تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-09-2021

مٹی سے سونا اور کندن بننے کی کہانی

محاورے اُردو کے ہوں یا کسی اور زبان کے‘ وہ زمین کے ساتھ جڑی حقیقتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جو زبان جتنی قدیم ہو گی اس کے محاورے اسی قدر زیادہ زمین سے جڑے ہوئے ہوں گے۔ محاورے انسان کی صدیوں پرانی تہذیب اور نسلوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں؛ تاہم ان محاوروں کو ان کے الفاظ کی روشنی میں پرکھنے کے بجائے ان کو ان کے اندر پنہاں مفہوم اور روح کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ محاورے صرف ظاہری پرت سے نہیں بلکہ اپنے تہ در تہ مفاہیم سے منسلک ہوتے ہیں۔جب ہم اُردو محاورہ ''اندھا کیا چاہے‘ دو آنکھیں‘‘ استعمال کرتے ہیں تو یہ صرف بینائی سے محروم شخص کی آنکھوں کی طلب کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے ہر ضرورتمند کی اپنی خاص ضرورت کی طلب کی عکاسی کرتا ہے۔ اب بھلا آپ خود سوچیں کیا کوئی شخص آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہے؟ اس کا جواب یقینا یہی ہو گا کہ ہرگز نہیں! لیکن ہم نے اُردو محاورے کہ ''میں تمہارے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہوں‘‘ کو بے شمار جگہ استعمال ہوتے دیکھا ہے۔ اس کا مفہوم سادہ الفاظ میں یہی ہے کہ میں تمہارے لیے بظاہر نا ممکن نظر آنے والا کام بھی کر سکتا ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی عاشق اپنی محبوبہ سے کہے کہ میں تو تمہاری خاطر آسمان سے تارے توڑ کر لا سکتا ہوں اور محبوبہ آگے سے فرمائش کر دے کہ ہاں ٹھیک ہے۔ تم مجھے قطبی تارا توڑ کر لا دو مجھے یہ والا تارا بہت پسند ہے۔ آج کی محبوبہ اس قسم کی محاوراتی آفر کے جواب میں آئی فون بارہ مانگ لے تو اور بات ہے۔
بات محاوروں کی چل پڑی ہے تو اُردو کے محاوروں میں اس قسم کے اور بھی کئی محاورے موجود ہیں‘ مثلاً اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا۔ بھلا کون اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے؟ ظاہر ہے یہ خود اپنی ذات کو نقصان پہنچانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا۔ یہ اپنی پسندیدہ چیز کے کسی صورت میں اچانک مل جانے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اس کو صرف بلی اور ٹوٹے ہوئے چھینکے پر نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ پانچوں انگلیاں گھی میں ہونا سے مراد یہ نہیں کہ مزے صرف اسی کے ہوں گے جس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی۔ بھلا پانچ انگلیوں کو کوئی کیوں کر اور کب تک گھی میں ڈال کر بیٹھا رہ سکتا ہے؟ یہ محاورہ اپنے الفاظ سے قطع نظر مزے کرنے کی آخری انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ تاروں سے ہی یاد آیا ایک اور محاورہ ہے‘ دن میں تارے دکھا دینا۔ اب بھلا دن میں بھی کبھی تارے دکھائی دیتے ہیں؟ لیکن اس محاورے کا اپنا ایک وسیع تر کینوس ہے۔ جس کا دن میں تارے دکھانے سے حقیقت میں دور کا بھی لینا دینا نہیں۔ ایک اور محاورہ یاد آ گیا۔ چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنا۔ اب بندہ سوچے کہ یہ نا ممکن العمل کام کون کر سکے گا؟ حتیٰ کہ یہ محاورہ اپنے الفاظ کے اعتبار سے اتنا احمقانہ ہے کہ اگر کوئی اس محاورے کو محض سچ کرنے کی خاطر ہزار کوشش کرے تو بھی چلو بھر پانی میں ڈوبنا تو کجا چلو بھر پانی میں پورا ناک بھی نہیں ڈبو سکتا‘ مگر صدیوں سے یہ محاورہ نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ اُردو کے محاوراتی لشکر میں ڈٹا کھڑا ہے۔ اب ایک آخری محاورہ ‘ وہ ہے: اپنا اُلو سیدھا کرنا۔ قارئین! آپ بتائیں بھلا اس محاورے کا لفظی مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ کیا آپ میں سے کبھی کسی نے اُلو کو پکڑ کر سیدھا کیا ہے؟ بلکہ اُلو سیدھا کرنے کو تو چھوڑیں آپ میں سے کبھی کسی نے پہلے سے الٹا ہوا کون سا ایسا اُلو دیکھا ہے جسے سیدھا کرنے کی ضرورت پڑے؟ یقینا نہیں۔ لیکن محاورہ ہے کہ بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔
محاوروں جیسا حال ہی شاعری کا ہے۔ اب علامہ اقبال کا شعر دیکھیں جس میں وہ ممولے کو شہباز سے لڑانے کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اور بعض نابغہ قسم کے دانشور اس کو لفظی معانی میں لے کر ممولے اور شہباز کو لڑانے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جب علامہ اقبال یہ فرماتے ہیں کہ
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
تو اس شعر کو عین اس کے لفظی معانی میں لینا نری جہالت ہے۔ یہ دراصل بظاہر کمزور نظر آنے والے کو اپنے سے طاقتور ظالم کے آگے سینہ سپر ہونے کا درس ہے نہ کہ ممولے اور شہباز کی کسی حقیقی لڑائی کا۔ محاورے‘ اشعار اور ضرب الامثال دراصل اپنے باطنی مفہوم اور اس میں پنہاں روح کی لفظی نمائندگی کرتے ہیں۔
قارئین! میں معذرت خواہ ہوں کہ محاوروں کی تفصیل میں چلا گیا۔ دراصل یہ سب کچھ مجھے گزشتہ دنوں شہباز گِل کے دیے گئے ایک محاوراتی بیان سے یاد آ گیا تھا۔ شہباز گل نے فرمایا کہ عمران خان ایسے شخص ہیں کہ مٹی کو بھی ہاتھ لگا دیں تو وہ سونا بن جاتی ہے۔ مٹی کو ہاتھ لگا کر سونا بنانا دراصل ایک محاوراتی اصطلاح ہے۔ اب اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ کوئی شخص واقعتاً مٹی کو ہاتھ لگا کر سونا بنا سکتا ہے یا بناتا رہا ہے۔ اس محاورے میں مٹی دراصل کم قیمت یا اہمیت کی نمائندگی کرتی ہے اور سونا گراں قیمت یا حیثیت کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کم حیثیت یا کم قیمت چیز کسی شخص سے وابستہ ہو اور اس کی قیمت یا حیثیت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے تو سمجھیں کہ اس شخص نے مٹی کو سونا کر دیا۔ جب سے میں نے شہباز گل کا یہ بیان پڑھا ہے کم از کم اس بیان کے حوالے سے میں شہباز گل سے سو فیصد متفق ہوں۔ اگر سو فیصد سے زیادہ متفق ہونا ممکن ہوتا تو یقین کریں میں اس سے زیادہ بھی متفق ہو جاتا مگر فی الحال میرے پاس سو فیصد سے زیادہ متفق ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لیے اِسی سو فیصد متفق ہونے سے گزارہ کر لیتے ہیں۔
اب کس کس چیز کا ذکر کروں؟ چلیں اپنی روز مرہ کی زندگی کی سب سے لازمی ضرورتوں میں سے ہوا اور پانی کے بعد آٹے کا نمبر آتا ہے۔ ہوا اور پانی دونوں چیزیں قادرِ مطلق ہمیں ٹوٹل فری مہیا کر رہا ہے اور یہ دونوں چیزیں (واسا کی سپلائی اور منرل واٹر کی بوتل سے قطع نظر) عمران خان کے قبضۂ قدرت سے باہر کی چیزیں ہیں اس لیے ان کو چھوڑ دیں تو پہلا نمبر آٹے کا آتا ہے۔ خان صاحب کے آنے سے پہلے آٹا چالیس روپے فی کلو گرام تھا۔ خان صاحب نے ہاتھ لگایا تو آٹے کی مٹی سونا بن گئی اور ریٹ ستر روپے کلو ہو گیا۔ چینی کی قیمت چھپن روپے کلو تھی۔ ان کا ہاتھ لگا اور چینی سونا بن گئی۔ آج کل ایک سو دس روپے کے اوپر نیچے فروخت ہو رہی ہے۔ آئل ایک سو ستر روپے فی لٹر تھا۔ اب اسی ہاتھ لگنے کے طفیل تین سو چالیس روپے پر پہنچ چکا ہے۔ بلکہ پرسوں اس پر دوبارہ نظر ڈالی تو پندرہ روپے فی کلو مزید اوپر چلا گیا۔ اب مٹر‘ ٹینڈوں اور لہسن‘ پیاز کا کیا ذکر کروں؟ ڈالر ایک سو بیس سے ایک سو ستر پر چلا گیا ہے۔ سب چیزیں مٹی سے سونا بن گئیں۔ یہ تو پھر چیزیں ہیں خان صاحب نے تو بندوں کو ہاتھ لگایا تو مٹی جیسے لوگ سونا بن گئے۔ معید یوسف کو دیکھ لیں۔ ندیم بابر کو دیکھ لیں۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کو یاد کریں۔ زلفی بخاری پر نظر دوڑائیں۔ کس کس کا نام لوں اور کس کس کو یاد کروں؟ شہزاد اکبر کو دیکھیں کس طرح ایک این جی او سے اُٹھے اور عمران خان کا ہاتھ لگتے ہی پاکستان کے طاقتور ترین افراد میں ایک بن گئے۔ کالم ختم کرتے کرتے یاد آیا۔ ہمارے پیارے شہباز گل بھی امریکی ریاست الی نوائے کی ایک یونیورسٹی میں ہزاروں امریکی پروفیسروں میں سے ایک عام سے پروفیسر تھے۔ عمران خان کا ہاتھ لگا اور وہ سونا چھوڑ کندن بن گئے۔ اب یہ مت پوچھیں کہ یہ کیسے ہوا؟ یہ ایک پوری علیحدہ سٹوری ہے جس کی تفصیل کبھی پھر سہی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved