تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     28-09-2021

نوا ز شریف واپس کیوں آ رہے ہیں؟

مسلم لیگ نون میں ہر طرف شور برپا ہے کہ میاں نواز شریف واپس آنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ ''انہیں انتظارہے تو صرف ایک تقرری کا۔ جس دن شہرِ اقتدار کا مزاج بدلے گا‘ اسی دن میاں صاحب واپسی کا اعلان کر دیں گے۔ اب اسلام آباد کے موسم میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اکتوبر میں ہی حبس کا موسم تمام ہو جائے‘‘۔ یہ وہ جملے تھے جو مسلم لیگ نون کے دو رہنماؤں کے درمیان ہونے والے طویل مکالمے کی ابتدا بنے۔ ایک رہنما کا تعلق مزاحمتی گروپ سے تھا اور دوسرا مفاہمتی گروپ کا حامی۔ ایک لڑائی کو طول دینا چاہتا تھا اور دوسرا صلح کا عَلم بلند کیے ہوئے تھا۔ ایک پارٹی قائد کی واپسی کا حامی تھا تو دوسرا ان کے لندن میں قیام کا داعی۔ یہ مباحثہ جہاں مستقبل کا منظرنامہ پیش کر رہا تھا وہیں بدلتے موسم کے راز بھی افشا کر رہا تھا۔ مزاحمتی گروپ کے رہنما نے میاں صاحب کی واپسی کا پلان بتایا تو مفاہمتی گروپ کے رہنما کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ دونوں نہ چاہتے ہوئے بھی بولنے پر مجبور ہو گئے۔
رہنما مفاہمتی گروپ: موجودہ سیٹ اپ کے ہوتے ہوئے میاں صاحب کو ہرگز واپس نہیں آنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے ساتھ ساتھ پارٹی کو بھی نقصان ہوگا۔ ایک بار پھر پکڑ دھکڑ شروع ہو جائے گی۔ پارٹی کے تمام بڑے لیڈرز دوبارہ جیل چلے گئے تو کون ذمہ دار ہوگا؟ الیکشن سر پر ہیں‘ ایسا ہونے سے پارٹی ورکرز بددل ہو جائیں گے۔ہماری جماعت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
رہنما مزاحمتی گروپ: انقلاب شخصیات سے نہیں‘ نظریات سے آتا ہے۔ کشش نعروں میں ہوتی ہے‘ نعرہ لگانے والوں میں نہیں۔
رہنما مفاہمتی گروپ: یہ جذباتی باتیں ہیں۔ سیاست کا جذباتیت سے کیا تعلق؟ میاں صاحب واپس آئے تو ہمارے حالات دوبارہ 2018ء والے ہو جائیں گے۔ پھر پارٹی رہے گی نہ ووٹ بینک۔ ممکن ہے کہ ہم قومی اور پنجاب اسمبلی میں اتنی نشستیں بھی نہ جیت سکیں۔ اگر ایسا ہوا تو مزاحمت کرنے والا بھی کوئی نہیں رہے گا۔ ہمیں سیاست کے بڑے کھلاڑیوں سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنا ہوں گے ورنہ ہمارے لیے 2023ء میں الیکشن کا ہونا‘ نہ ہونا ایک برابر ہوگا۔
رہنما مزاحمتی گروپ: میاں صاحب بھی آئندہ الیکشن کو لے کر فکرمند ہیں۔ اسی لیے انہوں نے تمام اضلاع کے عہدے داروں سے مشورے کے بعد واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ الیکشن مہم کو خود لیڈ کرنا چاہتے ہیں۔
رہنما مفاہمتی گروپ: میاں صاحب نے واپسی پر جاتی امرا نہیں‘ جیل جانا ہے۔ بھلا کوئی جیل سے کیسے الیکشن مہم چلا سکتا ہے؟
رہنما مزاحمتی گروپ: آپ درست فرما رہے ہیں۔ مگر وہ 2023ء کا الیکشن بھی لڑیں گے اور پارٹی کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بھی ہوں گے۔
(یہ بات میرے اور لیگی رہنما‘ دونوں کے لیے بہت تعجب خیز تھی۔ ہم دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تو مزاحمتی گروپ کے رہنما نے بھرپور قہقہہ لگایا اور ہماری لاعلمی کا مذاق اڑایا)
رہنما مفاہمتی گروپ: وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار پارٹی میں سے کوئی بھی ہو‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ سب ہوگا کیسے؟ موجودہ سیٹ اَپ میں تو ایسا ہونا کسی صورت ممکن نہیں ہے، ان کی برسوں کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
رہنما مزاحمتی گروپ: یہ سیٹ اَپ ٹوٹنے والا ہے، کچھ دنوں تک یہ خوشخبری بھی آ جائے گی۔ ضروری نہیں کہ نئے آنے والے پرانے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلیں۔
رہنما مفاہمتی گروپ: ایک کے جانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کم از کم دو تبدیلیاں ہوں‘ تب یہ خوش خبری کی بات ہو گی۔
رہنما مزاحمتی گروپ: زمین خالی پڑی ہو تو اناج خود بخود نہیں اُگتا۔ بیج اور پانی دینا پڑتا ہے۔ طرح طرح کے سپرے کرنا پڑتے ہیں۔ پھر جا کر فصل تیار ہوتی ہے۔ جب بیج، پانی اور سپرے کا انتظام کرنے والا کوئی نہیں ہو گا تو خالی زمین کا کیا فائدہ؟
رہنما مفاہمتی گروپ: کیا دیگر پارٹی لیڈران ‘چھوٹے میاں صاحب اور مریم نواز کی بھی یہی مرضی ہے؟
رہنما مزاحمتی گروپ:نہیں! وہ اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ کم از کم اس حکومت کے ہوتے ہوئے تو بالکل نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ میاں نواز شریف واپس آ کر جیل جائیں۔ اس نکتے پر دونوں متفق تو ہیں مگر ایسا سوچنے کی وجوہات الگ الگ ہیں۔ مریم نواز کو اپنے والد کی صحت عزیز ہے اور میاں شہاز شریف کو صحت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی۔
رہنما مفاہمتی گروپ: چلیں! ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں یہ سیٹ اپ تبدیل ہو گیا، مگر اس سے ہماری پارٹی کو کیا فائدہ ہو گا؟ میاں صاحب کی پرانے مقدمات اور سزاؤں سے جان کیسے چھوٹے گی؟
رہنما مزاحمتی گروپ: میا ں صاحب کے خلاف کیس اب بہت کمزور ہو چکا ہے۔ ان کے پاس بہت سے نئے ثبوت ہیں۔ کچھ وڈیوز اور کچھ دستاویزات، نئے شواہد کی بنیاد پر دِنوں میں ضمانت ہو سکتی ہے۔
رہنما مفاہمتی گروپ: ضمانت ملنے پر وہ سیاست میں متحرک ہو سکتے ہیں مگر پارلیمانی سیاست کے لیے سزاؤں کا ختم ہونا ضروری ہے۔
رہنما مزاحمتی گروپ: ایک بار ضمانت مل گئی تو وقت آنے پر سزائیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ ایک شخصیت میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کے حق میں گواہی دینے کے لیے رضامند ہو گئی ہے۔ اگر یہ گواہی عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گئی تو کیس کی ''شان و شوکت‘‘ بہت بڑھ جائے گی۔ اس لیے میاں صاحب جلد از جلد واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔
یہ ساری کہانی سن کر مفاہمتی گروپ کے رہنما قدرے مضطرب ہو گئے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ خوش ہوں یا پریشان۔ آنے والے دنوں سے ڈریں یا اچھے وقت کی آس جگائیں۔ وہ لمحے بھر کے لیے خاموش ہوئے تو میں نے موقع پاکر سوال کیا: اگر میاں صاحب واپس آئے تو سیاسی درجہ حرارت بہت اوپر چلا جائے گا۔ ممکن ہے کہ پھر پی ڈی ایم کے اکابرین آپ کی پارٹی کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا آپشن دیں۔ کیا مسلم لیگ نون اُس وقت اسمبلیوں سے استعفے دیدے گی؟
رہنما مفاہمتی گروپ: نہیں! اب یہ ممکن نہیں ہے۔ پوری پارٹی فیصلہ کر چکی ہے کہ اب اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیں گے۔ اگر ہم اسمبلیوں سے نکل گئے تو حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قانون پاس کر لے گی اور الیکشن کمیشن کے اختیارات بھی کم کر دے گی۔ چیئرمین نیب کی تقرری اورنگران حکومت میں بھی حکومت کی مرضی چلے گی، اس لیے ہم کسی صورت استعفے نہیں دیں گے۔
رہنما مزاحمتی گروپ: سب سے بڑھ کر ہمیں میاں نواز شریف کے منصوبے کا خیال بھی رکھنا ہے۔ ان کی واپسی سے لے کر ضمانت تک اور ضمانت سے لے کر بریت تک کم از کم ڈیڑھ سال کا عرصہ درکار ہے۔ اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ قبل از وقت انتخابات ہوں۔ ہماری پلاننگ میاں صاحب کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی ہے۔
اس کے بعد میٹنگ برخاست ہو گئی۔ دونوں رہنماؤں کے بیچ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور دونوں اپنی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے کان سرخ ہو چکے تھے اور میں سوچوں میں گم تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ ہوگا بھی یا نہیں! میاں صاحب واپس آئیں گے تو کب؟ چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے تو کیسے؟ میں یہ فیصلہ کرنے سے بھی قاصر تھا کہ دونوں میں سے کون زمینی حقائق کے مطابق بات کر رہا تھا اور کون دیوانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved