تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     22-07-2013

گرین مینٹل سے گرین لینٹرن تک

گزشتہ تین صدیوں کو روشن خیالی ، ترقی ، آزادی اور انسانی حقوق کے نام سے منسوب کیاجاتا ہے اور ان سب کا ایک ہی نسخہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ساری ترقی اس طرح ممکن ہوئی کہ انسان نے مذہب کی زنجیروں کو توڑ کر خود کو سوچنے اورسمجھنے کے لیے آزاد کرلیا‘ لہٰذا آج وہ ایک بہتر زندگی گزار رہا ہے۔پہلی دو صدیاں تو زنجیریں توڑنے میں صرف ہوگئیں اور جب انسان نے بیسویں صدی میں سکیولرازم ، جمہوریت اور انسانی مساوات کا خواب پورا کرلیا تو اس کے آغاز یعنی 1901ء سے لے کر آج تک اس نے اتنا خون بہایا ، اتنی جنگیں لڑیں ، اس قدر قتل و غارت کی کہ پوری انسانی تاریخ کے ظالم ترین کرداروں سکندر اعظم ، چنگیز خان اور ہلاکو جیسے ظالموں کے مجموعی جرائم بھی ان سے کم ہوں گے۔ صرف جنگ عظیم اول اور دوم کی خونریزی تاریخ کے ایک پلڑے میں اور پوری تاریخ کی خونریزی دوسرے میں رکھ دی جائے تو اس کا وزن بھاری نکلے گا۔ ان دونوں جنگوں کا آغاز مذہب سے آزاد دو بڑی جمہوریتوں برطانیہ اور جرمنی سے ہوا جو کرۂ ارض کا چہرہ خون آلود کرگئیں۔ گزشتہ سو سال سے دو اور محاذوں پر انتہائی زہریلی جنگ کا آغاز کیاگیا جو آج بھی جاری ہے۔ یہ محاذ تھے نصاب تعلیم اور میڈیا۔ان دونوں محاذوں کا ہدف صرف اور صرف مسلمان اور اسلام تھا۔کسی اور قوم یا مذہب کے بار ے میں شکر اور قند میں لپٹی اتنی زہر آلود تحریریں نہیں لکھی گئیں جتنی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف‘ مغربی یورپ اور امریکہ کا بچہ اپنے نصاب تعلیم میں جس قسم کی طلسماتی کہانیاں‘ ناول اور افسانے پڑھتا ہے اور آج جس طرح کے کارٹون اور کومکس (Comics) سے آشنا ہوتا ہے اس میں مسلمان کا کردار ایک خوفناک بھیڑیے جیسا ہے‘ جو نہ رحم کرتا ہے نہ ہی تہذیب سے آشنا ہے۔ کہیں وہ ایک سازشی کردار ہے تو کہیں عورتوں اور بچوں پر ظلم کرنے والا۔ کتابوں میں جو تصویریں بنائی جاتی ہیں ان کا حلیہ ہمارے اسلاف کے حلیے سے ملتا جلتا ہوتا ہے تاکہ بچوں کے ذہن میں یہ چیز نقش ہوجائے کہ پگڑی، داڑھی اور ڈھیلے ڈھالے لباسوں والے لوگ خوفناک دہشت گرد ہوتے ہیں۔ یہ کام اس خوبصورتی سے کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا اسے ایک ڈرامائی ضرورت، سکرپٹ کی مجبوری اور حقیقت نگاری سمجھ کر قبول کرلیتا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب اس شکر میں لپٹے زہر آلود پراپیگنڈے کا آغاز ہوا تو جان بوچن (John Bochan) کا ناول گرین مینٹل (Green mantle) 1916ء میں برطانیہ میں چھپا۔اس کے سرورق پر ایک ایسے شخص کی تصویر بنائی گئی تھی جو اس زمانے کے ایک مسلمان عالم دین سے ملتی جلتی تھی۔ اس ناول کا کردار رچرڈ ہینی ان افواہوں کی تحقیق کے لیے نکلتا ہے کہ پوری مسلم دنیا میں بیداری اور بغاوت کی چنگاریاں سلگ رہی ہیں اور افریقہ سے لے کر ہندوستان تک مسلم امہ مغربی قابض قوتوں کے خلاف متحد ہورہی ہے۔ اس پورے ناول میں اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے کردار کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ مغرب میں بیٹھا قاری اسے پڑھتے ہی خوفزدہ ہوجائے‘ اُسے ان لوگوں میں تشدد ، لوٹ مار ، دہشت اور جہالت کے سوا کچھ نظر نہ آئے۔گرین مینٹل کا کردار بھی پیغمبرانہ صفات رکھنے والے ایک ہیرو کا ہے جسے مسلم دنیا زمرد جیسے القاب سے جانتی ہے۔اس ناول میں مسلم دنیا اور مسلمانوں کا جو تصور پیش کیا گیا اسے ایک مہم کے ذریعے انگلینڈ اوریورپ کے ہر معاشرے میں ترجمے کے ذریعے ایسے پھیلایا گیا کہ مغرب میں موجود آج کی نسل کے ذہن میں سوائے ایک خوفناک مسلمان کے اور کوئی دوسرا تصور ہی نہیں ہے۔ اس ناول کا اثر اس قدر خوفناک ہے کہ جب 7 جولائی2005ء میں لندن میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے تو اس زمانے میں گرین مینٹل کی اقساط بی بی سی پر نشر کی جارہی تھیں۔ بی بی سی نے اپنے ریڈیو 4 پر اس کی نشریات بند کردیں کہ کہیں یہ آگ اور نہ بھڑک اٹھے اورپورے برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ نصاب تعلیم اور میڈیا کا یہ گٹھ جوڑ اور اس کے ذریعے نسل در نسل مسلمانوں اور اسلام کے تصور کو مسخ کرنے کا دھیما ، خاموش اور غیر محسوس طریقہ آج تک جاری ہے۔کسی شاندار مسلمان ہیرو کے کردار میں کوئی ایسی خامی ڈال دی جاتی ہے جس سے اس کا تصور خوفناک اور اجڈ سا بن جاتا ہے۔ گرین مینٹل کولکھے سو سال سے زیادہ ہوگئے۔ آج کی دنیا نصاب تعلیم میں ناولوں سے زیادہ کومک (Comic) ، کارٹون اور اینیمیٹڈ (Animated) فلموں کی دنیا ہے ۔ یہ کارٹون اور کومک اب چوہے بلی سے نکل کر سپرمین اور بیٹ مین جیسے مافوق الفطرت انسانی کرداروں تک آچکے ہیں۔ٹارزن کی کہانیاں اس کا آغاز تھیں ۔اس وقت کومک (Comic) یعنی تصویری کہانیاں چھاپنے والا سب سے بڑا ادارہ DC Comic ہے۔ 1940ء میں قائم ہونے والے اس ادارے نے 1960ء کی دہائی میں اپنے کرداروں کو معاشرے میں پھیلے جرائم‘ جن میں منشیات اور نسل پرستی شامل ہے‘ کی بیخ کنی کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ ایک سپرمین کا کردار ایسی آسمانی بلائوں سے بھی لڑتا ہے جو خلائوں سے نازل ہوتی ہیں اور زمینی آفتوں کا بھی مقابلہ کرتا ہے۔ سپرمین، بیٹ مین اور سپائیڈر مین جیسے کردار جس سیریز کا حصہ ہیں اسے گرین لینٹرن (Green Lantern) کہتے ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی ان کی ایک اور سیریز گرین ایرو (Green Arrow) بھی ہے۔ اس طرح کے ہیرو تراشنے سے امریکی بچوں میں ایک خیال راسخ کیا جاتا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں۔ ان کا ایک سپرمین دنیا کی ہر بلا، آفت، مصیبت اور جنگ کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ یہ تمام کے تمام کارٹون، کومک (Comic) اور فلمیں پوری دنیا میں موجود چینلوں پر دکھائی جاتی ہیں اور بچے ان کو مبہوت ہو کر دیکھتے ہیں۔ اس مسحور مخلوق کے لیے گرین لینٹرن نے اب ایک ایسا سپرمین تراشا ہے جو امریکی مسلمان ہے‘ جس کا خاندان لبنان سے آ کر ڈیٹرائٹ کے علاقے میںآباد ہوتا ہے۔ اس ہیرو یا سپرمین کا نام سائمن باز (Simon Baz) ہے۔ یہ سپر مین بچپن میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت پر گیارہ ستمبر کے حملہ کو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ دیکھتا ہے اور پھر اس دہشت گردی اور تشدد کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس کردار کو تخلیق کرنے کے لیے اس کے بچپن کو ڈیٹرائٹ کے ساتھ جوڑا گیاجہاں امریکہ کی سب سے قدیم مسلم آبادی موجود ہے۔ اب یہ کردار جو ایک خالصتاً مغرب زدہ معاشرے کی اقدار میں رچا بسا ہے‘ ویسی ہی رومانوی زندگی گزارتا ہے، بوس و کنار کرتا ہے، اسی طرح کے کھانے کھاتا ہے، لیکن یہ ایک مسلمان ہیرو کے طور پر بچوں کے دلوں میں نقش ہوجائے گا اور پھر ان فلموںمیں اس کے خلاف جنگ کرنے والے بھی تو مسلمان ہوں گے، جو دہشت گرد ہیں۔ جن کے حلیے افغانوں، پاکستانیوں یا عربوں جیسے ہوں گے۔ انہیں مزید خوفناک بنایا جائے گا۔ یوں ہر وہ گھر جس میں بچے کارٹون دیکھتے ہیں وہاں پاکستان، افغانستان، عرب دنیا اور دیگر علاقوں کا مسلمان خوفناک حد تک انسانیت دشمن اور امریکی فضائوں میں پروان چڑھنے والا سائمن باز سپرمین بن کر ابھرے گا۔ یہ ہے وہ جنگ جو اس امت کے خلاف ہر لمحہ اور ہر وقت لڑی جاری ہے۔ ہر دیکھنے والا، بولنے والا، فلم بنانے والا ہمہ وقت مصروف ہے ا ور یہ امت ہے جسے صرف میڈیا سے گلہ کرنا ہے۔ کھربوںڈالروں سے مالا مال ملت اسلامیہ کے سپوت کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں چلا رہے جو اسی زبان، لہجے اور اسی طریقۂ اظہار میں اس کا جواب دے۔ مسلسل جنگ کے اس موسم میں دولت کے انباروں پر بیٹھنے والے اگر ایسا ایک بھی ہتھیار تیار نہیں کرتے جو علمی، تحقیقی اور میڈیا کے محاذ پر مقابلہ کرسکے تو اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved