تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
یہ شعر نامعلوم شاعر کا ہے مگر کیا قیامت بھری سچائی بیان کی ہے کہ:
ا گر تو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی پرانے قصے پڑھ لیا کر۔
یہ شعر ہمیں سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چودھری کی سوانح ''جہانِ حیرت‘‘ پڑھتے ہوئے بار بار یاد آیا۔
جہانِ حیرت واقعی جہانِ حیرت ہے۔ آپ کہیں سے پڑھیں، کہیں سے شروع کریں‘ اس کتاب کی انوکھی لذت ہے جو آپ کو اسیر کرتی جاتی ہے۔ سردار محمد آئی جی پنجاب کے عہدے تک پہنچے، اپنی داستانِ حیات رقم کی۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ ان کی نہیں پاکستان کی تاریخِ خونچکاں ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ اہلِ سیاست اور اہل حَکم نے اس مملکت ِ خداداد کے ساتھ کیا کیا ظلم روا نہیں رکھا۔ کیسے کیسے لوگ اس کے حکمران بنے اور اس کی تاریخ بگاڑنے میں مصروف رہے۔ یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور عبرت کشا بھی۔ اس کتاب میں مذکور کئی کردار اب بھی ہمارے درمیان میں موجود ہیں اور لوہے کی لٹھ کی طرح اب بھی اسی کام میں مگن ہیں۔ ریشہ دوانیاں، دو نمبری، خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے پیٹ پر ہی ہاتھ مارنا اور شرمسار بھی نہ ہونا۔ وہ لوگ خوش خوش اس مملکت کو ہڈی کی طرح چچوڑتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عبرت کی مثال بنے اور دوسروں کے لیے تاریخ انتظار کر رہی ہے کہ انہیں کس کوڑے دان میں پھینکنا ہے؛ عبرت کے واسطے‘ سبق کے واسطے۔
ان کی کہانی ہمیں کئی وجوہ کی بنا پر پسند آئی اور چاہا کہ اس کے کچھ مندرجات اپنے قارئین کے سامنے پیش کریں۔ ایک تو ہمارا ازلی عشق ہے اپنے مشرقی پاکستان سے، اس کے شہروں سے، اس کے دریائوں سے اور اس کے عوام‘ اس کے لوگوں سے‘ جو ہمیں کسی پل چین نہیں پڑنے دیتا۔ دوم، اس ملک کو اس حال میں پہنچانے میں جن لوگوں کا ہاتھ ہے، نئی نسل کو ان کے بارے میں علم ہو سکے۔ ادھر اس سابقہ مشرقی پاکستان کا ذکر چھڑا‘ ادھر ہمارے زخم تازہ ہو گئے۔ اس کتاب میں دریائے پدما کے کنارے ساردا ضلع راجشاہی میں اس پولیس سنٹر کا ذکر ہے جہاں پاکستان کے پولیس افسران تربیت لیتے تھے۔ سہالہ سنٹر میں 71ء کے سانحے کے بعد تربیت کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ دریاے پدما کے ایک کنارے پر راجشاہی کا یہ تربیتی مرکز تھا اور دوسرے کنارے پر مغربی بنگال کے ضلع جات مرشد آباد اور مالدہ۔ وہی میٹھے آموں والا مالدہ۔ اور دوسری وجہ سردار محمد یعنی مصنف کی دیانتداری۔ وہ پولیس کے محکمے میں اے ایس پی کی حیثیت میں آئے اور اپنے کیریئر کی معراج تک پہنچے۔ ان کی شہرت ایک کامیاب افسر کی تھی۔ بدمعاشوں کو نتھ ڈالنے والا ایک ذہین تفتیش کار۔ سوم، وہ ایک عام خاندان سے اٹھے اور ذاتی صلاحیتوں اور اپنی لیاقت اور تعلیم کی بدولت ایک کامیاب زندگی گزاری۔ ایک رشک بھری زندگی! ہماچل پردیش کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہونے والا‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک کوارٹر سے اٹھنے والا‘ راستے کی ہر مشکل کو سر کرے والا غریب باپ کا بیٹا۔
سردار محمد نے جب ساردا اکیڈمی جوائن کی تو تین پولیس آفیسر مشرقی پاکستان کے بھی تھے۔ یہ محمد علی، محبوب الحق اور بدیع الزماں تھے۔ جب بھی ایسے لوگوں کا ذکر ہوتا ہے آنکھیں چھلک اٹھتی ہیں۔ ان کے بعد والا گروپ تو اکہتر کی جنگ میں بمشکل اپنی جان بچا سکا تھا۔ انہیں مکتی باہنی والوں نے بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔ انہیں ''پریزن آف وار‘‘یعنی جنگی قیدی کے حقوق بھی نہیں دیے گئے اور بھارتی کیمپوں کے بجائے انہیں جیلوں میں رکھا گیا۔ انہی میں سعادت علی خان تھے جو بعد میں لاہور رینج کے ڈی آئی جی بنے۔ مصنف کی ٹریننگ 1964 ء میں مکمل ہوئی تھی‘ اس وقت کے مشرقی پاکستان کے حالات کے بارے میں بہت ساری جانکاری ملتی ہے۔ لکھتے ہیں: ان دنوں مشرقی پاکستان میں بڑا جوش و خروش پایا جاتا تھا کیونکہ جنوری 65ء میں صدارتی انتخابات ہونے والے تھے۔ پرانے سیاسی رہنما متحدہ اپوزیشن (کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز) کے اتحاد تلے جمع ہو گئے تھے اور انہوں باباے قوم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار بنا لیا تھا۔ اگرچہ اس اتحاد میں جماعت اسلامی‘ جس کے سربراہ مولانا مودودی تھے اور نیشنل عوامی پارٹی‘ جس کی قیادت ولی خان کے ہاتھ میں تھی‘ جیسی متضاد افکار جماعتیں بھی شامل تھیں مگر فاطمہ جناح کی شخصیت نے سب کو شیرو شکر کر دیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران ایوب خان اور سرکاری مشینری کی بنیادیں ہل گئیں۔ ناچار وہ ظلم و تشدد پر اتر آئے۔ ایوب خان اور زیڈ اے بھٹو‘ جو ان دنوں کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے‘ نے مایوسی اور پریشانی کا شکار ہو کر مادر ِ ملت اور دیگر قائدین کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کرنا شروع کر دی۔
مصنف نے اپنی سندھ میں تعیناتی کے دور کے بھی بہت سارے واقعات لکھے ہیں۔ جنوری 1966ء میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے مابین معاہدۂ تاشقند طے پایا۔ عوام نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کر دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ایوب خان کشمیر کو بھارت کے شکنجے سے آزاد کرانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بھٹو نے عوام کے موڈ کو بالکل ٹھیک سمجھا؛ چنانچہ اعلانِ تاشقند کے بارے میں انہوں نے ایسا ردعمل ظاہر کیا گویا وہ اس سے خوش نہیں ہیں جبکہ باخبر حلقوں کے مطابق وہ سمجھوتے کی حمایت کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ اعلانِ تاشقند کے بعد بھٹو سیہون شریف کے سجادہ نشین پیر گل محمد شاہ کی دعوت پر وہاں گئے۔ اس موقع پر وردگ اور مجھے (سردار محمد کو)بھی مدعو کیا گیا تھا‘ اس دعوت میں بھٹو کی فرمائش پر بار بار گایا جاتا: تاشقند ہو گیا‘ بھٹو تیرا کیا ہو گا؟
اپنے کوئٹہ کے قیام کے دوران جنرل اختر حسین ملک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اکثر گریژن کلب آتے تھے اور مسحور کن گفتگو کرتے تھے۔ جنرل ملک اس نکتے پر سنجیدگی سے بحث کیا کرتے تھے کہ اگر 1965ء کی جنگ میں انہیں چھمب جوڑیاں سیکٹر کی کمان سے تبدیل نہ کیا جاتا تو وہ یقیناکشمیر فتح کر لیتے۔ راولپنڈی میں ایوانِ صدر کی سکیورٹی سردار محمد کے ذمہ تھی۔ ایوانِ صدر کے گن مین ان کے ہی سٹاف سے تھے۔ اس زمانے میں یحییٰ خان سریرآرائے مملکت ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان تھے۔ صاحبِ موصوف ہماری قومی تاریخ کے سب سے متنازع حکمران تھے۔ ہمیں ذاتی طور پر تو خیر کی توقع اب کسی حکمران سے نہیں‘ کسی ایک کا کیا ذکر مگر یحییٰ خان ساری حدود کراس کر گیا تھا۔ دورِ زوال کے مغلیہ خاندان کے شہزادوں کی طرح‘ کام سے زیادہ عیش و عشرت کا دلدادہ۔ آخری مغل بادشاہوں کی طرح‘ یہ بھی متحدہ پاکستان کا آخری حکمران تھا۔
اس زمانے کے معروف کرداروں میں اقلیم اختر سر فہرست تھیں۔ بھٹو دور میں جب اقلیم اختر کو گرفتار کیا گیا تو اس سے تفتیش کرنے والے مصنف کے ماتحت تھے۔ مصنف لکھتے ہیں:اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جنرل یحییٰ خان کی شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ اُس وقت سے دوستی تھی جب اس نے زمام ِ اقتدار بھی نہیں سنبھالی تھی۔ (جاری)