تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     28-09-2021

کتابوں کا قرض

لوگ سمجھتے ہیں کہ قرض صرف درہم و دینار کا ہوتا ہے حالانکہ قرض کی کئی اقسام ہیں، مثلاً بہاروں کا قرض‘ محبتوں کا قرض‘ وفائوں کا قرض‘ جفائوں کا قرض اور پھر کتابوں کا قرض۔ کچھ قرض ایسے بھی ہیں کہ جن کی ادائیگی میں ہم اپنی ساری زندگی بھی لگا دیں تب بھی وہ ادا نہیں ہوتے جیسے ماں کی محبت کا قرض۔ بقول شاعر ؎
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
بہاروں کے قرض کی کہانی بھی سن لیجئے ؎
یوں چار دن کی بہاروں کے قرض اتارے گئے
تمہارے بعد کے موسم فقط گزارے گئے
تاہم جس قرض نے مجھے بیقرار کر رکھا ہے وہ کتابوں کا قرض ہے۔ بہت سے مصنفین نے مجھے محبت کے ساتھ کتب ارسال کر رکھی ہیں۔ تحفتاً ارسال کی گئی کتابوں کا قرض ''سود‘‘ کے ساتھ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کتاب کو پڑھنا بھی پڑتا ہے اور پھر اس پر تبصرہ بھی لکھنا پڑتا ہے۔ اس وقت سٹڈی میں میری میز کے سامنے شیلف میں کم از کم درجن بھر کتابیں اکٹھی ہوچکی ہیں۔ آج میں نے سوچا کہ یوں میں کب تک ان کتابوں سے آنکھیں چراتا رہوں گا لہٰذا فیصلہ یہ کیا ہے کہ قسط وار کتابوں کے قرض کی ادائیگی شروع کردی جائے۔ آج کی پہلی کتاب چند روز قبل چھپنے والی ڈاکٹر فرحت نسیم علوی کی تصنیف ''بدھ کا نظریۂ امن اور لہو لہو روہنگیا‘‘ ہے۔ ڈاکٹر علوی نے علوم اسلامیہ میں پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور ٹورنٹو یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اُن کی دلچسپی کا مرکزی موضوع دنیا بھر کی مسلم اقلیتیں ہیں۔
آج زمینی فاصلے مٹ چکے ہیں اور لاکھوں میل پر محیط دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ ویلیج مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ اس کا خاصا یہ ہے کہ وہاں کے باسی ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں آئی ٹی اور انٹرنیٹ نے کمیونیکیشن کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جب کوئی خیال آپ کے نہاں خانۂ دل میں کروٹ لیتا ہے تو وہ آپ کے لب تک پہنچنے سے پہلے آنِ واحد میں کرئہ ارض کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ کوئی واقعہ یا حادثہ ہزاروں میل دور کہیں رونما ہوتا ہے تو ساری دنیا اسے بچشم ِخود یوں دیکھتی ہے جیسے جائے حادثہ پر کھڑا کوئی شخص اسے دیکھتا ہے۔ تاہم آج کے گلوبل ویلیج کا یہ ایک کربناک تضاد ہے کہ دنیا ظلم و تشدد کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے اور چپ رہتی ہے۔عالمی کمیونٹی مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کے خلاف شعلے اُگلتی بھارتی توپوں کو دیکھتی ہے اور لب سی لیتی ہے۔ میانمار میں ایک‘ دو نہیں ہزاروں انسانوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے‘ روہنگیا کی مسلمان دوشیزائوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ پھول سے بچوں کو سنگینوں پر اچھالا جاتا ہے‘ اُن کے کھیتوں کھلیانوں کو جلا کر رکھ کر دیا جاتا ہے اور ان درد کے ماروں کو ہانک کر بنگلہ دیش میں دھکیل دیا جاتا ہے یا انہیں سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اتنے ہولناک مظالم پر بھی ضمیرِ عالم نہیں جاگتا۔
ڈاکٹر فرحت علوی نے میانمار میں کئی صدیوں سے مقیم روہنگیا مسلمانوں کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے بارے میں ''بدھ کا نظریۂ امن اور لہو لہو روہنگیا‘‘ کے عنوان سے تقریباً ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب تحقیق اور حسنِ تحریر کا خوبصورت مرقع ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے امتِ مسلمہ کو نہایت دردمندی سے بتایا ہے کہ بدھ دیس میانمار (برما) میں مسلمانوں کی حالت ِزار کیا ہے۔ ڈاکٹر فرحت علوی نے امت ِمسلمہ پر عائد قرض کو جس حسن و خوبی کے ساتھ ادا کیا ہے اُس پر امت کو اُن کا ممنون ہونا چاہئے۔ اس کتاب کا پڑھنا ہر صاحبِ احساس اردوداں مسلمان پر فرضِ عین نہیں تو ''فرضِ کفایہ‘‘ ضرور ہے۔
آج کی دوسری کتاب ''ولایت نامہ‘‘ ہے۔ یہ طاہر جمیل نورانی کے انگلستان بلکہ یورپ کے بارے میں اُن کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ نورانی صاحب نوجوانوں کی اس کھیپ میں شامل تھے جو ایک حسین و جمیل اور خوشحال مستقبل کی تلاش میں 1970ء کی دہائی میں انگلستان گئی تھی۔ نورانی صاحب نے ابتدائی تعلیم شہر اقبال سیالکوٹ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کی تکمیل انگلستان پہنچ کر کی۔ انہیں انگلستان میں اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہے؛ تاہم وہ اُن محدود خوش قسمت تارکین وطن میں سے ہیں کہ جن کے سینوں پر برطانوی شہریت کا تمغہ تو آویزاں ہے مگر اُن کے سینوں کے اندر کی دنیا اپنے آبائی وطن پاکستان کی محبت سے شاد اور آباد ہے۔
پاکستان سے ہجرت کر کے دیارِ غیر میں آباد ہونے والے پاکستانی چاہے وہ امریکی بن جائیں‘ برطانوی بن جائیں‘ یورپی بن جائیں‘ آسٹریلوی بن جائیں‘ کویتی بن جائیں یا کچھ اور بن جائیں مگر اُن کے پیارے وطن پاکستان کا نام آتے ہی اُن کے دل کا جلترنگ بجنے لگتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دیارِ غیر بالخصوص مغربی دنیا میں پیدا ہونے والی نژادِ نو کے پاکستان کے بارے میں وہ جذبات و احساسات نہیں جو وہاں جاکر بس جانے والے اُن کے باپ دادا کے تھے۔ یہی وہ احساسِ محرومی ہے جس نے طاہر جمیل نورانی سے ایسی دلگداز تحریریں لکھوائی ہیں۔ ''ولایت نامہ‘‘ ایک طرح سے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کا خبرنامہ بھی ہے اور اُن کا نوحہ بھی۔ زندگی کے اس مرحلے پر انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی نسلِ نو کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھوں سے نکل بھی چکا ہے اور مغربی تہذیب و تمدن میں بڑی حد تک ڈھل چکا ہے اور پاکستانی زبان و ثقافت سے تقریباً بیگانہ ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نسلِ نو کی تھوڑی سی تعداد ایسی بھی ہے کہ جو مغربی تہذیب کے خلاف ردعمل کے طور پر بعض انتہا پسند تنظیموں سے ناتا جوڑ لیتی ہے۔ تارکین وطن پاکستانیوں کو کئی طرح کے پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ''ولایت نامہ‘‘ میں نورانی صاحب نے لکھا ہے کہ پاکستانی نژاد سیانے برطانوی بچے اپنے والدین سے پوچھتے ہیں کہ آپ ہر وقت جس ملک کے غم میں ہلکان رہتے ہیں اور وہاں اپنے پیاروں کے پاس جانے کو بیقرار رہتے ہیں مگر ہمیں بتائیں کہ آپ کے پیارے وطن میں کب تک ''گو نواز گو‘‘ اور ''گو نیازی گو‘‘ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمیں بتائیں کہ کیا پاکستان وزٹ کرنے کے دوران ہمیں اغوا نہیں کیا جا سکتا؟ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ کے ہوائی اڈوں پر سرعام لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے۔ آپ کی کچہریوں میں سودے ہوتے ہیں‘ وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آپ جس ملک کے گن گاتے ہیں اُس میں ہر شخص ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ایسے ملک کے لیے آپ ہر وقت کیوں روتے دھوتے رہتے ہیں۔ سوال بڑا کربناک ہے مگر سچ بھی یہی ہے۔
نورانی صاحب نے پاکستانی نژادِ برطانوی بچوں کے حوالے سے ایک اور مسئلے کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستانیوں کی نسلِ نو اُردو اور اپنی مادری زبانوں سے نابلد ہوچکی ہے۔ اکثر عمررسیدہ پاکستانی انگلستان میں اُن سے یہ درد مشترک شیئر کرتے رہتے ہیں۔ وہ خود کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اب وہ اقرار کرتے ہیں کہ ''شوقِ گل بوسی‘‘ میں ہم نے کانٹوں پر زباں رکھ دی تھی۔ ہم بچوں کو ''خالص انگریزی‘‘ سکھانے کے شوق میں انہیں اپنی زبان اُردو سے بیگانہ کر چکے ہیں۔ یہ محرومی اُن کی خود پیدا کردہ ہے۔ اپنی مادری اور قومی زبان برطانوی نژاد پاکستانی بچوں کو نہ سکھانے کے سلسلے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی پیش پیش ہیں۔ نورانی صاحب کی کتاب ''ولایت نامہ‘‘ دراصل تارکین وطن کا ایک ''حساب نامہ‘‘ ہے۔ آج وہ شامِ زندگی کی منڈیر پر کھڑے سوچتے ہیں کہ انہوں نے وطن چھوڑ کر اور نیا وطن اختیار کر کے کیا کھویا اور کیا پایا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved