تفتیش کیلئے جس دن بلایا‘ بدتمیزی کی: شہباز شریف
قائدِ حزب اختلاف میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''ایف آئی اے نے جس دن تفتیش کے لیے بلایا، بدتمیزی کی‘‘ اور اس سے بڑی بدتمیزی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مجھ سے میرے اثاثوں اور اکائونٹس وغیرہ کے حوالے سے الٹے سیدھے سوالات کیے جبکہ سارا حساب کتاب میرے بیٹوں کے پاس ہے اوربدنیتی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ مبینہ منی لانڈرنگ کے ثبوتوں پر مشتمل 5 صندوق لا کر انہوں نے عدالت میں پیش کر دیے حالانکہ وہ یہ سارا کچھ ایک بڑے صندوق میں ڈال کر بھی لا سکتے تھے۔ آپ اگلے روز عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نواز شریف اور اشرف غنی اپنے ملک
کا پیسہ لوٹ کر بھاگے: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور اشرف غنی اپنے ملک کا پیسہ لوٹ کر بھاگے‘‘ حالانکہ اگر وہ کسی اور ملک کا پیسہ لوٹ کر بھاگتے تو اور بات تھی، اور اگر یہ اپنے ہی ملک کا پیسہ تھا تو اسے لوٹ کر بھاگنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ اس کی کئی روشن مثالیں موجود ہیں کہ ملک کا پیسہ لوٹنے کے بعد بھاگنے کے بجائے یار لوگ ملک کے اندر ہی رہے اور کئی کئی سال تک قید بھگتتے رہے اور جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ ملک کا پیسہ ملک کے اندر ہی رہا؛ اگرچہ پھر وہ دوسرے ملکوں میں بھی منتقل ہوتا رہا۔ اب جو اثاثے دیگر ملکوں میں اس پیسے سے بنائے گئے ہیں‘ انہیں بھی قومی اثاثے ہی سمجھا جائے گا کیونکہ وہ قوم ہی کے قابلِ فخر افراد کے نام پر ہیں۔ آپ اگلے روز جہلم میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف کا جعلی ویکسی نیشن اندراج
حکومت کی نا اہلی ہے: محمد زبیر
سابق گورنر سندھ اور لیگی رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کا جعلی ویکسی نیشن اندراج حکومت کی نا اہلی ہے‘‘ اور حکومتی حلقوں کا یہ الزام اس کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ اندراج مسلم لیگ کے رہنمائوں کی سازش کا نتیجہ ہے، کیونکہ اگر یہ الزام صحیح ہے تو اس فنکاری کی داد دینی چاہیے۔ اگر چہ ہمارے قائد کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا کیونکہ وہ اپنی مہارت کا ثبوت پہلے بھی کئی بار دے چکے ہیں، اور اگر ملک میں موجود ہماری قیادت واقعی اتنی ذہین واقع ہوئی ہے تو وہ یقینی طور پر حکومت کی زیادہ اہل ہے اور ان حالات میں یہ کرشمہ کر دکھانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
وزیراعظم نے برابری ، غربت کے خاتمے اور
ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات کی: فیاض چوہان
پنجاب حکومت کے ترجمان اور وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے برابری ، غربت کے خاتمے اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر بات کی‘‘ اور اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ ان مسائل کا حل حکومت کا کام نہیں ہے، اول تو ان موضوعات پر بات کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی سطح کے کام ہی نہیں ہیں اور حکومت آج کل متعدد بین الاقوامی مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہے جن میں مسئلہ افغانستان بطور خاص شامل ہے اور یہ ہماری دریا دلی ہے کہ افغان حکومت کو تسلیم کیے بغیر ہی ہم اس کی ترجمانی کا پورا پورا حق ادا کررہے ہیں اور اس سے فارغ ہوتے ہی جلد ملکی مسائل پر بھی متوجہ ہوں گے۔ آپ اگلے ر وز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شہباز شریف کے خلاف مقدمات سے وزیراعظم
سیاست میں زندہ ہیں: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کے خلاف مقدمات سے وزیراعظم سیاست میں زندہ ہیں‘‘ اور اگر سچ پوچھیں تو وہ خود بھی انہی مقدمات کی وجہ سے سیاست میں زندہ ہیں اس لیے ان دونوں کو احتساب والوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ مقدمات آج ختم ہو جائیں تو دونوں کی سیاست بھی ختم ہو جائے گی اور اسی لیے حکومت ان مقدمات پر اتنی توجہ دے رہی ہے کہ یہ اس کے لیے بقا کا سوال ہے اور موجودہ حکومت کو سیاست میں زندہ رہنے کے لیے یہی بہانہ راس آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز شہباز شریف کی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
معاشی ٹیم کام کر رہی، حکومت کو مہنگائی
کا احساس ہے: علی امین گنڈاپور
وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ''معاشی ٹیم کام کر رہی، حکومت کو مہنگائی کا احساس ہے‘‘ اور اگر معاشی ٹیم نے تین سال کے بعد کام شروع کر دیا ہے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ تین سال تک کچھ نہ کرنے کے بعد تو اس کی عادت پڑ جاتی ہے، اور عادت کے خلاف کچھ کرنے کے لیے بڑے دل جگرے کی ضرورت ہوتی ہے جو کثرتِ استعمال سے کافی متاثر ہو چکے ہیں اور اگر حکومت کو مہنگائی کا احساس شروع ہو گیا ہے تو قوم کو اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ مہنگائی کے خاتمے کے اقدامات کے بجائے اس کا احساس ہی کافی ہے کیونکہ ہم حکومت کرنے آئے ہیں، احساس وغیرہ کرنے نہیں۔ آپ اگلے روز ڈی آئی خان میں ڈگری کالج کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
نہ رونا رہ گیا باقی نہ ہنسنا رہ گیا باقی
اک اپنے آپ پر آوازے کسنا رہ گیا باقی
ہوس کے آگ نے دن رات رکھا اپنے چنگل میں
بہت کھیلا ہمارے تن سے، ڈسنا رہ گیا باقی
ہماری خود فراموشی یہ دنیا جان جائے گی
ذرا سا اور اس دلدل میں دھنسنا رہ گیا باقی
کسی کو رشک آئے کیوں نہ قسمت پر ہماری اب
اُجڑ آئے ہیں ہر جانب سے، بسنا رہ گیا باقی
کہاں کے کارِ دنیا نے ہمیں مشغول کر رکھا
اب اس سے بات کرنے کو ترسنا رہ گیا باقی
پیامِ یار کا ہر حرف ہم دھڑکن میں رکھتے ہیں
یہ نامہ جیب میں اپنی اڑسنا رہ گیا باقی
ہوا لبریز پیمانہ بھی خالی دھمکیوں کا اب
گرجنا ختم ہی سمجھو، برسنا رہ گیا باقی
کسی کی آنکھ نے سحرِ تحیر باندھ رکھا ہے
نویدؔ اس دامِ یکتائی میں پھنسنا رہ گیا باقی
آج کا مقطع
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں، ظفرؔ
کہاں سے دور ہے دنیا، کہاں سے دور نہیں