تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     27-09-2021

ویتنام سے افغانستان تک‘ ہزیمت کا سفر

جنگ کے نشے میں مبتلا امریکا خونیں تاریخ رکھتا ہے۔ بحرو بر اور فضا‘ تینوں پر اس وقت اس کا یکساں کنٹرول ہے۔ بیک وقت عسکری سپر پاور ہونا اور کمزور ملکوں پر جنگ مسلط کرنے کیلئے ہر سال کئی سو ارب ڈالر کا بل پاس کیا جاتا ہے۔ 'ایک ملک کو بچانے کیلئے کبھی اس کو تباہ بھی کرنا پڑتا ہے ‘ کے فلسفے پر عمل پیرا، طاقت کے نشے میں مخمور واشنگٹن ویتنام، کمبوڈیا،صومالیہ ،عراق ، لبنان اورافغانستان جیسے ممالک پر حملہ کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ 1776 ء میں جب امریکا آزاد ہوا تو یہ اُس کا پہلا شکار آبائی امریکی رہائشی تھے، نو آزاد شدہ امریکا کی فوج نے بے رحمی سے لوگوں کو ملک بدر کرنا شروع کیا، ہزاروں بلکہ لاکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 1848ء تک امریکا قریب قریب آدھے میکسیکو پر قبضہ کر چکا تھا۔ زمینی قبضوں کی توسیع کیلئے امریکا نے ایک ورلڈ کلاس بحری فوج تشکیل دی جس کے انچارج‘ مستقبل کے امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ تھے۔ روزویلٹ کے چارج سنبھالنے کے اگلے ہی برس امریکا نے سپین کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا، اس کی کالونیاں‘ جن میں کیوبا اور فلپائن بھی شامل تھے‘ امریکا کے قبضے میں آ گئیں،لیکن اس دوران امریکی فوج کو فلپائن کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی فوج کو حکم تھا کہ ' سب کو جلا دو اور مار ڈالو‘، انہوں نے ایسا ہی کیا۔ فلپائن کے فتح ہونے تک چھ لاکھ لوگ مارے جا چکے تھے۔ 1898ء سے 1934ء کے درمیان امریکی بحری فوج نے کیوبا پرچار مرتبہ ، نکاراگوااپر پانچ مرتبہ، ہنڈورس پر سات مرتبہ، ڈومینیکن ریپبلک پر چار مرتبہ، ہیٹی پر دو مرتبہ، گوئٹے مالاپر ایک مرتبہ ، پاناما پر دو مرتبہ ، میکسیکو پر تین مرتبہ، اور کولمبیا پر چار مرتبہ حملہ کیا۔ کئی ممالک میں امریکی بحری افواج نے کئی کئی دہائیاں گزاریں ۔ دو عالمی جنگوں کے بعد برطانوی استعمار کے اضمحلال اور عالمی معاملات پر اس کی گرفت کمزور پڑتے دیکھ کر امریکا نے ناگاساکی اور ہیروشیما میں دو ایٹمی حملوں کے ذریعے لاکھوں بے گناہ افراد کو ہلاک کر کے دنیا کی چودھراہٹ سنبھال لی۔ اس کے بعد سے امریکا اسی رخ پر مسلسل آگے بڑھتا چلا گیا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد نیوورلڈ آرڈر کا اعلان اس کا نقطۂ عروج تھا۔ امریکا نے جہاں مختلف ممالک میں آمریتوں کو سپورٹ کیا‘ وہاں لاؤس، کمبوڈیا، ویتنام، افغانستان، عراق اور دیگر ملکوں میں فوج کشی کر کے ان اقوام و ممالک کی آزادی و خود مختاری کو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پامال بھی کیا۔ امریکا نے اسرائیل کے قیام میں بھرپور مدد فراہم کر کے عربوں اور فلسطینیوں کے انسانی و شہری اور قومی و مذہبی حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کے قتل عام اور دربدری کے جس سلسلے کی پشت پناہی شروع کی تھی وہ ابھی تک جاری ہے۔ اقوام متحدہ کا قیام اقوام و ممالک کے درمیان جنگ کو روکنے اور تنازعات کو نمٹانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا مگر امریکا نے ویٹو پاور کے تحت اس عالمی فورم کو بھی اپنے مخصوص مقاصد کے لیے انتہائی چالاکی کے ساتھ استعمال کرنا شروع کر دیا۔
بہر حال اب امریکا 20 سال تک طالبان کے ساتھ لڑنے کے بعد ناکام ونامراد ہو کر واپس جا چکا ہے، طالبان نے اس کی عسکری حیثیت اور سفارتی قوت کے تارپودبکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان پہلے کی نسبت بہت بہتر اور مفاہمانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں ؛تاہم موجودہ عالمی تناظر میں نام نہاد سپر پاو ر کے افغانستان کے پہاڑوں میں رہنے والے خاک نشینیوں سے مات کھانے کے بعد یقین ہو چلا ہے کہ اب دنیا کے حالات بہت جلد کروٹ لینے والے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل جیسے دہشت گردوں کی اب بہت جلد اینٹ سے اینٹ بجائی جانے والی ہیں۔ لہٰذا یہ سبق ہے دنیا کے ظالم حکمرانوں کیلئے کہ اگر ظلم وزیادتی کروگے تو اللہ تم پر تم سے بہتر اور شاندار لوگوں کو حکمران بنا دے گا اور وہ تمہارے ظلم کو ملیا میٹ کردیں گے۔ شرط یہ ہے کہ اگر کسی قوم کے افراد میں خوئے غلامی نہیں ،اور وہ جذبہ حریت کو عبادت سمجھ کر مسلسل کشمکش اور انتھک جدوجہد میں یقین کامل رکھتے ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت طویل عرصے تک انہیں نہ تو مغلوب اور نہ ہی شکست سے دوچار کرسکتی ہے ۔ افغانستان میں امریکا اور مغربی طاقتوں کی توہین آمیز شکست کا سبب مغرب کی متکبرانہ سوچ اور طرزِ فکر میں مضمر ہے۔ نیٹو اتحاد دنیا کا جدید ترین فوجی سازوسامان رکھنے کے باوجود ہزاروں فوجی گنوا بیٹھا اور آخرکار افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ پوری تاریخ میں جارح قوتوں کا انجام یہی رہا ہے۔ 1993 ء میں امریکا نے صومالیہ کے اندر فوجی کارروائی کی مگر موغادیشو کی سڑکوں پر مردہ امریکی فوجیوں کو گھسیٹنے والے مناظر امریکا کو ابھی تک یاد ہوں گے۔ امریکی غرور ویتنام میں بھی چکنا چور ہوا تھا اور افغانستان میں بھی امریکی گھمنڈ اور تکبر کے شیش محل ٹوٹنے کی صدائے باز گشت ساری دنیا میں گونج رہی ہے جو مادی قوتوں پر انحصار اور ایمان رکھنے والوں کیلئے حیران کن ، ناقابل یقین ا ور تعجب خیز ہے۔ حیران کن بات ہے کہ امریکا کی افغانستان پر مسلط کردہ حکومت اور تیار کردہ افغان نیشنل آرمی ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی ۔ امریکا نے 3 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل افغان نیشنل آرمی کی اعلیٰ سطحی تربیت پر کروڑوں نہیں اربوں ڈالر خرچ کیے مگر طالبان نے اپنی جنگی حکمت عملی سے امریکی انٹیلی جنس کے تمام دعووں کو یکسر غلط ثابت کردیا۔ اس حوالے سے امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا سی این این کو دیا گیا انٹرویو بھی اہم ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ افغان فورسز قطعی ناکام ثابت ہوئیں اور یہ سب کچھ ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق ویتنام اور کمبوڈیا میں امریکا نے جتنا اسلحہ استعمال کیا‘ جس میں میزائل، بم، گولہ بارود سبھی شامل تھے‘ اس وقت تک کی انسانی تاریخ کی معلوم تمام جنگوں میں استعمال شدہ اسلحہ سے زیادہ تھا۔ اس بربریت کے با وجود امریکا کو ویتنام میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ویتنام کی جنگ کے بعد اپنی خفت کو مٹانے اور اپنے عوام کو '' چکر ‘‘ دینے کے لیے اپنی شکست کا سارا ملبہ ویتنام کے پڑوسی ممالک پر ڈالتے ہوئے امریکی صدر نکسن نے 1970 ء میں کمبوڈیا پر حملہ کر دیا تھا۔ ''واٹسن ا نسٹیٹیوٹ ا ور بوسٹن یونیورسٹی‘‘ کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق لاحاصل افغان جنگ پر امریکا نے 22کھرب ڈالرز خرچ کئے ۔ 1950ء سے لے کر اب تک کئی لاکھ امریکی فوجی زندگی بھر کیلئے معذور ہو چکے ہیں، خلیجی جنگوں میں زندہ بچ جانے والے فوجی گلف وار سینڈروم میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ویتنام کی جنگ سے واپس آنے والے فوجی جنگ کی ہولناک یادوں کے باعث ''پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر‘‘کا شکار ہوگئے تھے۔ ویتنام جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں سے زیادہ امریکی فوجی خودکشی کرنے سے ہلاک ہوئے۔ ویتنام کی جنگ امریکا کی سمندر پار جنگوں کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ تھی۔ ویتنام کے بعد افغانستان میں امریکا کی دوسری طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوا۔ یہ جنگ امریکا کی مہنگی ترین جنگ ثابت ہوئی ہے۔ ویتنام جنگ کے دوران امریکا میں پانچ صدور بدلے جبکہ افغانستان کی جنگ (11 ستمبر 2001 ء کے بعد سے 2021 ء تک) 20 سال تک جاری رہی۔ اس جنگ کے دوران بھی یکے بعد دیگرے چار صدور بدلے۔ امریکا نے ویتنام کی جنگ پر 168 ارب ڈالر خرچ کیے جو آج کے 1 ٹریلین ڈالر کے برابر ہیں جبکہ ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ امریکا کے لیے خوفناک ترین جنگ تھی۔ 58000 سے زائد امریکی فوجی ویتنام کی جنگ میں مارے گئے جبکہ افغانستان میں انسانی قیمت کم چکانا پڑی اور کل 2500 فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں؛ البتہ نیویارک ٹائمز کے مطابق افغان جنگ کی لاگت 2 کھرب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔ امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس نے طالبان کا وجود ختم کردیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ویتنام میں امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس نے کمیونسٹوں کو کچل دیا ہے مگر امریکا کو وہاں کمیونسٹوں کے ہاتھوں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ تاریخ افغانوں کے اس کردار کو کبھی محو نہیں کر سکے گی کہ انہوں نے بیس سال تک تنہا جنگ لڑ کر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مسلح افواج کو یہ کہتے ہوئے واپسی پر مجبور کر دیا کہ ''ہم جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکے‘‘ ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved