تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     26-09-2021

انڈیا کی سائبر دہشت گردی

وارننگ‘ دھمکی‘ موت‘ قتل‘ خوف۔ کیا مذہب کے خلاف بولنے کی جسارت پر؟ دس میں سے کم و بیش نو افراد کہیں گے کہ یہ کسی انتہا پسند تنظیم کی طرف سے دی گئی دھمکیاں ہوں گی۔ نہیں‘ اس مرتبہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ دھمکیاں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے ہیں۔ تو کیا اس کی وجہ ہندوئوں کے کسی مذہبی مقام پر ہونے والا حملہ ہے ؟ کیا انڈیا پر کسی بیرونی جارح نے چڑھائی کردی؟کیا کہیں ہندو بطور اقلیت ظلم و جبر کا شکار ہیں؟ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ اس خطرناک دھمکی کی وجہ ایک کانفرنس کے انعقاد کی جسارت تھی جس کا عنوان Dismantling Global Hindutvaتھا۔ ہاورڈ‘ سٹینفورڈ‘ پرنسٹن‘ کولمبیا‘ برکلے ‘ یونیورسٹی آف شکاگو‘ یونیورسٹی آف پینسلوینیا اور رٹگرس سمیت 53جامعات اس کانفرنس کی معاون تھیں ۔ یہ ہے بھارت کی حقیقی صورتحال۔ ایک مرتبہ پھر اس رویے کو اجاگر کیا گیا۔ بھارتی چند دائیں بازو کے گروہوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ عالمی میڈیا مرکزی دھارے سے دور‘ دائیں بازو کے کچھ انتہا پسندوں کانام لے رہا ہے جو اپنے پیروکاروں کا دفاع کررہے تھے۔
اس صورت حال کی سنگینی کم کرتے ہوئے اس سے اغماض برتنا ''قاصد کو گولی مارنے ‘‘ کے مترادف ہے ۔ گویا جو آج کے بھارت کے چہرے سے نقاب اُٹھائے اور اس کی حقیقی شکل دنیا کے سامنے پیش کرے ‘ا سے ماردو۔ یہ نفرت‘ دہشت ‘ موت کی دھمکیاں دینے کی منظم مہم ہے ۔ اس کی سنگینی ایک مثال سے یوں آشکار ہوتی ہے کہ ان جامعات کے صدور‘ منتظمین اور افسران کو دس لاکھ سے زیادہ ای میل بھیجی گئیں جن کا مقصد اُنہیں دبائو میں لانا تھا تا کہ وہ کانفرنس کے انعقاد میں معاون سٹاف کو واپس بلالیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک منظم سرگرمی تھی جس کے پیچھے بھارت اور امریکا میں ریاست کے فنڈ سے چلنے والے گروہ کارفرما تھے ۔ ڈریو یونیورسٹی‘ نیوجرسی میں چند منٹ کے اندر تیس ہزار سے زیادہ ای میل بھیجی گئیں ۔ ان کی وجہ سے یونیورسٹی کا سرور کریش ہوگیا ۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ کیا جامعات تعلیمی تقدس پر ہونے والے اس حملے کی تحقیقات کرائیں گی؟ بھارت میں ریاست کی سرپرستی میں فعال غلط اور گمراہ کن معلومات فراہم کرنے والی فیکٹریاں اب بہت منہ زور ہوچکی ہیں ۔ ان کے سائبر حملہ آور دستے بھارت کے سیاسی سماج میں موجودہ صورتحال کی سچائی کو مسخ کرنے اور حقیقت کو چھپانے کا وتیرہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں :
1۔ بڑی مارکیٹ کی میٹھی گولی: اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دولت اہمیت رکھتی ہے ۔ انڈیا اپنی بڑی آبادی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ ایک ارب سے زائد انسان ‘ جن میں زیادہ تر نوجوان اور بچے ہیں ‘ جنوبی ایشیا کا ملٹی نیشنل انٹری پوائنٹ بن چکے ہیں ۔ اپنے ہاں موجود سرمایہ کاری کے مواقع سے نہ صرف وہ سرمایہ کاروں کو متوجہ کرتے ہیں بلکہ اس کا سیاسی فائدہ بھی اٹھاتے ہیں ۔ کشمیر میں روا رکھی جانے والی سفاکیت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی پر ترقی یافتہ دنیا نے بمشکل ہی کبھی حقیقی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ کبھی کبھار چند ایک بیانات اور رپورٹیں اور بس۔ یہ ہے کشش بھارت کی وسیع مارکیٹ کی۔
2۔ تھنک ٹینکوں کے ذریعے سوچ پر غلبہ: وہ دن گئے جب تھنک ٹینکوں کے عالمی نیٹ ورک کے ذریعے امریکا اور برطانیہ بیانیے پھیلاتے تھے۔اب ان کی نقل کرتے ہوئے چین اور بھارت نے بھی نئے تصورات‘ سوچ اور بیانیہ تخلیق کرنے کی ذہنی صلاحیتوں کو بہتر بنا لیا ہے ۔ انڈیا میں کم و بیش تین سو تھنک ٹینک کام کررہے ہیں ۔ وہ ریسرچ اور پالیسی پیپرمیں اپنی سوچ انڈیلتے ہیں ۔ یہ مواد پھر عالمی میڈیا اور دانشور حلقوں کی گفتگو‘ بحث اور سوچ کا حصہ بن جاتا ہے ۔ Global Go To Think Tank Index Reportمیں دنیا کے چوٹی کے 175کے نام شامل ہیں ۔ اس فہرست میں بھارتی تھنک ٹینک بھی خاطرخواہ نمائندگی رکھتے ہیں ۔ سنٹر فار سول سوسائٹی (سی سی ایس) 79 ویں نمبر پر‘ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انیلسز (آئی ڈی ایس اے) 104 نمبر پر‘ انڈین کونسل فار ر یسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز (آئی سی آر آئی ای آر) 109 ویں نمبر پر‘ دی انرجی اینڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ (ٹی ای آر آئی ) 111ویں نمبر پر‘ آبزرورریسرچ فائونڈیشن (او آر ایف) 118 ویں نمبر پر اور ڈویلپمنٹ الٹر نیٹو 136 ویں نمبر ہیں ۔
3۔ سائبر برتری: انفارمیشن ہائی وے پر انڈیا دیگر ترقی پذیر ممالک سے بہت آگے ہے ۔ اس نے خطے کے دیگر ممالک سے بہت پہلے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کردیا تھا۔ انڈین فیک نیوز عملی طور پر ''حقیقی‘‘ ہیں۔ انڈین کرانیکلز پر یورپی یونین ڈس انفارمیشن لیب رپورٹ نے دراصل ہمارے خدشات کی ہی تصدیق کی تھی ۔ انڈیا سائبر انٹیلی جنس‘ ہیکرز ‘ اٹیکرز‘ فیکرز کاوسیع نیٹ ورک چلار ہا ہے ۔ اُنہوںنے عملی طور پر پاکستان کے خلاف سائبر جنگ شروع کررکھی ہے ۔ یہ نفسیاتی تباہی کے ہتھیار ہیں ۔انڈیا کی سائبر ٹیررازم فورس چند منٹوں کے اندرہزاروں ٹویٹ کرتے ہوئے ٹوئیٹر پر جعلی ٹرینڈ چلا دیتی ہے ۔ یہ اُن کا روز مرہ کا معمول ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نفسیاتی یلغار کے خلاف روایتی ہتھیار کام نہیں دیں گے ۔ ان حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لیے ہمیں سائبر سٹریٹیجک فعالیت درکار ہے :
1۔ علاقائی مارکیٹ کا امکان دنیاکے سامنے رکھیں : وسطی ایشیا کے ساتھ پیدا ہونے والے تعاون کے نئے امکانات کی وجہ سے پاکستان کے پاس سہ فریقی مارکیٹ بلاک تخلیق کرنے کا سنہری موقع ہے ۔ بہت سے امکانات موجود ہیں ۔ پاکستان‘ روس ‘ ایران اور افغانستان وہ ممالک ہیں جو نہ صرف پائپ لائنز کے ذریعے آپس میں جڑسکتے ہیں بلکہ دنیا کے سامنے فروغ پاتی ہوئی مارکیٹ بھی رکھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح غیر فعال اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او)کو بھی بحال کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے دس رکن ممالک یورپی یونین سے بھی بڑی مارکیٹ رکھتے ہیں ۔ یہ مشترکہ مارکیٹ پاکستان کو بھارت کی بڑی مارکیٹ کے دبائو سے بچا لے گی ۔
2۔ مشترکہ بیانیہ : اگر انڈیا میں بہت بڑی تعداد میں تھنک ٹینک ہیں تو چین بھی تھنک ٹینکوں میں دنیا کی قیادت کرسکتاہے ۔ پاکستان کو بھارت کی من گھڑت خبروں اور گمراہ کن بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے چین کے ساتھ اشتراک کرنے کی ضرورت ہے ۔ فی الحال پاک چین تعاون صنعت اور سرمایہ کاری تک محدود ہے ۔ تاہم انڈین حملوں کا تدارک کرنے کے لیے مل کر پر مغز پالیسی سازی درکار ہوگی ۔
3۔ انفارمیشن کی شاہراہ پر تعاون : اقتصادی راہداری کی طرح انفارمیشن کی راہداری بھی ضروری ہے ۔ ترکی اور ملائیشیا کے اشتراک کے ساتھ ایک شاندار تصور وجود میں آیا تھالیکن سعودی عرب کی مداخلت سے دم توڑ گیا ۔ اب قطر اور ترکی اور کچھ اور نئے ممالک کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سوشل میڈیا پلیٹ فورمز کو عالمی سطح پر فعال کیا جاسکے ۔عالمی ناظرین تک رسائی کے لیے یوٹیوب چینلز اور پوڈ کاسٹ کی اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ پیش رفت Dismantling Global Hinduvtaکانفرنس سے کی جاسکتی ہے ۔ یہ کانفرنس مودی کے انڈیا کی سائبر دہشت گردی کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی ۔شرکا نے ظاہر کیا کہ کس طرح اُنہیں جان سے مار دینے ‘ اُن کے پاسپورٹ منسوخ کرنے اور اُن کے اہلِ خانہ کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں تاکہ وہ اس کانفرنس سے الگ رہیں۔اس کی رپورٹ دیگر متاثرہ ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ‘ ہیومین رائٹس آرگنائزیشنز اور انٹر نیشنل فورمز پر کی جانی چاہیے ۔ اس کانفرنس میں ظاہر کیا گیا کہ مودی کے دور حکومت میں آرایس ایس دنیا کی سب سے بڑی نفرت پھیلانے والی منظم انتہا پسند تنظیم ہے ۔ یہ تنظیم فکری راہ نمائی نازی ازم اور فاشزم سے لیتی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسی حقیقت سے پردہ اٹھایا تھا۔ مذکورہ کانفرنس میں شریک پروفیسروں اور تھنک ٹینکوں کی فہرست کو ریاست کی سرپرستی میں منظم نفرت‘ سائبر تشدد اور دہشت گردی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے ۔ مغرب اور دانشور طبقے کی آوازیں اب اس باب میں نمایاں ہوتی جارہی ہیں ۔ وقت آگیا ہے جب روشن انڈیا کے جھوٹے نقاب کے پیچھے نفرت کے سیاہ ناگ کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved