تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     26-09-2021

ایک نئی مگر پُرعزم عالمی تنظیم

بہت تھکن کی نیند آئے تو ظاہر ہے صبح بھی دیر سے طلوع ہوتی ہے۔ میری آنکھ کھلی تو صبح کے نو بجنے والے تھے جبکہ ہمیں تقریب کے لیے نو بجے لابی میں جمع ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جلدی جلدی شاور لے کر تیار ہوا۔ لابی میں آیا تو سب ناشتہ کرکے تیار بیٹھے تھے۔ بے بسی دیکھیے کہ بس تیار تھی سو ناشتے کا وقت ہی نہیں تھا۔ استنبول میں پہلے ہی دن ناشتہ قضا ہو جائے تو آغاز اچھا کیسے کہا جا سکتا ہے؟سباحتین زاعم یونیورسٹی، استنبول (Sabahattin zaim university, Istanbul) ایک بڑی یونیورسٹی ہے۔ اپنے رقبے اور معیار دونوں حوالوں سے۔ یہاں اسلامک فائنانس سنٹر میں اس ورکشاپ کا پہلا سیشن تھا۔ خوبصورت آڈیٹوریم میں تلاوت قرآن کریم سے آغاز ہوا۔ ہر مندوب کے پاس ہیڈ فونز میں عربی‘ ترکی اور انگریزی میں ترجمے کا انتظام موجود تھا۔ تینوں زبانوں کی عمدہ تقریروں میں اس نئی تنظیم کے نام رکھ لیے گئے تھے۔ انگریزی زبان میں یہ تنظیم IUIP کے مخفف سے پہچانی جائے گی۔
تنظیم کا خاکہ پیش کرنے والوں نے واضح کیاکہ آخر اس تنظیم کی ضرورت کیوں ہے؟ اسلاموفوبیا مغربی دنیا کو ایک بخار کی طرح چڑھا ہوا ہے اور اس ہیجان میں مبتلا لوگ یہ وائرس آگے منتقل کررہے ہیں۔ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھائی جارہی ہے اور یہ سلسلہ تھم نہیں رہا۔ ہم سب پر فرض ہے کہ اپنی بقا کے لیے اس کے سدباب کے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ کتاب اپنی بات اور اپنا پیغام پھیلانے کا ایک موثر وسیلہ ہے چنانچہ اسلامی ملکوں کے ناشرین پر ایک اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن و سلامتی کے اس دین کے حقیقی خدوخال واضح کریں۔ بات جامع تھی اور واضح بھی‘ اور سب سے اہم یہ کہ بالکل سچ تھی۔ یہ ورکشاپ کثیرالمقاصد تھی اور اس کے کئی رخ تھے۔ ایک طرف یہ نشرواشاعت کے ذمے داروں کو اسلاموفوبیا کے خطرے سے آگاہ کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش تھی تو دوسری طرف ان تمام ناشرین کو ایک مرکزی پلیٹ فارم مہیا کیا گیا تھا جو اب تک بکھرے ہوئے تھے اور ایک جگہ جمع نہیں ہوئے تھے۔ یہ صرف مقاصد کی بات نہیں تھی بلکہ اس تنظیم کا ڈھانچہ کیا ہوگا؟ یہ کن اصولوں پر مبنی ہوگی؟ اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟بنیادی خدوخال کیا ہوں گے؟ یہ سب خاکہ بنانے والوں نے نہ صرف سوچا ہوا تھا بلکہ اسے تحریری شکل میں لاکر تمام شرکا کو فراہم بھی کردیا تھا۔
یہ تنظیم دو سطحوں پر مشتمل ہے۔ اول جنرل باڈی جس میں اہلیت کی شرائط پوری کرنے والا ہر ناشر اپنی رجسٹریشن اور سالانہ فیس ادا کرکے رکن بن سکتا ہے۔ فی الحال یہ جنرل باڈی مدعوئین اور شرکا پر مشتمل ہے۔ دوسرے بورڈ آف ڈائریکٹرز‘ ان کی تعداد 9 ہے اور انہیں جنرل اسمبلی اتفاق رائے سے منتخب کرتی ہے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز فیصلہ ساز ادارہ ہے جس میں صدر‘ نائب صدر‘ جنرل سیکرٹری اور معتمد خزانہ کے عہدے ہیں۔
پہلے اجلاس کی تقاریر بہت عمدہ تھیں۔ اس کے بعد ظہرانے اور نماز ظہر کا وقفہ تھا۔ یونیورسٹی کینٹین کے ایک بڑے ہال میں سہ طرفہ میزیں بچھی تھیں۔ عرب اور ترک مندوبین کی اکثریت تھی لہٰذا کھانوں میں بھی اسی کا اہتمام تھا۔ روایت پسند ترکوں کی یہ عادت خوب ہے کہ کھانے کے اختتام پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں۔ یہاں بھی یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ وہاں سے نکلے تو استنبول زاعم یونیورسٹی کی خوبصورت مسجد سامنے تھی جہاں نماز ادا کرنا دل کی ٹھنڈک کا سبب تھا۔ اس کے بعد دو سیشنز مزید تھے جو بنیادی طور پر پیش کردہ آئین پر بحث کیلئے تھے۔آئین منظور کرنے کیلئے جنرل اسمبلی سے منظوری ضروری تھی۔ حاضرین نے بعض نکات میں تبدیلی کی تجاویز پیش کیں۔ ان میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ اہلیت کی وہ کون سی شرائط ہوں جن کے مطابق کوئی ادارہ رکن بننے کا اہل ہو۔ طے ہواکہ ہر ملک سے فقط ایک نمائندہ اس ملک کے اندر باقی ناشرین اور ملک کی نمائندگی کرے گا۔
آئین پر بات چل رہی تھی جو چائے اور نماز کے وقفوں کے درمیان جاری رہی‘ یہاں تک کہ پہلے دن کے اجلاسوں کا وقت ختم ہوگیا۔ عشائیے اور نماز عشا کے بعد ہوٹل کو واپسی ہوئی لیکن یہ نقش گہرا تھاکہ ترک میزبانوں نے مہمان نوازی اور انتظامات میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ ورکشاپ کے منتظمین کی اس اجتماع کے بارے میں خلوص اور محنت بھی ہر ہر قدم پر ظاہر ہورہی تھی۔ ہم تمام دن کی باتوں کا خلاصہ ذہن میں جمع کرتے رہے اور اگلے دن صبح جب ناشتے کے بعد لابی میں جمع ہوئے تو یہی باتیں سب کے ذہن میں تھیں۔ میں لبنان، شام اور مراکش کے نمائندوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کررہا تھا۔ لبنان کے مندوب کا خیال تھا کہ یہ سب باتیں ہیں تو بہت اچھی لیکن کیا پوری ہوسکیں گی؟ کیا یہ تنظیم ابتدائی اقدامات کے بعد آگے چل سکے گی؟ شام کے نمائندے کے تاثرات بھی کم و بیش یہی تھے۔ ابھی یہ بات ہوہی رہی تھی کہ اردن کے مندوب ہماری اس چھوٹی سی ٹولی میں آ بیٹھے جو ابتدا سے اس تنظیم کے خدوخال بنانے میں پیش پیش تھے اور پہلے دن کی بنیادی تقاریر میں ان کی بھی اہم گفتگو تھی۔ وہ پوچھنے لگے کہ کیا باتیں ہورہی ہیں۔ ہم تذبذب میں تھے کہ ان سے اپنے شبہات کا اظہار کریں یا نہ کریں‘ لیکن پھر لبنان اور شام کے دوستوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بات کریں۔ میں نے کہا کہ دیکھیے ہم سب اس خاکے اور ان تمام باتوں سے متفق ہیں اور آپ کے ساتھ بھی ہیں‘ لیکن ہمارے ذہنوں میں کچھ شبہات بھی ہیں۔ وہ شبہات بھی میں نے بیان کیے جن میں سے ایک حکومتی سرپرستی تھی۔ میں نے گزارش کی کہ حکومتیں اور حکمران بدلتے رہتے ہیں۔ نئے آنے والے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور اپنے مقاصد۔ ایسے میں سابقہ دور میں کیے گئے کاموں کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ انہوں نے سب شبہات کا تسلی بخش جواب دیا اور یہ کہا کہ ہم نے کسی بھی حکومت کی سرپرستی نہیں مانگی نہ آئندہ ایسا ارادہ ہے۔ ہم اپنے بل بوتے پر کھڑے ہوں گے، اور کسی کی طرف دیکھنے کا ارادہ نہیں ہے‘ البتہ ہمارے ذاتی تعلقات کی وجہ سے یہ تقریب کچھ اداروں نے سپانسر کی ہے جن میں اکثر نجی ادارے اور ایک سرکاری ادارہ ہے‘ اس لیے اس میں فکر کی کوئی بات نہیں‘ اور یہ بھی ارادہ نہیں ہے کہ ابتدا میں ایک تقریب کرکے بعد میں خاموش ہوکر بیٹھ جایا جائے‘ کام انشاء اللہ آگے بڑھے گا بشرطیکہ آپ سب کا تعاون حاصل رہے۔ یہ وضاحتیں کافی اطمینان بخش تھیں لہٰذا ہم سب مطمئن ہوگئے۔ دوسرے دن کے پہلے سیشنز کا آغاز ہوا تو تنظیمی ڈھانچے کے متعلق بات شروع کی گئی۔ جنرل اسمبلی کے اراکین کی ذمے داریاں، بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ذمے داریاں وغیرہ وغیرہ۔ کچھ شرکا کو آئین کے کچھ الفاظ پر اعتراض تھا، ان کی وضاحتیں اور ممکنہ تبدیلیاں کی گئیں اور یہ سیشنز بھی اچھے انداز میں ختم ہوئے۔
اب آخری سیشن بورڈ آف ڈائریکٹرز کے انتخاب کا تھا‘ اور بہت سے لوگوں کی پہلے سے توجہ اسی طرف تھی کہ یہ فیصلہ ساز بورڈ بننا تھا۔ اس کا طریقۂ انتخاب یہ تھا کہ ایک تجویز کنندہ کسی رکن اور شریک کا نام برائے بورڈ ممبر تجویز کرتا ہے۔ باقی شرکا سے رائے پوچھی جاتی ہے اور اگر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو یا سب تائید کردیں تو وہ نام منظور ہوجاتا ہے۔ میرا اندازہ تھا اور صرف اندازہ نہیں بلکہ خواہش بھی تھی کہ جن لوگوں نے اس تنظیم کے بنیادی خیال سے آج تک کی تقریب میں بنیادی کردار ادا کیے ہیں، ان کا نام بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہونا لازمی ہے۔ اس لحاظ سے ترکی کے ڈاکٹر بولوت، جو سباحتین زاعم یونیورسٹی کے سربراہ بھی ہیں (ہمارے یہاں کی طرح اس میں ریکٹر کا عہدہ نہیں ہے‘ صدر کا ہے اور ان سے اوپر یونیورسٹی میں کوئی بھی عہدہ نہیں ہے، وہ کسی کے تابع نہیں ہیں)، اردن کے ڈاکٹر بیلبیسی اور ترکی ہی کے ڈاکٹر محمد اگی کارا کا تقرر تقریباً یقینی تھا۔ ہم سب اسی سوچ میں تھے کہ بورڈ کے 9 ناموں میں کون کون شامل ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved