیسے بتائی۔ 20 کلو آٹے کا تھیلا 1180 روپے کا ہے‘ یعنی ایک کلو آٹا تقریباً 60 روپے میں پڑتا ہے۔ اس سال ہونے والی گندم کی تاریخی اور ریکارڈ پیداوار کے باوجود آٹا سستا نہیں مل پارہا۔ ریکارڈ پیداوار کے باوجود گندم درآمد کرنا پڑرہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کامیابی سے اپنے 3 سال گزار چکی ہے۔ 3 سال مکمل ہونے پر وفاقی سطح پر ایک بڑا جشن بھی منایا گیا جس میں حکومت کی کامیابیاں گنوائی گئیں۔ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومت نے بھی 3 سال مکمل ہونے پر اپنی کارکردگی کا بھرپور پرچار کیا۔ اب آٹے، گھی، چینی، پٹرول اور ڈالر کی 3 سال پہلے کی قیمتوں کی بات کریں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ عام آدمی کی آمدن نہیں بڑھی جبکہ مہنگائی دوگنا ہو چکی ہے۔ اس تاریخ ساز مہنگائی نے عام آدمی کیلئے گھر کا چولہا جلانا دوبھر کردیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی حالیہ آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق 2022ء میں پاکستان کی گروتھ 4 فیصد رہے گی۔ اسی آؤٹ لک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انفلیشن ریٹ 7.5 فیصد رہے گا۔ گندم، چینی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کا باعث بنے گا۔ خیر ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم نہایت مثبت رویہ رکھتے ہیں، کھلاڑی ہیں سپورٹس مین سپرٹ رکھتے ہیں، اپنی پارٹی اور عوام سے بھی اسی رویے کا تقاضا کرتے ہیں، جہاں اپنی ٹیم کو سخت محنت کرنے کیلئے زور دیتے رہتے ہیں‘ وہیں قوم کو سخت حالات میں نہ گھبرانے کا مشورہ بھی بارہا دے چکے ہیں۔ وزیراعظم کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر عوام کے دلچسپ ردعمل بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی پر کچھ ہلکے پھلکے عوامی سے انداز میں بنی ویڈیوز میں شہری یہ التجا کرتے نظر آتے ہیں کہ ''وزیر اعظم صاحب! اب ہمیں گھبرا لینے دیں‘‘۔ سوشل میڈیا پر کچھ ظالم ایسے بھی ہیں جو نہ جانے کہاں سے وزیراعظم اوران کی ٹیم کے سرکردہ رہنماؤں کے ماضی کے بیان اور ٹویٹس ڈھونڈنے میں لگے رہتے ہیں۔ ادھر پٹرول ذرا سا مہنگا ہوا تو جھٹ سے کوئی پرانا ٹویٹ اور بیان سوشل میڈیا پر ڈال دیا جس میں پٹرول کی قیمت میں اضافے کو چور حکمرانوں کی چوری ثابت کیا گیا تھا یا پٹرول کی اصلی قیمت اور ٹیکس کا موازنہ تھا۔ اپنے اپوزیشن کے دنوں میں خان صاحب سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی بھی کوشش کرچکے ہیں۔ ایسے میں انہوں نے عوام کے سامنے بجلی کے بل کو بھی آگ لگائی تھی‘ تاہم اب ان کے دور حکومت میں بجلی کی قیمت جہاں تک پہنچ چکی ہے‘ ایسے میں عوام منتظر ہیں کہ وزیراعظم انہیں کس چیز کو آگ لگانے کا مشورہ دیں گے؟ وزیر خزانہ شوکت ترین مہنگائی کا ذمہ دار ''کورونا وائرس‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ عالمی وبا سے دنیا کی سپلائی لائن متاثر ہوئی اور دنیا بھر میں اشیا کی قیمتیں بڑھیں۔ رواں ہفتے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایاکہ عالمی مارکیٹ میں چینی کی اس وقت قیمت 430 ڈالر فی ٹن ہے جبکہ 2018ء میں 240 ڈالر فی ٹن تھی۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ بھارت، سری لنکا، نیپال اور ویتنام ہم سے مہنگا پٹرول بیچ رہے ہیں۔ اب بھارت سے پاکستان کا موازنہ کریں تو پاکستانی 2 روپے 30 پیسے ایک بھارتی روپیہ بنتے ہیں۔ بھارت کی فی کس آمدن 2200 ڈالر ہے، مہنگائی کی شرح 5.6 فیصد ہے اور پٹرول کی اوسط فی لٹر قیمت 105 روپے ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدن 1190 ڈالر اور مہنگائی کی شرح 8.4 فیصد ہے۔ ایسے میں یوں موازنہ کرنا کچھ مناسب نہیں‘ تاہم دیگر حکومتی ترجمان بھی پٹرول کی قیمت میں اضافے پر کچھ ایسی ہی تاویلیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ مہنگائی اور حکومتی اعداد و شمار اپنی جگہ شاید کہیں نہ کہیں درست ہوں مگر عام آدمی بھی تاریخی طور پر ایک مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔
تبدیلی سرکار کی خوش نصیبی دیکھیں کہ ان کو اپنے اس دور میں اپوزیشن بھی ایسی ملی ہے جو تاریخ میں کم ہی کسی حکومت کو نصیب ہوئی ہوگی۔ حکومت کی پالیسیاں کتنی عوام دوست یا دشمن ہیں اس پر عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اپوزیشن کو آواز بننا ہوتا ہے لیکن اپوزیشن اب تک یہ ہی طے نہیں کرپائی کہ اسے حکومت کے خلاف آواز بننا کیسے ہے؟ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے وہ ابھی تک اس بات پر مخمصے کا شکار ہے کہ ووٹ کو عزت دینی ہے یا کارکردگی کو، بیانیے کی اس الجھن سے ان کے بڑے چھوٹے رہنما بھی اکثر پریشان رہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ تو کہہ چکے ہیں کہ مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ بعد میں کریں گے، ابھی عوام کو تبدیلی کا کچھ اور مزہ لینے دیں۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے جدا ہونے کے بعد ابھی تک خود شناسی کے ایک نئے عمل سے گزر رہی ہے‘ اس لیے وہ بھی مہنگائی جیسے اہم ترین عوامی مسئلے پر عوام کی آواز نہیں بن سکی۔ مولانا فضل الرحمن پیپلزپارٹی کے ڈسے ہیں اس لیے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں، شاید حکومتی رہنماؤں کی جانب سے بارہا کی گئی تنبیہ ان کی دل و دماغ کے کسی گوشے میں تھوڑی سی جگہ بناچکی ہے کہ کہیں پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) بھی انہیں کسی موڑ پر تنہا نہ چھوڑ جائے۔ جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف اپنے مظاہرے شروع تو کیے ہیں؛ تاہم اب تک وہ نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہورہے ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسیوں پر عوامی مفاد میں اس کی راہ میں کھڑے ہونا ہی حقیقی اپوزیشن کا کام ہوتا ہے۔ خیر ہم چونکہ ایک تاریخی دور میں جی رہے ہیں، شاید اسی لیے اپوزیشن بھی تاریخی کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہے۔ حکومتی معیشت دانوں کے معاشی اشاریے چاہے جو بھی ہوں فی الحال بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور روپے کی روز بروز گرتی قدر اس بات کے اشارے ضرور ہیں کہ ایک عام پاکستانی ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب ہورہا ہے اور یہ تاریخی دور عام آدمی کیلئے تاریکی کا دور بنتا جا رہا ہے!