تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     27-09-2021

نئے المناک تجربے کا سبق کیا ہے ؟

کو رونا وائرس کے خوف اور دہشت میں کچھ کمی ہوئی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وائرس کا خطرہ ٹل گیا ہے یا دنیا اس آفت پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ حقیقت دراصل اس کے بر عکس ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کا اس بات پر بڑی حد تک اتفاق پا یا جاتا ہے کہ یہ آفت ہمارے ارد گرد پوری طرح موجود ہے اور اس سے جان چھڑانے کا اس وقت تک واحد معلوم طریقہ ویکسین ہے۔ ویکسین کے علاوہ دنیا میں اس بیماری سے بچاؤ کے اور بھی کئی طریقے اختیار کیے گئے جن میں ماسک اور جسمانی فاصلے وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب طریقے اس بیماری سے بچنے یا اس کا پھیلاؤ کو روکنے میں کسی حد تک معاون ضرور ثابت ہوئے ہیں لیکن یہ سارے طریقے اس مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوئے۔ آج بھی اس مسئلے کا مثالی اور مکمل حل تو کوئی نہیں ہے لیکن اس وقت تک جو کافی حد تک کامیاب حل سامنے آیا ہے وہ ویکسین ہی ہے اور ظاہر ہے یہ بھی کوئی سو فیصد کار آمد طریقہ نہیں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے کئی ممالک میں ایسے لوگ بھی اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جو ویکسین کے دونوں ٹیکے لگوا چکے تھے۔ گویا ویکسین بھی پوری آبادی یا ہر شخص کو تحفظ نہیں دیتی‘ لیکن اس کے تحفظ فراہم کرنے کی شرح کافی بلند اور اطمینان بخش ہے۔ اس طرح اس وقت دنیا بھر میں ویکسین ہی آخری سہارا ہے اور انسان اس پر پر تکیہ کرنے پر مجبور ہے۔ لیکن اس بات پر بھی ماہرین کا اتفاق پایا جاتا ہے کہ کسی ملک میں ویکسین صرف اس وقت قابلِ انحصار ہتھیار ہے جب اس ملک کی 70 فیصد آبادی کو ویکسین کے دونوں ٹیکے لگائے جا چکے ہوں۔ اس وقت اگر دنیا کی بحیثیت مجموعی ویکسین کے باب میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آتے۔ اس وقت تک دنیا بھر میں ویکسین کے دو ارب کے قریب ٹیکے لگا ئے جا چکے ہیں لیکن ان ٹیکوں کی تقسیم بڑی حد تک غیر مساوی ہے۔ اس باب میں بڑی سرگرمی ترقی یافتہ یا امیر اور خوشحال ممالک تک محدود رہی ہے۔ کل ٹیکوں کی بہت بڑی تعداد ان ممالک میں لگائی گئی ہے۔ دوسری طرف پورے بر اعظم افریقہ میں یہ سطور لکھنے تک صرف ایک اعشاریہ دو فیصد آبادی کو ویکسین لگائی گئی ہے۔ اسی طرح ایشیا میں بھی صورت حال کوئی زیادہ قابلِ رشک نہیں ہے۔ پورے بر اعظم میں اس وقت تک ویکسین لگوانے والوں کی تعداد صرف چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہے‘ حالانکہ اس خطے میں خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں۔ یہی صورت حال جنوبی امریکہ میں بھی ہے۔ اس وقت تک جنوبی امریکہ میں ویکسین لگوانے والے لوگ کل آبادی کے14 فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔
اس وقت دنیا میں ویکسین لگوانے اور اس کی تقسیم کے لیے بڑی حد تک 'کو وِکس‘ پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ خوشحال ممالک اس سلسلے میں کووکس سے مالی تعاون کر رہے ہیں۔ کووکس نے اس سال دنیا کے غریب ترین اور متوسط ممالک کی27فیصد آبادی کو ویکسین لگوانے کا اندازہ لگایا تھا لیکن بقول اس تنظیم کے وسائل کی کمی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اس تنظیم کے مطابق اس وقت ویکسین بنانے‘ اس کی تقسیم اور اس سے جڑے اخراجات کو لے کر دنیا بہت بڑے مسائل کا شکار ہے۔ اگرچہ امیر ممالک نے کافی بڑی تعداد میں ویکسین عطیہ کی ہے لیکن اس طرح کے اقدامات بے حد مفید اور مدد گار ہونے کے باوجود مسئلے کا مکمل حل نہیں ہو سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وائرس پر قابو پانے کے لیے جس مقدار میں وسائل کی ضرورت ہے‘ وہ مہیا نہیں ہو رہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ستر فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کے لیے پچیس سے پچاس بلین ڈالرز کے درمیان وسائل کی ضرورت ہو گی۔ یہ بہت بڑی رقم ہے مگر یہ اس رقم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو وائرس کی وجہ سے خرچ ہو رہی ہے یا مستقبل میں دنیا کو خرچ کرنا پڑ سکتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک پہلے ہی وائرس کی تباہ کاریوں سے نکلنے اور اپنی ڈگمگاتی معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ صرف اس سال اس وائرس کی وجہ سے دنیا کو دس کھرب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس بھاری نقصان اور دماغ کو چکرا دینے والے اخراجات سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہووائرس پر قابو پا لیا جائے لیکن ایسا صرف امیر اور ترقی یافتہ دنیا میں ہی نہ ہوبلکہ اس کا دائرہ کار تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک تک پھیلانا ضروری ہے۔ چونکہ جب تک یہ وائرس غریب ممالک سمیت پوری دنیا سے مٹ نہیں جاتا اس وقت معیشت پہلے کی طرح نہیں چل سکتی۔ اس مقصد کے لیے دنیا کو ایک مشترکہ اور متحدہ کوشش کا آغاز کرنا ہو گا۔ کووڈ کے تلخ تجربات سے دنیا نے بہت سے سبق سیکھے ہیں‘ ایک سبق یہ ہے کہ صحت اور اس کی سہولتوں کے بارے میں دنیا کو معاشی مساوات اور انصاف پر مبنی ایک نیا عالمی نقطہ نظر اپنانا ہو گا۔ اس گلو بل تصور کے بغیر مستقبل میں کورونا جیسی تباہ کن آفات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کووڈ کی وجہ سے مختلف ممالک میں یونیورسل ہیلتھ کیئر کا تصور ابھرا اور واضح ہوا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری کو صحت کی برابر سہولتیں میسر ہوں۔ اب یہ تصور عالمی افق پر اپنی جگہ بنانا شروع ہو گیا ہے۔ دنیا میں ایسی سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جو سب شہریوں کے لیے صحت کی بنیادی اور مساوی سہولتوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔ دوسری طرف دنیا نے یہ تجربہ کر کے دیکھ لیا کہ کسی ایسی ناگہانی آفت کی صورت میں کوئی ملک اپنی سرحدیں بند کر کے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کر سکتا۔ سرحدوں کے اندر بند ہو کر محفوظ ہونے کا طریقہ وقتی ہے جو لمبے عرصے میں کسی ملک کی معیشت کو زمین بوس اور دیوالیہ کر سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں وائرس‘بیکٹیریا اور دیگرجرثومے سرحدوں کے اندر قید نہیں کیے جا سکتے؛چنانچہ دنیا کو مل جل کر ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جس کے لیے مالی وسائل اور افرادی قوت میں شراکت داری بھی کرنا پڑتی ہے لہٰذا دنیا کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ایک مشترکہ عالمی میکانزم طے کیا جائے جس کے تحت اس قسم کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مشترکہ افراد ی قوت کا استعمال ممکن ہو سکے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام صحت کے موجودہ عالمی ادارے کے قیام کے پس منظر میں یہی تصور کار فرما تھا۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے چارٹر میں صحت کی مساوی سہولتوں سمیت دیگر اصولوں کا واضح ہونا اس ضرورت کی عکاسی ہے۔ اس سلسلے میں اس تنظیم کے حوالے سے دنیا نے قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے لیکن جدید دور کے تقاضوں اور جدید خطرات کے پیش نظر ایک حقیقی عالمی اپروچ کی ضرورت ہے تاکہ بوقتِ ضرورت اس طرح کی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف امیر اور خوشحال ممالک میں ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کے غریب ممالک کو بھی مطلوبہ وسائل مہیا کیے جائیں۔ اگر ایسا کووڈ وبا کے ابتدا میں ہی کیا جا سکتا تو دنیا کے دو سال اور کھربوں ڈالر یوں خاک نہ ہوتے اور لاکھوں لوگ جانی اور مالی نقصان اور جذباتی صدمے کا شکار ہو نے سے بچ سکتے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved