تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-09-2021

یہ سلسلہ کب سے جاری ہے؟

طالبان کی حکومت بنتے ہی ‘ بھارتی گجرات کی بندرگاہ مندرا سے 3کھرب روپے سے زائد مالیت کی تین ٹن ہیروئین کاپکڑا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ خبر عام ہوتے ہی بھارت کی جانب سے یہ مشہور کر دینا کہ منشیات کی یہ بھاری کھیپ طالبان نے سفید پتھروں کے پائوڈر کے نام سے گجرات بھیجی تھی‘ مودی ٹولے کے علاوہ کسی اور کو ہضم نہیں ہو رہا۔ جو دو لوگ اس سلسلے میں گرفتارکیے گئے ہیں‘ ان سے متعلق بھی کسی قسم کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جا رہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس وقت بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتیں منشیات کی اس بھاری کھیپ کا تعلق نریندر مودی سے جوڑتے ہوئے مودی کو ''منشیات فروش‘‘ قرار دے رہی ہیں۔ گجرات کی مندرا بندرگاہ‘ جہاں سے2ارب ڈالر سے زائد مالیت کی ہیروئین کے دوکنٹینرزپکڑے گئے ہیں‘ مودی کے وزیر مالیات گوتم اڈانی کے کنٹرول میں ہے اور گوتم اڈانی کس کے کنٹرول میں ہیں‘ یہ بات پوری دنیا بخوبی جانتی ہے۔ مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ مذکورہ مندرا بندرگاہ میں پچیس فیصد شیئر نریندر مودی کے ہیں۔
بھارت کی ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس (ڈی آر آئی ) نے جو رپورٹ میڈیا کو جاری کی ہے‘ اس کے مطا بق انہیں اطلاع ملی تھی کہ منشیات کی ایک بڑی کھیپ بھارت بھیجی جا رہی ہے۔ یہ تو وہ کہانی ہے جو بھارتی میڈیا بیان کر رہا ہے مگر اصل کہانی کچھ اور ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تہ در تہ کھلنے والے پردے بتا رہے ہیں کہ اصل کہانی وہ نہیں جو بیان کی گئی ہے بلکہ چور گھر کے اندر ہی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس مطالبہ کر رہی ہے کہ ان کنٹینرز کی تحقیقات نریندر مودی حکومت سے نہیں بلکہ عدلیہ سے کرائی جائیں کیونکہ منشیات کی ترسیل نے مودی، امیت شاہ اور گوتم کے نیکسس پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ سب انٹرنیشنل ڈرگ اور یورینیم مافیا کی آنکھ سے کیسے اوجھل رہ سکتا ہے؟ کانگریس کے علاوہ آزاد میڈیا بھی اس کھیپ کو آسانی سے ہضم نہیں کر رہا اور اس کا امریکی ڈرگ کنٹرول ایجنسی سمیت اقوام متحدہ اوردوسرے عالمی ادارو ں سے کیا جانے والا یہ مطالبہ بھارت کو پریشان کیے ہوئے ہے کہ اس کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہئیں اور یہ مقدار بین الاقوامی نگرانی میں رکھنا ہو گی تاکہ بھارت اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ تو ابھی ابتدا ہے‘ پلوامہ جیسے اس ڈرامے کا ڈراپ سین بھی جلد سامنے آجائے گا کیونکہ کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ نریندر مودی بھارت کی کئی بندرگاہوں کے پچیس فیصد کے حصہ دار بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہانیاں جو کل تک دبی زبان میں کی جا رہی تھیں‘ اب کچھ عرصے سے زبان زد عام ہو چکی ہیں کہ منشیات کی سمگلنگ سے نریندر مودی اور ان کے قریبی ساتھی خوب ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ بھارت میں یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ نمک سے معدنیات تک‘ یہ تمام تجارت اور ایکسپورٹ مودی جی کے قریبی ساتھیوں کے پاس ہی کیوں ہے؟ اس سے قبل چاول کی آڑ میں جو کچھ چھپا کر سمگل کیا گیا‘ وہ تو کافی حد تک دنیا جان چکی ہے۔ آزاد میڈیا، یورپی ممالک سمیت بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے پاس بھی یہ رپورٹس محفوظ ہوں گی کہ کس طرح چاولوں کی ایکسپورٹ کی آڑ میں بھارت سے منشیات دنیا بھر میں سمگل کی جاتی تھیں۔ منشیات تو دراصل ایک بہانہ ہیں، اصل کہانی تو ان کے بھی پیچھے چھپی ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ منشیات کا دھندہ دنیا کا سب سے منافع بخش دھندہ ہے۔ چند کلو منشیات کی قیمت کروڑوں ڈالر تک میں ہو سکتی ہے۔ درحقیقت منشیات کی آمدن سے ملنے والا کالا دھن ہی دنیا بھرمیں بھارت کی ریاستی سرپرستی میں چلنے والے دہشت گردی کے الائو کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔پوری دنیا میں اس وقت جہاں جہاں بھی بھارت اپنی پراکسی گیمز کھیل رہا ہے‘ وہاں پر ڈرگ ٹریسز بھی عام دیکھنے کو ملیں گے۔
مندرا بندرگاہ کے انچارج‘ گوتم اڈانی کو کس نے اس انتہائی اعلیٰ مقام پر پہنچایا‘ ان کے کاروبار اور تجارتی بیڑے کیسے بڑھے‘ یہ کہانی بہت دلچسپ اور حیران کن ہے۔ نریندر مودی کے آبائی حلقے گجرات سے تعلق رکھنے والے گوتم اڈانی بھارت کی کل کارگو نقل و حمل کے چوتھے حصے کے مالک ہونے کے علا وہ گجرات، مہاراشٹر، گوا، کیرالا، آندھرا پردیش، تامل ناڈو اور اڑیسہ جیسی سات بھارتی ریاستوں کی13 بندر گاہوں پر اپنی بے تاج بادشاہت کی وجہ سے بھارت بھر میں جانے جاتے ہیں۔ ایک دلچسپ سچ اس سارے قضیے میں یہ ہے کہ گوتم کی ایمپائر اور نریندر مودی کی سیات کا آغاز لگ بھگ ایک ساتھ ہی‘ ایک ہی دور میں اور ایک ہی ریاست یعنی گجرات سے ہوا۔ گوتم اڈانی کا نام اِس وقت عالمی میڈیا کی خبروں میں پوری طرح اچھالا جا رہا ہے کیونکہ ہیروئین کی اتنی بڑی مقدار پکڑے جانے کی خبر نے چند ہی لمحوں میں پوری دنیا کواپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ بھارت کی جانب سے منشیات کی اس کھیپ کو طالبان سے جوڑنے کی وجہ سے اس خبر کی اہمیت دوچند ہو گئی تھی کیونکہ طالبان کی نئی نئی حکومت کے ساتھ یہ مغرب میں دوسرا ایسا خوف تھا جس نے سب کواپنی جانب متوجہ کر لیا۔ پھر اتنی بڑی کھیپ! یہ کوئی چند کروڑ کی نہیں بلکہ تین ہزار کلو گرام ہیروئین تھی جس کی پاکستانی کرنسی میں مالیت‘ 3کھرب 38ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔
ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی لہروں اور اچھلتی کودتی اٹھکیلیاں کرتی موجوں کے سہارے جب یہ دو کنٹینر مودی کی جنم بھومی گجرات کی مندرا بندرگاہ پہنچے‘ اور وہاں سے بھارت کی انسدادِ منشیات سمگلنگ کی ایجنسی ڈی آر آئی نے منشیات کی بھاری کھیپ برآمد کی تو چند ہی لمحوں بعد افغانستان کی طالبان حکومت کو نشانہ بنانے کیلئے یہ چلانا شروع کر دیا گیا کہ طالبان اورپاکستان کا مشترکہ کارٹل بھارت میں عدم استحکام اور دہشت گردی کے فروغ کیلئے منشیات کا سہارا لے رہا ہے اور اعلیٰ کوالٹی کی اس قدر بھاری کھیپ کا بھارت بھیجے جانے کا اس کے سواا ور کوئی مطلب نہیں کہ کشمیر سمیت بھارت بھر میں دہشت گردوں کی مدد کی جائے۔ پلوامہ، اُڑی اور دوسرے کئی واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ بھارتی میڈیا اور اس کی خفیہ ایجنسیاں اپنے پائوں جلنے پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہیں کرتیں۔وہ چند لمحوں میں اس قسم کے حالات اور سماں پیدا کرنے میں ماہر ہیں کہ ساری توپوں کا رخ ان کے مخالفین کی جانب ہو سکے۔ اس دفعہ بھی ویسا ہی واویلا مچا یا گیا کہ مندرا بندر گاہ پر پہنچنے والے دو کنٹینرز‘ جو اعلیٰ قسم کی ہیروئین لدے ہوئے تھے‘ کو انڈین حکام نے اپنے قبضے میں لے کر طالبان کی بہت بڑی سازش کو نا کام بنا دیا ہے حالانکہ ابھی تک اس کی فرانزک رپورٹ بھی نہیں کرائی گئی تھی جس سے پتا چل سکتا کہ اس کی مالیت اور حیثیت کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے امریکی اور مغربی میڈیا نے بھی بھارتی ایجنسیوں کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیے اور انہیں داد ملنا شروع ہو گئی کہ یہ کمال کی کارروائی ہے جس سے بنی نوع انسان کو بہت بڑی تباہی اور نئی نسل کو بر باد ہونے سے بچایا لیا گیا ہے، لیکن یہ لکھتے اور کہتے ہوئے سب سے حقائق کو کسی اونچے طاقچے میں رکھ دیا گیا کیونکہ ایسے حالات میں‘جب کابل سمیت افغانستان کے پنج شیر جیسے علا قوں میں صورتحال ابھی مکمل طور پر نارمل نہیں ہوئی‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان ایران تک ہیروئین کے بھرے ہوئے دو کنٹینرزلے جائیں اور پھر ایرانی حکام، خفیہ ایجنسیوں اور قانو ن نافذکرنے والے نصف درجن سے زائد اداروں کی آنکھوں میں دھو ل جھو نکتے ہوئے ان کنٹینروں کو سب سے چھپا کر‘ ہر قسم کی کارروائی سے کلیئر کرانے کے بعد بھارتی ریاست گجرات کی مندرا بندرگاہ کیلئے روانہ کر دیں جہاں نریندر مودی ٹولہ ان کے استقبال کیلئے اپنی دونوں بانہیں پھیلائے کھڑا ہو ؟
منشیات کے مکمل قلع قمع میں تو طالبان کا وہ ریکارڈ ہے جس پر انسانیت ان کی ہمیشہ شکرگزار رہے گی۔ افغانستان کی تاریخ میں یہ طالبان کا ہی دورِ حکومت تھا جب منشیات کا 99فیصد تک خاتمہ ہو گیا تھا۔ ایسے میں دنیا بھرکے سامنے بھارت جب طالبان پر الزام لگاتے ہوئے ایرانی بندرگاہ کی بات کرے گا تو سب سے پہلے یہی پوچھا جائے گا کہ یہاں پر تو بھارتی را کا اس قدر عمل دخل رہا ہے کہ کلبھوش یادیو کا پورا گینگ یہیں سے پاکستان میں دہشت گردی کی درجنوں کارروائیاں کنٹرول کرتا رہا ۔پھر یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہاں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا اثر و رسوخ اس قدر زیادہ تھا کہ را اور بھارت کے ایجنٹوں کو بلوچستا ن میں داخل کرنے کیلئے سب کے بوگس اور جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈز یہیں سے جاری کیے گئے‘ پھر بھارتی اداروں کی نظروں سے بچ کر اتنی بڑی مقدار بھارت سمگل کرنے میں وہ کیسے کامیاب ہو گئے؟اب دنیا کو اصل کھوج اس بات کا لگانا ہو گا کہ کون کون اس دھندے میں ملوث ہے جبکہ سب سے ضروری یہ امر ہے کہ یہ سلسلہ کب سے جاری ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved