افغان صوبے پکتیکا کا جرأت یار (نام بدل دیا گیا ہے) افغان صدارتی محل میں قائم چار دفتروں میں سے ایک میں کام کرتا تھا۔ یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد یہ اس کی پہلی نوکری تھی اوروہ ان لوگوں میں شامل تھا جو افغان صدر اشرف غنی کے سامنے پیش ہونے والی دستاویزات تیار کیا کرتے تھے۔ ان دستاویزات کی تیاری کا طریق کار یہ تھا کہ جس محکمے کو اپنے کام کیلئے صدر کی منظوری کی ضرورت پڑتی‘ وہ جرأت یار کے دفتر کو بتاتا۔ اس دفترسے ملنے والی ہدایات کے مطابق فائل تیار کی جاتی اور ایک بار پھر جرأت یار کے دفتر سے ہوتی ہوئی صدر کی میز تک پہنچ جاتی۔ اگرچہ اس کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا تھا جو صدر کے ساتھ براہِ راست رابطے میں رہتے ہیں لیکن سرکاری فائلیں پیش کرنے کیلئے اسے دن میں کئی بارایسے اجلاسوں میں شرکت کرنا ہوتی تھی جن کی صدارت خود اشرف غنی کرتے تھے۔ اس طرح کے اجلاسوں میں چونکہ اعلیٰ ترین سطح کے لوگ شامل ہوتے تھے‘ اس لیے جرأت یار کو بہت سی ایسی باتوں کا بھی پتا چلتا رہتا جنہیں سرکاری راز قرار دیا جاسکتا ہے۔ جن دنوں امریکا اور نیٹو افواج نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا اور افغانستان کے اضلاع پر طالبان نے قبضہ شروع کیا تو جرأت کو اس کے باس نے ایک نئی ذمہ داری سونپ دی۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ روزانہ صدارتی محل میں قائم قومی سلامتی کے دفتر سے یہ اطلاعات اکٹھی کرتا کہ اب تک کتنے اضلاع کا سقوط ہوچکا ہے اوران معلومات کوجامع انداز میں صدر کیلئے تیار رکھتا۔ زیادہ تفصیلی معلومات کیلئے اس نے قومی سلامتی کے دفتر کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں کے گورنروں سے بھی رابطہ شروع کردیا تاکہ ایسے اضلاع کی بارے میں اسے معلوم ہوتا رہے جو گھیرے میں ہیں یا کسی اور وجہ سے خطرے میں ہیں۔ جرأت یار کو جب بھی کسی نئے ضلع پر طالبان کے قبضے کی اطلاع ملتی تو وہ پریشان ہو جاتا مگر اس نے دیکھا کہ صدر اشرف غنی کچھ غصے میں تو آجاتے مگرمقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے۔ جرأت یار کو اپنے صدر کی یہ دلیری بہت اچھی لگتی تھی۔ صدر کی یہ باتیں سن کر وہ خود بھی دلیر ہو جاتا۔
جب میں جرأت یار سے ملا اور اس سے صدارتی محل کے آخری دنوں کی روداد کہنے کی درخواست کی تواس کا چہرہ سپاٹ ہو گیا لیکن جیسے جیسے بات آگے بڑھی تواس کے چہرے کا تاثر بھی کہانی کے ہر موڑ پر بدل جاتا۔ کبھی آوازمدھم ہو جاتی‘ کبھی آنکھیں بند ہوجاتیں‘ کبھی اس کی زبان رُک جاتی اور پورا وجود کہانی کہنے لگتا۔وہ بتا رہا تھا کہ اس کے سامنے کئی بار یہ بات صدر اشرف غنی کو بتائی گئی کہ طالبان امریکا کے نکل جانے کے بعد بھی کسی صوبائی صدر مقام پر قبضہ نہیں کریں گے۔ جب طالبان کے سامنے صوبائی صدرمقام بھی سرنگوں ہونے لگے تو یہ بتایا جانے لگا کہ چونتیس میں سے نصف صوبے طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے اور باقی پر اشرف غنی کی حکومت قائم رہے گی۔ یہ صورتحال کم ازکم دوسال چلے گی اور پھر عالمی طاقتوں کی مداخلت سے کوئی معاہدہ کیا جائے گا۔ جرأت یار کے مطابق ہم چونکہ یہ سب کچھ اپنے کانوں سے سن رہے تھے اس لیے ہمیں یقین تھا کہ دوسال تک کابل میں طالبان نہیں آئیں گے۔ ''ان باتوں پر یقین کرکے ہی میں نے اپنا پاسپورٹ تک بھی نہیں بنوایا تھا اور سوچا کہ چھ‘ سات مہینے تک پاسپورٹ بنوا کرحالات خراب ہونے سے پہلے پہلے پاکستان یا کہیں اور چلا جاؤں گا‘‘ اس نے افسوس کے ساتھ بتایا۔
میں نے پوچھا: تمہیں اشرف غنی کیسا لگتا تھا؟ اُس کیلئے یہ سوال گویا کسی محبوب کے ذکر کا آغاز تھا۔ کہنے لگا: اشرف غنی دلیر آدمی تھا۔ جب اس کے حلف برداری کی تقریب ہورہی تھی تو بھی راکٹ چلتے تھے۔ اس نے اپنا گریبان کھول کر دکھایا کہ اس نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن رکھی تھی۔ اس کی یہ ادا مجھے بھا گئی۔ پھر ہم جب بھی اس سے ملتے تھے تو وہ یہی کہتا کہ میں بھاگنے والا نہیں۔ ہمیں اس کی ہر بات پر یقین آجاتا تھا۔ اشرف غنی اپنی گفتگو میں افغانستان کے سابق حکمران غازی امان اللہ کا بڑا ذکر کیا کرتا تھا۔ اس نے کئی بار کہا کہ غازی امان اللہ نے1919ء سے 1929ء تک اپنے دورِ حکومت میں افغانستان کی بڑی خدمت کی بس حبیب اللہ کلکانی کے مقابلے میں اسے ملک چھوڑ کر نہیں بھاگنا چاہیے تھا۔ اشرف غنی نے افغانستان بھر میں غازی امان اللہ کی تصویریں لگوائیں تاکہ افغان عوام کو ان کی عظمتِ رفتہ کا احساس دلایا جاسکے۔ جب وہ بار بار غازی امان اللہ کی غلطی کا ذکر کرتا تھا تو ہمیں یقین آجاتا تھا کہ اشرف غنی مرجائے گا مگر امان اللہ کی طرح افغانستان چھوڑ کر نہیں جائے گا۔
15 اگست کو کیا ہوا تھا؟ وہ بات کرنے کیلئے رکا تو میں نے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس دن اپنے گھر سے نکلتے ہوئے مجھے کچھ دیر ہوگئی تھی۔ میں جب گاڑی چلاتے ہوئے بڑی سڑک تک پہنچا تو صبح کے دس بجے تھے۔ سڑکوں پر غیر معمولی رش تھا۔ کابل کی کئی چھوٹی سڑکیں بند تھیں‘ میں سمجھا کہ کوئی اہم شخصیت کہیں جارہی ہو گی اس لیے بند کی گئی ہیں۔ میری گاڑی کے شیشے بند تھے‘ میں مزے سے گاڑی میں موسیقی سن رہا تھا اور اتنا رش دیکھ کر بھی مجھے خیال نہیں آیا کہ اپنا موبائل ہی دیکھ لوں۔ میں بڑی مشکل سے ارگ (صدارتی محل) پہنچا۔ گیٹ پر کھڑے گارڈز نے مجھے دیکھ کر کہا :تم کیا لینے آگئے ہو؟ میں کچھ حیران تو ہوا لیکن اپنی مخصوص جگہ پر گاڑی کھڑی کرکے دفتر کی طرف چل پڑا۔ جس عمارت میں میرا دفتر تھا وہ پانچ منزلہ تھی اور میرا دفتر دوسری منزل پر تھا۔ میں جیسے ہی عمارت کے اندر داخل ہوا‘ مجھے اس کے خالی پن کا احساس ہوا۔ میں لفٹ کے ذریعے اپنے فلور پر گیا تو وہ مکمل خالی تھا۔ میں نے تیسری اور پھر چوتھی منزل بھی دیکھی‘ وہ بھی خالی تھیں۔ مجھے اتنی بڑی عمارت میں اکیلا ہونے کا خیال آیا تو میں ڈر گیا۔ میں تیزی سے نیچے آیااورسامنے والی عمارت میں گیا تو وہ بھی مکمل خالی تھی۔ اتنی دیر میں ایک اور شخص آگیا جو میرے ساتھ ہی کام کرتا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ ابھی میں اس سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ میرا باس ارگ کے اس حصے سے نکل کر آیا جو صدر کے استعمال میں رہتا ہے۔ وہ رورہا تھا۔ اتنی دیر میں اشرف غنی کے سرکاری گارڈز بھی وہاں آگئے‘ وہ بھی رو رہے تھے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ صدر جا چکا ہے۔ یہ سن کر ہم بھی رونے لگے۔ پھر میرے باس نے مجھے اپنا موبائل فون دیا اور کہا کہ وڈیو بناؤ۔ میں کچھ سمجھا نہیں لیکن میں نے وڈیو بنانا شروع کردی۔ اس نے گیٹ پر کھڑے ایک گارڈ کو بلایا۔ اسے سرکاری گاڑی کی چابی دی اور کیمرے کی طرف رخ کرکے کہا کہ میں نے سرکاری گاڑی واپس کردی ہے اور گارڈ کو ہدایت کردی ہے کہ ارگ کا جو بھی ملازم یہاں آئے‘ اس سے تمام سرکاری چیزیں واپس لے لے۔ میں نے وڈیو ریکارڈ کرکے اس کا موبائل واپس کیا تو اس نے دوبارہ وڈیو ریکارڈنگ شروع کردی اور کیمرے کا رخ میری طرف کرکے پوچھا: تمہارے پاس اپنی گاڑی ہے؟ میں نے کہا: ہاں‘ تو اس نے درخواست کی کہ میں اسے گھر چھوڑ دوں۔ وہ یہ وڈیو اس لیے بنا رہا تھا تاکہ اس پر کوئی الزام لگے تو ثبوت کے طور پر یہ وڈیو پیش کر دے۔ میں نے اسے گھر چھوڑنے کی ہامی بھرلی۔ وہ گاڑی میں بیٹھا‘ ہم دونوں ارگ سے باہر نکلے تو اس کے گھر جانے والے سبھی راستے بند تھے۔ میں نے کوشش کی اسے گھر تک پہنچانے کی لیکن ایسا نہ کرسکا۔ ناچار مجھے اپنے باس کو سڑک پر ہی اتارنا پڑا اور وہ پیدل اپنے گھر کی طرف چل پڑا جو اس جگہ سے پندرہ کلومیٹردور تھا۔
میں نے پوچھا: طالبان کے آنے کے بعد تمہاری ملاقات ہوئی اس کے ساتھ؟ کس کے ساتھ‘ اشرف غنی یا باس کے ساتھ‘ اس نے وضاحت چاہی۔ اپنے باس کے ساتھ‘ میں نے کہا۔ وہ ہلکے سے ہنسا‘ چند سیکنڈ خاموش رہا اوربولا: نہیں۔ ارگ میں دوبارہ کام کرو گے؟ میں نے اگلا سوال پوچھا۔ نہیں‘ میں طالبان کے ساتھ کام نہیں کرسکتا‘ اب میں کاروبار کروں گا یا کسی دوسرے ملک چلا جاؤں گا۔ پھر بولا: کیا تم مجھے پاکستان کا ویزہ دلا سکتے ہو؟(جاری)